Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Wudu' From The Water Left (In A Container) After A Dog Has Drunk From It)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
74.
حضرت ( عبداللہ) ابن مغفل (مزنی) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک بار) کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا مگر اس کے بعد فرمایا: ’’لوگوں کو ان کے قتل کی ضرورت کیا ہے؟ اور ان کتوں کا قصور کیا ہے؟“ پھر آپ ﷺ نے شکار اور بکریوں ( وغیرہ ) کی حفاظت کے لیے ان کے رکھنے کی اجازت دے دی اور فرمایا: ’’جب کتا برتن میں منہ مار جائے تو اسے سات بار دھوو اور آٹھویں بار مٹی سے مانجو۔“ امام ابوداؤدکہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ نے ایسے ہی کہا۔
تشریح:
(1) کتا جس برتن میں منہ مار جائے اس میں موجود چیز (بشکل طعام وشراب) کوگرا دیا جائے اور برتن کوسات یا آٹھ بار دھویا جائے اورایک بارمٹی سےضرور مانجا جائے۔ (2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کےبعض شاگردوں نےمٹی سےمانجنے کاذکر چھوڑدیا ہے تواس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اصل روایت میں یہ ہےہی نہیں۔ احتمال ہےکہ انہوں نے اختصار سےکام لیاہو۔ جبکہ محمدبن سیرین، ابوایوب سختیانی،حسن بصری اور ابورافع رحمہم اللہ نے مٹی سے مانجنے کا ذکر کیا ہے۔اور’’ ثقہ کی زیادت مقبول ہواکرتی ہے.....،، اسی قاعدےکےتحت حضرت عبداللہ بن مغفل کی روایت آٹھویں بار کی قابل قبول ہے۔ (3) جدید تحقیقات مؤید ہیں کہ کتے کےجراثیم کے لیے مٹی ہی کما حقہ قاتل ہے۔ (4) کتا خواہ شکاری ہواس کالعاب نجس ہے۔شکار کےمعاملے میں خاص استثنا معلوم ہوتاہے۔ (5) کتوں کوبالعموم قتل کرنامنسوخ ہےتاکہ ان کی نسل کلی طور پر تباہ نہ ہوجائے۔ (6) شکار اور حفاظت کےلیے کتے کا رکھنا جائز ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرطهما. وأخرجه مسلم وأبو عوانة في صحيحيهما وقال ابن منده: إنه مجمع على صحته) . إسناده: حدثنا أحمد بن محمد بن حنبل: ثنا يحيى بن سعيد عن شعبة: ثنا أبو التياح عن مُطَرف عن ابن مُغفل. وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين، وقد أخرجه مسلم كما يأتي. وأخرجه أبو عوانة من طريق المؤلف. وهو في المسند (4/86) بهذا السند. والحديث أخرجه مسلم وأبو عوانة والنسائي والدارمي وابن ماجه والطحاوي والدارقطني والبيهقي، وأحمد أيضا (5/56) من طرق عن شعبة... به. قال ابن التركماني: وأخرجه ابن منده من طريق شعبة وقال: إسناد مجمع على صحته . (تنبيه) : في هذا الحديث زيادة غسلة على حديث أبي هريرة الذي قبله؛ فينبغي الأخذ بالزائد من الحديث- كما هي القاعدة-. وقد ثبت القول بذلك عن الحسن البصري، وبه قال أحمد. وحاول بعضهم الجمع بين الحديثين بما فيه تكلف طاهر! ولذلك رده بعض المحققين؛ وتجد شرح ذلك في الفتح (1/222- 223)
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
حضرت ( عبداللہ) ابن مغفل (مزنی) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک بار) کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا مگر اس کے بعد فرمایا: ’’لوگوں کو ان کے قتل کی ضرورت کیا ہے؟ اور ان کتوں کا قصور کیا ہے؟“ پھر آپ ﷺ نے شکار اور بکریوں ( وغیرہ ) کی حفاظت کے لیے ان کے رکھنے کی اجازت دے دی اور فرمایا: ’’جب کتا برتن میں منہ مار جائے تو اسے سات بار دھوو اور آٹھویں بار مٹی سے مانجو۔“ امام ابوداؤدکہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ نے ایسے ہی کہا۔
حدیث حاشیہ:
(1) کتا جس برتن میں منہ مار جائے اس میں موجود چیز (بشکل طعام وشراب) کوگرا دیا جائے اور برتن کوسات یا آٹھ بار دھویا جائے اورایک بارمٹی سےضرور مانجا جائے۔ (2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کےبعض شاگردوں نےمٹی سےمانجنے کاذکر چھوڑدیا ہے تواس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اصل روایت میں یہ ہےہی نہیں۔ احتمال ہےکہ انہوں نے اختصار سےکام لیاہو۔ جبکہ محمدبن سیرین، ابوایوب سختیانی،حسن بصری اور ابورافع رحمہم اللہ نے مٹی سے مانجنے کا ذکر کیا ہے۔اور’’ ثقہ کی زیادت مقبول ہواکرتی ہے.....،، اسی قاعدےکےتحت حضرت عبداللہ بن مغفل کی روایت آٹھویں بار کی قابل قبول ہے۔ (3) جدید تحقیقات مؤید ہیں کہ کتے کےجراثیم کے لیے مٹی ہی کما حقہ قاتل ہے۔ (4) کتا خواہ شکاری ہواس کالعاب نجس ہے۔شکار کےمعاملے میں خاص استثنا معلوم ہوتاہے۔ (5) کتوں کوبالعموم قتل کرنامنسوخ ہےتاکہ ان کی نسل کلی طور پر تباہ نہ ہوجائے۔ (6) شکار اور حفاظت کےلیے کتے کا رکھنا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن مغفل ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا پھر فرمایا: ’’لوگوں کو ان سے کیا سروکار؟‘‘ ۱؎ پھر آپ ﷺ نے شکاری کتوں اور بکریوں کے نگراں کتوں کے پالنے کی اجازت دی، اور فرمایا: ’’جب کتا برتن میں منہ ڈال دے، تو اسے سات بار دھوؤ اور آٹھویں بار مٹی سے مانجھو۔‘‘ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن مغفل نے ایسا ہی کہا ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : اس میں سابق حکم کی منسوخی اور کتوں کے قتل سے باز رہنے کی دلیل ہے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Mughaffal: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) ordered the killing of the dogs, and then said: Why are they (people) after them (dogs)? And then granted permission (to keep) for hunting and for (the security) of the herd, and said: When the dog licks the utensil wash it seven times, and rub it with earth the eighth time. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: Ibn Mughaffal narrated in a similar way.