باب: عورت کے (استعمال سے) بچے ہوئے پانی سے وضو کرنا
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Wudu' From The Water Left By A Woman)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
78.
سیدہ ام صُبَیّہ جُہَنِیَّہ ( خولہ بنت قیس ) ؓ کہتی ہیں کہ ایک برتن سے وضو کرتے ہوئے میرا اور رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ باری باری برتن میں پڑتا تھا۔
تشریح:
توضیح: حضرت خولہ رضی اللہ عنہا کا رسول اللہﷺ سے محرم ہونے کا کوئی رشتہ ثابت نہیں ہے۔ یہ واقعہ شاید6ھ آیات حجاب کے نزول سے پہلے کا ہو۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده حسن صحيح، وحسنه الحافظ العراقي) .إسناده: حدثنا عبد الله بن محمد النُفَيْليّ: ثنا وكيع عن أسامة بن زيد عن ابن خَرَّبوذ عن أم صبية. وهذا إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات، وفي أسامة بن زيد- وهو الليثي- كلام
لا يضر ولا ينزل حديثه من رتبة الحسن؛ على أنه لم يتفرد به، كما يأتي، فالحديث صحيح. وابن خرّبوذ- بفتح الخاء المعجمة، وشدة الراء المهملة مفتوحة، وضم الموحدة، وسكون الواو، ثمّ الذال المعجمة-؛ اسمه: سالم بن سَرْج أبو النعمان، وبعض الرواة يقول فيه: سالم بن النعمان؛ وقد وثقه ابن معين وغيره. والحديث أخرجه ابن ماجه والطحاوي والبيهقي من طرق أخرى عن أسامة ابن زيد... به. وكذلك أخرجه أحمد (6/367) . ثمّ أخرجه هو، والبخاري في الأدب المفرد (ص 153) - من طريق خارجة ابن الحارث بن رافع بن مَكِيث الجهَني-، والدارقطني (ص 20) - عن خارجة بن عبد الله؛ قال الأول: عن سالم بن سرج، وقال الأخر: نا سالم أبو النعمان-... به وخارجة بن الحارث هذا ثقة اتفافاً. وأما خارجة بن عبد الله- وهو ابن سليمان بن زيد بن ثابت الأنصاري-؛ فمختلف فيه. قال ابن ماجه: سمعت محمداً يقول: أم صُبية: هي خولة بنت قيس. فذكرت لأبما زرعة؟ فقال: صدق.قلت: وقد جاء مصرحاً باسمها في رواية الدارقطني، وكذا البخاري. والحديث حسنه العراقي في التثريب (2/39) .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدہ ام صُبَیّہ جُہَنِیَّہ ( خولہ بنت قیس ) ؓ کہتی ہیں کہ ایک برتن سے وضو کرتے ہوئے میرا اور رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ باری باری برتن میں پڑتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
توضیح: حضرت خولہ رضی اللہ عنہا کا رسول اللہﷺ سے محرم ہونے کا کوئی رشتہ ثابت نہیں ہے۔ یہ واقعہ شاید6ھ آیات حجاب کے نزول سے پہلے کا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام صبیہ جہنیہ ( خولہ بنت قیس ) ؓ کہتی ہیں کہ میرے اور رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ وضو کرتے وقت ایک ہی برتن میں باری باری پڑتے ۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Umm Subayyah al-Juhainiyah (RA): My hands and the hands of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) alternated into one vessel while we performed ablution.