Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Prohibition Of That)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
82.
حکم بن عمرو، اور یہ اقرع ہیں، سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مرد، عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرے۔
تشریح:
فوائد: یہ نہی یا تو رخصت سے پہلے کی ہے۔ یا احتیاط پر محمول ہے۔ تاہم کتاب العلل ترمذی میں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حکم بن عمرو اقرع کی حدیث کو ضعیف قراردیا ہے۔ اور صحیح تر وہی ہے جو پچھلے باب میں مذکور ہوا کہ عورت مرد ایک دوسرے کے استعمال شدہ اور بچے ہوئے پانی سے وضو اور غسل کرسکتے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وصححه ابن حبان، وحسنه الترمذي) . إسناده. حدثنا ابن بشار: ثنا أبو داود- يعني: الطيالسي-: ثنا شعبة عن عاصم عن أبي حاجب عن الحكم بن عمرو. وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال مسلم؛ غير أبي حاجب- واسمه سَوَادة بن عاصم العَنَزِي-، وهو ثقة بلا خلاف. والحديث رواه البيهقي (1/191) من طريق المؤلف. وهو في مسند الطيالسي - رواية يونس بن حبيب عنه- برقم (1252) ، لكن ليس في روايته تسمية الحكم بن عمرو؛ بل فيه: سمعت أبا حاجب يحدث عن رجل من أصحاب النبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... ثمّ قال يونس: هكذا حدثنا أبو داود! قال عبد الصمد بن عبد الوارث عن شعبة عن عاصم عن أبي حاجب عن الحكم بن عمرو.
قلت: ورواه البيهقي عن يونس... به كما في المسند . وخالفه جمع من الثقات؛ فرووه كما رواه. المصنف عن ابن يشار.
وكذلك رواه الترمذي، وابن ماجه عن محمد بن يشار، وكذا البيهقي. ثمّ أخرجه النسائي (1/64) ، والترمذي أيضا، وأحمد (5/66) من طرق عن أبي داود... به. فلعل أبا داود الطيالسي كان أحياناً يصرح باسم الصحابي، وأحياناً ييهمه.
ثمّ أخرجه أحمد (4/213) ، والطحاوي (14) ، والبيهقي من طرق أخرى عن شعبة... به مصرحاً باسم الصحابي. وتابعه - عن عاصم- : قيس بن الربيع: عند الطحاوي.
وتابع عاصماً- عن أبي حاجب-: سليمان التيمي؛ إلا أنه لم يُسَم الصحابي؛ بل قال: عن رجل من أصحاب النبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من بني غفار: أخرجه البيهقي، والترمذي، وقال: حديث حسن . وأما البيهقي؛ فيظهر أنه حاول إعلاله بما رواه عن البخاري أنه قال: سوادة بن عاصم أبو حاجب العنزي؛ يعد في البصريين؛ ويقال: الغفاري، ولا أراه يصح عن الحكم بن عمرو . وصرح الترمذي في العلل عن البخاري أنه قال عن هذا الحديث: ليس بصحيح !
قلت: وهذا من الإمام جرح مبهم؛ فلا يقبل، ولعل سوادة لم تثبت عنده عدالته، أو لقاؤه للحكم؛ فقد ثبت ذلك عند غيره كما سبق؛ وإنما يشترط التصريح باللقاء عند الجمهور من المدلس فقط؛ خلافاً البخاري، كما مضى. ثم روى البيهقي الحديث من طرق أخرى عن سوادة العنزي عن الحكم... موقوفاً عليه. وهذا ليس بعلة؛ فقد رفعه عنه ثقتان، وهي زيادة يجب قبولها ولا يجوز هدرها. ولذلك لم يلتفت الحافظ إلى تضعيف الحديث، بل رد على من فعل ذلك، فقال في الفتح (1/240) : أما حديث الحكم بن عمرو؛ فأخرجه أصحاب السنن ، وحسنه الترمذي، وصححه ابن حبان، وأغرب النووي فقال: اتفق الحفاظ على تضعيفه . (فائدة) : قد روى عاصم هذا الحديث عن عبد الله بن سَرْجِس أيضا: أخرجه
ابن ماجه والطحاوي، والدارقطني (ص 43) ، والبيهقي من طريق عبد العزيز بن المختار عن عاصم الأحول... به بزيادة؛ ولفظه: نهى رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أن يغتسل الرجل بفضل المرأة، والمرأة بفضل الرجل؛ ولكن يشرعان جميعاً.
وإسناده صحيح على شرطهما؛ وليس عند البيهقي الشطر الثاني منه. وكذلك رواه ابن حزم (1/212) ، وجعل ذلك حجة في النهي عن استعمال الرجل فضل المرأة لا العكس! وهذه الروايات ترد عليه؛ لكن عذره أنه لم يقف عليها.
وقد أعِل حديث عاصم هذا بما أعِل به سابقه؛ وهو أن شعبة رواه عن عاصم... موقوفاً. وقال الدارقطني- وتبعه البيهقي-: إنه أولى بالصواب ! والجواب ما سبق.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
حکم بن عمرو، اور یہ اقرع ہیں، سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مرد، عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد: یہ نہی یا تو رخصت سے پہلے کی ہے۔ یا احتیاط پر محمول ہے۔ تاہم کتاب العلل ترمذی میں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حکم بن عمرو اقرع کی حدیث کو ضعیف قراردیا ہے۔ اور صحیح تر وہی ہے جو پچھلے باب میں مذکور ہوا کہ عورت مرد ایک دوسرے کے استعمال شدہ اور بچے ہوئے پانی سے وضو اور غسل کرسکتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حکم بن عمرو یعنی اقرع سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مرد کو عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : مرد اور عورت کے بچے ہوئے پانی سے پاکی حاصل کرنے کی ممانعت اور جواز سے متعلق روایات میں تطبیق کی ایک صورت یہ ہے کہ ممانعت کی روایتوں کو اس پانی پر محمول کیا جائے جو اعضاء کو دھوتے وقت گرا ہو، اور جواز کی روایتوں کو اس پانی پر جو برتن میں بچا ہو، دوسری صورت یہ ہے کہ ممانعت کی روایتوں کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hakam ibn 'Amr (RA): The Prophet (ﷺ) forbade that the male should perform ablution with the water left over by the female.