باب: کھجور اور منقی کے شربت (نبیذ) سے وضو کرنا...؟
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Wudu' Using An-Nabidh)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
84.
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے جنوں والی رات پوچھا کہ ’’تمہارے برتن میں کیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: نبیذ (یعنی کھجور کا شربت) ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کھجور پاکیزہ پھل ہے اور پانی پاک ہے۔‘‘ سلیمان بن داود کی روایت میں ہے کہ شریک کو وہم ہوا اور انہوں نے ابوزید یا زید کہا۔ (جبکہ ہناد کو وہم نہیں ہوا، اس نے ابوزید ہی کہا ۔) ایسے ہی ہناد کی روایت میں «لَيْلَةُ الْجِن» کا ذکر نہیں ہے (اور سلیمان کی روایت میں موجود ہے)۔
تشریح:
وضاحت: یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کا راوی ابو زید مجہول ہے۔ اس لیے یہ قابل عمل نہیں۔ نیز درج ذیل صحیح حدیث اس کی توضیح کر رہی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف، وضعفه البخاري والترمذي وأبو زرعة وابن عدي وابن المنذر وابن عبد البر، وقال: إنه حديث منكر ) . إسناده: حدثنا هناد وسليمان بن داود العتكِي قالا: ثنا شريك. قال أبو داود: وقال سليمان بن داود: عن أبي زيد أو زيد. كذا قال شريك، ولم يذكر هناد: ليلة الجن . قلت: وهذا سند ضعيف؛ وعلته أبو زيد هذا؛ فإنه مجهول اتفاقاً وكان نباذا بالكوفة؛ كما قال المصنف- على ما في التهذيب -. وقال ابن أبي حاتم في العلل (1/17 رقم 14) : سمعت أبا زرعة يقول: حديث أبي فزارة ليس بصحيح، وأبو زيد مجهول . وقال البخاري: لا يصح حديثه . وقال ابن عبد البر: اتفقوا على أن أبا زيد مجهول، وحديثه منكر . قلت: وأما أبو فزارة؛ فهو العبسي، فقيل: إنه راشد بن كيسان، وعلى هذا فهو ثقة من رجال مسلم. وقيل: إنه آخر، وإنه مجهول. قال المنذري في مختصره :
ولو ثبت أن راوي الحديث هو راشد بن كيسان؛ كان فيما تقدم كفاية في ضعف الحديث . والحديث أخرجه الترمذي وابن ماجه والبيهقي وعبد الرزاق (1/179) ، وابن أبي شيبة (1/25- 26) ، وأحمد (1/402 و 449 و 450 و 458) من طرق عن أبي فزارة العبسي... به. وقال الترمذي: وأبو زيد رجل مجهول عند أهل الحديث، لا تعرف له رواية غير هذا الحديث . ثم أشار الترمذي بقوله: وإنما روي هذا الحديث عن أبي زيد عن عبد الله عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إلى أنه ليس له طريق غير هذه! وليس كذلك؛ فقد أخرجه الدارقطني (ص 28) ، وأحمد (1/398) ، وكذا
الطحاوي (1/57) من طريق ابن لهيعة عن قيس بن الحجاج عن حنش الصنعانيعن ابن عباس عن عبد الله بن مسعود... به نحوه. وقال الدارقطني: تفرد به ابن لهيعة، وهو ضعيف . وعنه: أخرجه للطبراني والبزار، وقال: هذا حديث لا يثبت؛ لأن ابن لهيعة كانت كتبه قد احترقت، وبقي يقرأ كتب غيره، فصار في أحاديثه مناكير، وهذا منها . ومن هذا الوجه: رواه ابن ماجه أيضاً؛ لكن جعله من (مسند ابن عباس) . ثم أخرجه الدارقطني وأحمد (1/455) من طريق حماد بن سلمة عن علي زيد عن أبي رافع عن ابن مسعود... به. وعلي بن زيد: هو ابن جدعان، ضعيف. وله طرق أخرى، أوردها الزيلعي، ولا يصح شيء منها، كما قال البيهقي. ويعارض هذا الحديث تصريحُ ابن مسعود أنه لم يشهد ليلة الجن؛ فانظر (رقم 77) من صحيح سنن المؤلف .
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان سے جنوں والی رات پوچھا کہ ’’تمہارے برتن میں کیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: نبیذ (یعنی کھجور کا شربت) ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کھجور پاکیزہ پھل ہے اور پانی پاک ہے۔‘‘ سلیمان بن داود کی روایت میں ہے کہ شریک کو وہم ہوا اور انہوں نے ابوزید یا زید کہا۔ (جبکہ ہناد کو وہم نہیں ہوا، اس نے ابوزید ہی کہا ۔) ایسے ہی ہناد کی روایت میں «لَيْلَةُ الْجِن» کا ذکر نہیں ہے (اور سلیمان کی روایت میں موجود ہے)۔
حدیث حاشیہ:
وضاحت: یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کا راوی ابو زید مجہول ہے۔ اس لیے یہ قابل عمل نہیں۔ نیز درج ذیل صحیح حدیث اس کی توضیح کر رہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے جنوں والی رات میں مجھ سے پوچھا:’’تمہاری چھاگل میں کیا ہے؟‘‘ ، میں نے کہا: نبیذ، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ پاک کھجور اور پاک پانی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn Mas'ud (RA): Abu Zayd quoted 'Abdullah ibn Mas'ud (RA) as saying that on the night when the jinn listened to the Qur'an the Prophet (ﷺ) said: What is in your skin vessel? He said: I have some nabidh. He (the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم) said: It consists of fresh dates and pure water. Sulayman ibn Dawud رحمۃ اللہ علیہ reported the same version of this tradition on the authority of Abu Zayd or Zayd. But Sharik said that Hammad did not mention the words "night of the jinn".