باب: کھجور اور منقی کے شربت (نبیذ) سے وضو کرنا...؟
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Wudu' Using An-Nabidh)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
85.
علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے دریافت کیا کہ (رسول اللہ ﷺ کی) جنوں سے ملاقات والی رات آپ لوگوں میں سے کون رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی آپ ﷺ کے ساتھ نہ تھا۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه في صحيحه . وصححه الترمذي والدارقطني والطحادي) .
إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا وُهَيْب عن داود عن عامر عن علقمة. وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ وقد أخرجه كما يأتي. والحديث أخرجه الطيالسي في مسنده (رقم 281) قال: حدثنا وهيب بن خالد ويزيد بن زرَبع عن داود بن أبي هند... به أتم منه، ولفظه: قال: قلت لابن مسعود: إن الناس يتحدثون أنك كنت مع رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ليلة الجن؟ فقال: ما صحيه منا أحد، ولكنا فقدناه بمكة فطلبناه في الشعاب وفي الأودية؛ فقلنا: اغتيل، استطير إ! فبتنا بشر ليلة بات فيها قوم! فلما أصبحنا رأيناه مقبلاً فقلنا: يا رسول الله بتنا الليلة بشر ليلة بات فيها قوم، فقدناك؟! فقال: إنه أتاني داعي الجن، فانطلقت أقْرِئهم القرآن . فانطلق بنا؛ فأرانا بيوتهم ونيرا نهم، وسألوه الزاد فقال: كل عظم لم (بدون لم : عند مسلم!) يذكر عليه اسم الله؛ يقع في أيديكم أوفر ما كان لحماً، وكل بعرة علف لدوابكم . فنهى رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أن يستنجى بهما وقال: هما زاد إخوانكم من الجن . وأخرجه مسلم (2/36) ، والترمذي (2/219 طبع بولاق) - وقال: حديث حسن صحيح - والطحاوي (1/57) - وصححه- والدارقطني (28) والبيهقي وأحمد (1/436) من طرق عن داود بن أبي هند... به نحوه. وتابعه أبو معشر- وهو زياد بن كلَيْبِ- عن إبراهيم عن علقمة... به مختصراً بلفط: لم أكن ليلة الجن مع رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ووددت أني كنت معه.
أخرجه مسلم والطحاوي والبيهقي. ثمّ قال الدارقطني: هذا الصحيح عن ابن مسعود . (تنبيه) : قد يقول قائل: ما وجه المناسبة بين الباب والحديث؛ وليس فيه ما ترجم له المصنف؟! والجواب: أنه إنما أورده هنا؛ ليشير به إلى ضعف حديث أخر لابن مسعود ساقه قبيل حديثه هذا؛ ولفظه: أنّ النّبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال له ليلة الجن: ما في إداوتك؟. قال: نبيذ. قال: تمرة طيبة وماء طهور ؛ زاد غير المصنف: فتوضأ به. فببن المصنف أن هذا الحديث لا يصح؛ من أجل أن ابن مسعهد لم يكن ليلة الجن مع النّبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ كما شهد نفسه بذلك في هذا الحديث للصحيح؛ وقد أشار إلى ذلك أيضا الدارقطني بكلامه الذي ذكرناه آنفاً. ثمّ إن الحديث المشار إليه ضعيف من قبل إسناده أيضا؛ ولذلك أوردناه في كتابنا الآخر، وذكرنا هناك اتفاق العلماء على تضعيفه، فراجعه (رقم 11) .هذا؛ ومما سبق نعلم مناسبة إيراد المصنف الأثرين عن عطاء وأبي العالية؛ كما يأتي.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے دریافت کیا کہ (رسول اللہ ﷺ کی) جنوں سے ملاقات والی رات آپ لوگوں میں سے کون رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی آپ ﷺ کے ساتھ نہ تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے پوچھا: «لَيْلَةُ الْجِن» (جنوں والی رات) میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آپ لوگوں میں سے کون تھا؟ انہوں نے کہا: آپ ﷺ کے ساتھ ہم میں سے کوئی نہ تھا ۱؎ ۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جنوں کے پاس جانا چھ مرتبہ ثابت ہے، پہلی بار کا واقعہ مکہ میں پیش آیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نہیں تھے جیسا کہ مسلم اور ترمذی کے اندر سورہ احقاف کی تفسیر میں مذکور ہے، دوسری مرتبہ کا واقعہ مکہ ہی میں جبل حجون پر پیش آیا، تیسرا واقعہ اعلی مکہ میں پیش آیا، جب کہ چوتھا مدینہ میں بقیع غرقد کا ہے، ان تینوں راتوں میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، پانچواں واقعہ مدنی زندگی میں مدینہ سے باہر پیش آیا اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ تھے، چھٹا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی سفر کا ہے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بلال بن الحارث رضی اللہ عنہ تھے (ملاحظہ ہو: الكوكب الدري شرح الترمذي)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Alqamah: I asked ‘Abd Allah b Mas’ud (RA): Which of you was in the company of the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) on the night when the jinn attended him? He replied: None of us was with him.