باب: پیشاب پاخانہ کی حاجت ہونے کی حالت میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟
)
Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: Should A Person Offer Salat When He Fees to Urge To Relieve Himself)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
89.
جناب عبداللہ بن محمد بن ابی بکر (قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق کے بھائی) سے روایت ہے کہ ہم سیدہ عائشہ ؓ کے ہاں تھے کہ اس اثنا میں ان کا کھانا آ گیا، تو جناب قاسم کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: ’’جب کھانا حاضر ہو تو نماز نہ پڑھی جائے نیز ایسی حالت میں بھی کہ آدمی پیشاب پاخانے کو روک رہا ہو۔‘‘
تشریح:
فوائد و مسائل: (1) اس روایت کا ایک پس منظر ہے کہ جناب قاسم بن محمد کی والدہ ام ولد (لونڈی) تھیں اور اس کی تربیت کے اثر سے جناب قاسم کے عربی تکلم میں قدرے لحن تھا۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں تادیب کی تو وہ کچھ خفا ہوگئے اور کھانا چھوڑ کر نماز پڑھنے لگے۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں یہ حدیث سنائی اور امربالمعروف کا فریضہ ادا کیا۔ (2) خیال رہے کہ بھوک اور قضائے حاجت ایسے فطری امور ہیں جوانسان کے اپنے کنٹرول میں نہیں ہوتے۔ شریعت نے خصوصی طور پر ان سے فراغت حاصل کر لینے کا حکم دیا ہے، مگر ایسے اعمال جو انسان کے اپنے بس میں ہوں مثلاً کوئی کام ادھورا رہا ہو یا ویسے ہی ذہن پر سوار ہو تو دینی تقاضا یہ ہے کہ انسان ان امور سے اپنے آپ کو خالی الذہن کرکے نماز کی طرف متوجہ ہو اور اپنے کام یا تو قبل از نماز نمٹا لے یا بعد از نماز مکمل کرے، مثلاً سفر میں جمع بین الصلوٰتین کی رخصت موجود ہے۔ ماں کوبچہ پریشان کررہا ہو، تو اجازت ہے کہ اسے اٹھا کر نماز پڑھ لے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وأخرجه أبو عوانة في صحيحه من طريق المؤلف. وصححه الحاكم، ووافقه الذهبي. وأخرجه مسلم في صحيحه ، وكذا ابن حبان (2070 و 2071) ) .إسناده: حدثنا أحمد بن محمد بن حنبل ومحمد بن عيسى ومسدد- المعنى- قالوا: ثنا يحيى بن سعيد عن أبي حَزْرَةَ: ثنا عبد الله بن محمد- قال ابن عيسى
في حديثه- ابن أبي بكر- ثمّ اتفقوا- أخو القاسم بن محمد. وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين. والحديث أخرجه أبو عوانة (1/268) عن المصنف. وهو في المسند (6/43- 54) بهذا المسند. وأخرجه الحاكم (1/168) من طريقه ومن طريق مسدد أيضا شاهدالحديث عبد الله بن الأرقم الذي قبله، وصححه هو، والذهبي. وأخرجه مسلم (1/78- 79) ، وأبو عوانة أيضا، وأحمد (6/73) عن إسماعيل ابن جعفر قال: أخبرتي أبو حزرة القاص عن عبد الله بن أبي عتيق عن عائشة... المرفوع منه فقط. وعبد الله بن أبي عتيق هذا: هو عبد الله بن محمد بن عبد الرحمن بن أبي بكر الصديق، يعرف بابن أبي عتيق، وأبو عتيق كنية أبيه محمد بن عبد الرحمن ابن أبي بكر الصديق وهو ابن عم القاسم بن محمد وأخيه عبد الله هذا. فقد اختلف على أبي حزرة في اسم شيخه. فيحيى- وهو ابن سعيد- يقول: عنه عن عبد الله بن محمد.
وإسماعيل يقول: عنه عن عبد الله بن أبي عتيق. قال الحافظ في التهذيب : وهو المحفوظ ! كذا قال!ونحن نرى أن كليهما محفوظ، وأن لأبي حزرة فيه شيخين؛ بل ثلاثة. والثالث: هو القاسم أخو عبد الله: أخرجه الطحاوي في المشكل (2/404) من طريق يحيى بن أيوب عن يعقوب بن مجاهد أن القاسم بن محمد وعبد الله بن محمد نبآه عن عائشة...
به وتابعه عنده: حسين بن علي الجعفي عن أبي حزرة عن القاسم وحده.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
جناب عبداللہ بن محمد بن ابی بکر (قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق کے بھائی) سے روایت ہے کہ ہم سیدہ عائشہ ؓ کے ہاں تھے کہ اس اثنا میں ان کا کھانا آ گیا، تو جناب قاسم کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: ’’جب کھانا حاضر ہو تو نماز نہ پڑھی جائے نیز ایسی حالت میں بھی کہ آدمی پیشاب پاخانے کو روک رہا ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد و مسائل: (1) اس روایت کا ایک پس منظر ہے کہ جناب قاسم بن محمد کی والدہ ام ولد (لونڈی) تھیں اور اس کی تربیت کے اثر سے جناب قاسم کے عربی تکلم میں قدرے لحن تھا۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں تادیب کی تو وہ کچھ خفا ہوگئے اور کھانا چھوڑ کر نماز پڑھنے لگے۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں یہ حدیث سنائی اور امربالمعروف کا فریضہ ادا کیا۔ (2) خیال رہے کہ بھوک اور قضائے حاجت ایسے فطری امور ہیں جوانسان کے اپنے کنٹرول میں نہیں ہوتے۔ شریعت نے خصوصی طور پر ان سے فراغت حاصل کر لینے کا حکم دیا ہے، مگر ایسے اعمال جو انسان کے اپنے بس میں ہوں مثلاً کوئی کام ادھورا رہا ہو یا ویسے ہی ذہن پر سوار ہو تو دینی تقاضا یہ ہے کہ انسان ان امور سے اپنے آپ کو خالی الذہن کرکے نماز کی طرف متوجہ ہو اور اپنے کام یا تو قبل از نماز نمٹا لے یا بعد از نماز مکمل کرے، مثلاً سفر میں جمع بین الصلوٰتین کی رخصت موجود ہے۔ ماں کوبچہ پریشان کررہا ہو، تو اجازت ہے کہ اسے اٹھا کر نماز پڑھ لے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن محمد بن ابی بکر کا بیان ہے کہ ہم لوگ ام المؤمنین عائشہ ؓ کے پاس تھے، اتنے میں آپ کا کھانا لایا گیا تو قاسم (قاسم بن محمد) کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، یہ دیکھ کر وہ بولیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ’’کھانا موجود ہو تو نماز نہ پڑھی جائے اور نہ اس حال میں پڑھی جائے جب دونوں ناپسندیدہ چیزیں (پاخانہ و پیشاب) اسے زور سے لگے ہوئے ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abd Allah (RA) b. Muhammad: We were in the company of 'Aishah (RA). When her food was brought in, al-Qasim (RA) stood up to say his prayer. Thereupon, 'Aishah (RA) said: I heard the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) say: Prayer should not be offered in presence of meals, nor at the moment when one is struggling with two evils (e.g. when one is feeling the call of nature).