Abu-Daud:
The Chapter Related To The Beginning Of The Prayer
(Chapter: Returning The Salam During The Prayer)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
929.
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ معاویہ نے کہا: میرا خیال ہے کہ انہوں نے مرفوع بیان کیا۔ ”سلام میں اور نماز میں نقص نہیں۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں: ابن فضیل نے ابن مہدی کی (سابقہ روایت) کی مانند روایت کیا اور مرفوع نہیں کیا۔
تشریح:
1۔ (غرار) کا لفظی معنی نقص اور کمی کرنا ہے۔ نماز میں کمی دو طرح سے ہوسکتی ہے۔ ایک یہ کہ انسان اس کے رکوع اور سجود صحیح طور سے ادا نہ کرے۔ ارکان جلدی جلدی ادا کرے۔ اس سے نماز ناقص رہ جاتی ہے۔ بلکہ ہوتی ہی نہیں۔ دوسری صورت شک ہونے کی ہے۔ کہ مثلا تین یا چار رکعت میں شک ہوا کہ نہ معلوم کتنی رکعت پڑھی ہیں۔ تو انسان سمجھے کہ بس جتنی بھی ہوگئی ہے پوری ہوگئی ہے۔ یا وہ اسے چار رکعت ہی شمار کرلے۔ یہ کیفیت بھی نماز میں نقص ہے۔ چاہیے کہ بندہ یقین اور اعتماد سے نماز پوری پڑھے۔ یعنی اسے چار نہیں۔تین رکعت شمار کرلے۔ سلام میں نقص یوں ہے کہ سلام کہنے والے کو اس کے الفاظ کا پورا پورا جواب نہ دیا جائے۔ اگر زیادہ نہیں کہتا تو اسے پورے الفاظ سے جواب دے۔ ان میں کمی نہ کرے۔ مثلا کہنے والے نے السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ کہا ہے تو جواب میں وعلیکم السلام پرکفایت مناسب نہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں۔ (إذا سلم عليكم المسلم فردوا عليه أفضل مما سلم أو ردوا عليه بمثل ما سلم فالزيادة مندوبة والمماثلة مفروضة) یعنی جب تمھیں کوئی مسلمان سلام کہے تو اس کے سلام کا جواب اس کے سلام سے افضل الفاظ سے دو یا کم از کم اس کےسلام کے مثل جواب دو۔افضل جواب دینامستحب اور سلام کے مثل جواب دینا ضروری اور فرض ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج۔ 1 تفسیر سورہ نساء۔ آیت 86)واللہ أعلم۔ 2۔ اس حدیث سے یہ استدلال کہ نمازی کو سلام نہ کہا جائے اور وہ بھی جواب نہ دے صحیح نہیں۔ کیونکہ صحیح ترین احادیث سے نمازی کو سلام کہنے اور اشارے سے جواب دینے کی صراحت ثابت ہے۔ (مثلا مذکورہ بالا حدیث 927) اس لئے اس حدیث میں سلام کا جواب نہ دینے کی جو بات ہے۔ وہ اولا تو اس سے منہ سے الفاظ کے ساتھ جواب نہ دینا مراد ہے۔ ثانیا جواب دینے والی روایات قوی اور صریح ہیں۔ اس بنا پر ان کو ترجیح ہوگی۔ اور نماز میں سلام کا جواب اشارے سے دینا صحیح ہوگا۔
الحکم التفصیلی:
قلت: وهذا إسناد صحيح رجاله ثقات على شرط مسلم؛ ولم يخرجه. وأبو حازم: اسمه سلمان الأشجعي الكوفي. وأبو مالك: اسمه سعد بن طارق الأشجعي الكوفي. والحديث في المسند (2/461) ... بهذا السند. ومن طريقه: أخرجه الحاكم (1/264) ، وعنه- وعن المصنف- البيهقي (2/260 و 261) . وأخرجه الطحاوي في مشكل الآثار (2/229) من طريق أخرى عن ابن مهدي... به. وقال الحاكم: صحيح على شرط مسلم ، ووافقه الذهبي. قلت: ومخالفة ابن فضيل لا تُعِلهُ؛ للأن أبن مهدي أحفظ منه، ولأن الرفع زيادة، فهي مقبولة. وكذلك شَلث معاوية بن هشام- كما عو ظاهر-، لاسيما وهو متكلم فيه من قبل حفظه. وقد أخرجه الحاكم من طريق أخرى عنه.
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ معاویہ نے کہا: میرا خیال ہے کہ انہوں نے مرفوع بیان کیا۔ ”سلام میں اور نماز میں نقص نہیں۔“ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں: ابن فضیل نے ابن مہدی کی (سابقہ روایت) کی مانند روایت کیا اور مرفوع نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ (غرار) کا لفظی معنی نقص اور کمی کرنا ہے۔ نماز میں کمی دو طرح سے ہوسکتی ہے۔ ایک یہ کہ انسان اس کے رکوع اور سجود صحیح طور سے ادا نہ کرے۔ ارکان جلدی جلدی ادا کرے۔ اس سے نماز ناقص رہ جاتی ہے۔ بلکہ ہوتی ہی نہیں۔ دوسری صورت شک ہونے کی ہے۔ کہ مثلا تین یا چار رکعت میں شک ہوا کہ نہ معلوم کتنی رکعت پڑھی ہیں۔ تو انسان سمجھے کہ بس جتنی بھی ہوگئی ہے پوری ہوگئی ہے۔ یا وہ اسے چار رکعت ہی شمار کرلے۔ یہ کیفیت بھی نماز میں نقص ہے۔ چاہیے کہ بندہ یقین اور اعتماد سے نماز پوری پڑھے۔ یعنی اسے چار نہیں۔تین رکعت شمار کرلے۔ سلام میں نقص یوں ہے کہ سلام کہنے والے کو اس کے الفاظ کا پورا پورا جواب نہ دیا جائے۔ اگر زیادہ نہیں کہتا تو اسے پورے الفاظ سے جواب دے۔ ان میں کمی نہ کرے۔ مثلا کہنے والے نے السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ کہا ہے تو جواب میں وعلیکم السلام پرکفایت مناسب نہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں۔ (إذا سلم عليكم المسلم فردوا عليه أفضل مما سلم أو ردوا عليه بمثل ما سلم فالزيادة مندوبة والمماثلة مفروضة) یعنی جب تمھیں کوئی مسلمان سلام کہے تو اس کے سلام کا جواب اس کے سلام سے افضل الفاظ سے دو یا کم از کم اس کےسلام کے مثل جواب دو۔افضل جواب دینامستحب اور سلام کے مثل جواب دینا ضروری اور فرض ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج۔ 1 تفسیر سورہ نساء۔ آیت 86)واللہ أعلم۔ 2۔ اس حدیث سے یہ استدلال کہ نمازی کو سلام نہ کہا جائے اور وہ بھی جواب نہ دے صحیح نہیں۔ کیونکہ صحیح ترین احادیث سے نمازی کو سلام کہنے اور اشارے سے جواب دینے کی صراحت ثابت ہے۔ (مثلا مذکورہ بالا حدیث 927) اس لئے اس حدیث میں سلام کا جواب نہ دینے کی جو بات ہے۔ وہ اولا تو اس سے منہ سے الفاظ کے ساتھ جواب نہ دینا مراد ہے۔ ثانیا جواب دینے والی روایات قوی اور صریح ہیں۔ اس بنا پر ان کو ترجیح ہوگی۔ اور نماز میں سلام کا جواب اشارے سے دینا صحیح ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”نہ سلام میں نقص ہے اور نہ نماز میں۔“ معاویہ بن ہشام کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ سفیان نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث ابن فضیل نے ابن مہدی کی طرح «لا غرار في تسليم ولا صلاة» کے لفظ کے ساتھ روایت کی ہے اور اس کو مرفوع نہیں کہا ہے (بلکہ ابوہریرہ ؓ کا قول بتایا ہے)۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) as saying:There is no loss in salutation and in prayer. Abu Dawud رحمۃ اللہ علیہ said: According to the version of Ibn Mahdi, this tradition has been narrated by Ibn Fudail as a statement of Abu Hurairah (RA) and not as a saying of the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم).