Abu-Daud:
Purification (Kitab Al-Taharah)
(Chapter: The Amount Of Water That Is Acceptable For Performing Wudu')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
94.
سیدہ ام عمارہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے وضو کرنا چاہا تو آپ ﷺ کے لیے برتن لایا گیا۔ اس میں ایک مد کے دو تہائی جتنا پانی تھا۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح، وصححه أبو زرعة، وحسنه النووي والعراقي) . إسناده: حدثنا محمد بن بشار: ثنا محمد بن جعفر: ثنا شعبة عن حبيب الأنصاري قال: سمعت عَبَّاد بن تميم عن جدته- وهي أم عمارة-. وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير حبيب الأنصاري - وهو ابن زيد-؛ وهو ثقة اتفاقاً. والحديث أخرجه البيهقي من طريق المصنف؛ ثمّ قال: هكذا رواه محمد بن جعفر غندر عن شعبة. وخالفه غيره في إسناده . قلت: حديث محمد هذا؛ وصله النسائي (1/58- دار القلم) . ثمّ أخرج البيهقي من طريق الحاكم، وهذا في المستدرك (1/661) من طريق يحيى بن زكريا بن أبي زائدة: ثنا شعبة. عن حبيب بن زيد عن عباد بن تميم عن عبد الله بن زيد: أنّ النّبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتي بثلثي مد من ماء فتوضأ؛ فجعل يدلك ذراعيه. ثم أخرج من طريق أبي خالد الأحمر: ثنا شعبة عن حبيب بن زيد الأنصاري عن عباد بن تميم عن ابن زيد الأنصاري: أنّ النّبيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ توضأً بنحو من ثلثي المد.
وكذلك رواه معاذ عن شعبة. قال أبو زرعة الرازي: الصحيح عندي حديث غندر . وقول أبي زرعة هذا؛ رواه ابن أبي حاتم في العلل (1/25/رقم 39) عنه. ثمّ إن رواية أبي خالد الأحمر: هي عند البيهقي من طريق عبد الملك بن
محمد: ثنا سليمان بن داود: ثنا أبو خالد الأحمر.وسليمان بن داود هذا: هو أبو داود الطيالسي صاحب المسند الذي يرويه عنه يونس بن حبيب، وقد روى هذا الحديث عنه برقم (1099) فقال: ثنا أبو داود قال: ثنا شعبة... به.
وأبو داود هذا معروف بكثرة روايته عن شعبة، فالظاهر أنه رواه عن شعبة بالواسطة أيضا. ثمّ إننا لا نرى مانعاً من صحة الحديث عن أم عمارة وابن زيد معاً؛ فإن الراوي عنهما ثقة حجة، وكذا من رواه عنه، فلا وجه لترجيح إحدى الروايتين على الأخرى. وقد صحح كلاً منهما بعض الأئمة؛ ففي التلخيص (2/192) : أن الحديث: أخرجه ابن خزيمة وابن حبان من حديث عبد الله بن زيد، ورواه أبو داود والنسائي من حديث أم عمارة الأنصارية . وكذلك عزاه للنسائي: النووي (2/190) ، والعراقي في التثريب (2/90) ، وحسناه! وصححه الحاكم على شرط مسلم، ووافقه الذهبي!
فوهما؛ فإن حبيباًا لأنصاري لم يخرج له مسلم شيئاً.
گندگی و نجاست سے صفائی ستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو‘ اسے شرعی اصطلاح میں ’’طہارت ‘‘ کہتے ہیں نجاست خواہ حقیقی ہو ، جیسے کہ پیشاب اور پاخانہ ، اسے (خَبَثَ ) کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو ،جیسے کہ دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے (حَدَث) کہتے ہیں دین اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے طہارت کی فضیلت کے بابت فرمایا:( الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ)(صحیح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:223)’’طہارت نصف ایمان ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : .’’وضو کرنے سے ہاتھ ‘منہ اور پاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ (سنن النسائی ‘ الطہارۃ‘ حدیث: 103) طہارت اور پاکیزگی کے متعلق سرور کائنات ﷺ کا ارشاد ہے (لاَ تُقْبَلُ صَلاَةٌ بِغَيْرِ طُهُوْرٍ)(صحيح مسلم ‘الطہارۃ‘ حدیث:224) ’’ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں فرماتا ۔‘‘اور اسی کی بابت حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں ‘نبی کریم نے فرمایا (مِفْتِاحُ الصَّلاَةِ الطُّهُوْرٍ)(سنن اابن ماجہ ‘الطہارۃ‘حدیث 275۔276 ) ’’طہارت نماز کی کنجی ہے ۔‘‘ طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبی ﷺ سے مروی ہے :’’قبر میں زیادہ تر عذاب پیشاب کے بعد طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے ۔‘‘ صحیح االترغیب والترھیب‘حدیث:152)
ان مذکورہ احادیث کی روشنی میں میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ اپنے بدن ‘کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا(وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ)المدثر:4‘5) ’’اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندگی سے دور رہیے۔‘‘ مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل کو حکم دیا گیا:(أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ)(البقرۃ:125)’’میرے گھر کو طواف کرنے والوں ‘اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں۔‘‘ اللہ عزوجل اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے (إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ)( البقرۃ:222)’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔‘‘ نیز اہل قباء کی مدح میں فرمایا:(فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)(التوبۃ:108)’’اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہوتے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ عزوجل پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘
سیدہ ام عمارہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے وضو کرنا چاہا تو آپ ﷺ کے لیے برتن لایا گیا۔ اس میں ایک مد کے دو تہائی جتنا پانی تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عباد بن تمیم کی دادی ام عمارہ ( ام عمارہ بنت کعب ) ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے وضو کا ارادہ کیا تو آپ کے پاس پانی کا ایک برتن لایا گیا جس میں دو تہائی مد کے بقدر پانی تھا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Umm Umarah (RA): Habib al-Ansari reported: I heard Abbad ibn Tamim who reported on the authority of my grandmother, Umm Umarah, saying: The Prophet (ﷺ) wanted to perform ablution. A vessel containing 2/3 mudd of water was brought to him.