قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الصِّيَامِ (بَابُ اسْتِحْبَابِ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ وَعَاشُورَاءَ وَالِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1162. وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، جَمِيعًا عَنْ حَمَّادٍ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ غَيْلَانَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ: رَجُلٌ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كَيْفَ تَصُومُ؟ فَغَضِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، غَضَبَهُ، قَالَ: رَضِينَا بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ غَضَبِ اللهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ، فَجَعَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يُرَدِّدُ هَذَا الْكَلَامَ حَتَّى سَكَنَ غَضَبُهُ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللهِ، كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الدَّهْرَ كُلَّهُ؟ قَالَ: «لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ» - أَوْ قَالَ - «لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ» قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمَيْنِ وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟ قَالَ: «وَيُطِيقُ ذَلِكَ أَحَدٌ؟» قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟ قَالَ: «ذَاكَ صَوْمُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام» قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمَيْنِ؟ قَالَ: «وَدِدْتُ أَنِّي طُوِّقْتُ ذَلِكَ» ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ثَلَاثٌ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ، فَهَذَا صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ، صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ، وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ»

مترجم:

1162.

حماد نے غیلان سے، انھوں نے عبداللہ بن معبد زمانی سے اور انھوں نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: آپ کس طرح روزے رکھتے ہیں؟ اس کی بات سے رسول اللہ ﷺ غصے میں آ گئے، جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ﷺ کا غصہ دیکھا تو کہنے لگے: ہم اللہ کے رب ہونے،اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پر راضی ہیں، ہم اللہ کے غصے سے اور اس کے رسول ﷺ کے غصے سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بار بار ان کلمات کو دہرانے لگے حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ اس شخص کا کیا حکم ہے جو سال بھر (مسلسل) روزہ رکھتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہ اس نے روزہ رکھا نہ اس نے افطارکیا۔‘‘ یا فرمایا۔ ’’اس نے روزہ نہیں رکھا اس نے افطار نہیں کیا۔‘‘ کہا: اس کا کیا حکم ہے جو دو دن روزہ رکھتا ہے اور ایک دن افطار کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا کوئی اس کی طاقت رکھتا ہے؟‘‘ پوچھا: اس کا کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھتا ہے اور ایک دن افطار کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ داود علیہ السلام  کا روزہ ہے۔‘‘ پوچھا: اس کا کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھتا ہے اور دو دن افطار کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے پسند ہے کہ مجھے اس کی طاقت مل جاتی۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر مہینے کے تین روزے اور ایک رمضان (کے روزوں) سے (لے کردوسرے) رمضان (کے روزے) یہ (عمل) سارے سال کے روزوں (کے برابر) ہے۔ اور عرفہ کے دن کا روزہ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا اور اگلے سال کے گناہوں کا بھی اور یوم عاشورہ کا روزہ،میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔‘‘