باب: عذر کی صورت میں نماز سے پیچھے رہ جانے (اکیلے پڑھ لینے )کی اجازت
)
Muslim:
The Book of Mosques and Places of Prayer
(Chapter: Concession allowing one to not attend the congregation if there is an excuse)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1524.
یونس نے ابن شہاب سےروایت کیا کہ محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو ان صحابہ کرام میں سے تھے جو انصار میں سے جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے، (بیان کیا) کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! میری نظر خراب ہو گئی ہے، میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں اور جب بارشیں ہوتی ہیں تو میرے اور ان کےدرمیان والی وادی میں سیلاب آ جاتا ہے، اس کی وجہ سے میں ان کی مسجد میں نہیں پہنچ سکتا کہ میں انھیں نماز پڑھاؤں تو اے اللہ کے رسولﷺ! میں چاہتا ہوں کہ آپﷺ (میرے گھر) تشریف لائیں اور نماز پڑھنے کی کسی ایک جگہ پر نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کو (مستقل طور پر) جائے نماز بنا لوں۔ کہا: آپ ﷺ نے فرمایا: ’’إِنْ شَاءَ اللہ میں ایسا کروں گا۔‘‘ عتبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: تو صبح کے وقت دن چڑھتے ہی آپ ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے ، رسول اللہ ﷺ نے (اندر آنے کی) اجازت طلب فرمائی، میں نے تشریف آوری کا کہا، آپﷺ آ کر بیٹھے نہیں یہاں تک کہ گھر کے اندر (کے حصے میں) داخل ہوئے، پھر پوچھا: ’’تم اپنے گھر میں کس جگہ چاہتے ہو کہ میں (وہاں) نماز پڑھوں؟‘‘ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر تکبیر (تحریمہ) کہی اور ہم آپﷺ کے پیچھے کھڑے ہو گئے، آپﷺ نے دورکعتیں ادا فرمائیں، پھر سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد ہم نے آپﷺ کو خزیر (گوشت کے چھوٹے ٹکڑوں سے بنے ہوئے کھا نے) کے لیے روک لیا جو ہم نے آپﷺ کے لیے تیار کیا تھا۔ (عتبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: (آپﷺ کی آمد کا سن کر) اردگرد سے محلے کے لوگ آ گئے حتی کہ گھر میں خاصی تعدا د میں لوگ اکٹھے ہو گئے۔ ان میں سے ایک بات کرنے والے نے کہا: مالک بن دخشن کہاں ہے؟ ان میں سے کسی نے کہا: وہ تو منافق ہے، اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کے بارے میں ایسا نہ کہو، کیا تمھیں معلوم نہیں کہ اس نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے لَاإِلٰهَ إِلَّاالله کہا ہے؟‘‘ (عتبان نے) کہا: تو لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔ اس (الزام لگانے والے) نےکہا: ہم تو اس کی وجہ اور اس کی خیر خواہی منافقوں ہی کے لے دیکھتے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے اسے شخص کو آگ پر حرام قرار دیا ہے جو لَاإِلٰهَ إِلَّاالله کہتا ہے اور اس کے ذریعے سے اللہ کی رضا کا طلب گار ہے۔‘‘ ابن شہاب نے کہا: میں نے (بعد میں) حصین بن محمد انصاری سے، جو بنو سالم سے تعلق رکھتے ہیں ان کے سرداروں میں سے ہیں، محمود بن ربیع کی اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اس میں ان (محمود) کی تصدیق کی۔
امام مسلم کتاب الصلاۃ میں اذان اقامت اور بنیادی ارکانِ صلاۃ کے حوالے سے روایات لائے ہیں۔ مساجد اور نماز سے متعلقہ ایسے مسائل جو براہ راست ارکانِ نماز کی ادائیگی کا حصہ نہیں نماز سے متعلق ہیں انھیں امام مسلم نے کتاب المساجد میں ذکر کیا ہے مثلاً:قبلۂ اول اور اس کی تبدیلی نماز کے دوران میں بچوں کو اٹھانا‘ضروری حرکات جن کی اجازت ہے نماز میں سجدے کی جگہ کو صاف یا برابر کرنا ‘ کھانے کی موجودگی میں نماز پڑھنا‘بدبو دار چیزیں کھا کر آنا‘وقار سے چلتے ہوئے نماز کے لیے آنا‘بعض دعائیں جو مستحب ہیں حتی کہ اوقات نماز کو بھی امام مسلم نے کتاب المساجد میں صحیح احادیث کے ذریعے سے واضح کیا ہے۔ یہ ایک مفصل اور جامع حصہ ہے جو انتہائی ضروری عنوانات پر مشتمل ہے اور کتاب الصلاۃ سے زیادہ طویل ہے۔
یونس نے ابن شہاب سےروایت کیا کہ محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو ان صحابہ کرام میں سے تھے جو انصار میں سے جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے، (بیان کیا) کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! میری نظر خراب ہو گئی ہے، میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں اور جب بارشیں ہوتی ہیں تو میرے اور ان کےدرمیان والی وادی میں سیلاب آ جاتا ہے، اس کی وجہ سے میں ان کی مسجد میں نہیں پہنچ سکتا کہ میں انھیں نماز پڑھاؤں تو اے اللہ کے رسولﷺ! میں چاہتا ہوں کہ آپﷺ (میرے گھر) تشریف لائیں اور نماز پڑھنے کی کسی ایک جگہ پر نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کو (مستقل طور پر) جائے نماز بنا لوں۔ کہا: آپ ﷺ نے فرمایا: ’’إِنْ شَاءَ اللہ میں ایسا کروں گا۔‘‘ عتبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: تو صبح کے وقت دن چڑھتے ہی آپ ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے ، رسول اللہ ﷺ نے (اندر آنے کی) اجازت طلب فرمائی، میں نے تشریف آوری کا کہا، آپﷺ آ کر بیٹھے نہیں یہاں تک کہ گھر کے اندر (کے حصے میں) داخل ہوئے، پھر پوچھا: ’’تم اپنے گھر میں کس جگہ چاہتے ہو کہ میں (وہاں) نماز پڑھوں؟‘‘ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر تکبیر (تحریمہ) کہی اور ہم آپﷺ کے پیچھے کھڑے ہو گئے، آپﷺ نے دورکعتیں ادا فرمائیں، پھر سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد ہم نے آپﷺ کو خزیر (گوشت کے چھوٹے ٹکڑوں سے بنے ہوئے کھا نے) کے لیے روک لیا جو ہم نے آپﷺ کے لیے تیار کیا تھا۔ (عتبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: (آپﷺ کی آمد کا سن کر) اردگرد سے محلے کے لوگ آ گئے حتی کہ گھر میں خاصی تعدا د میں لوگ اکٹھے ہو گئے۔ ان میں سے ایک بات کرنے والے نے کہا: مالک بن دخشن کہاں ہے؟ ان میں سے کسی نے کہا: وہ تو منافق ہے، اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کے بارے میں ایسا نہ کہو، کیا تمھیں معلوم نہیں کہ اس نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے لَاإِلٰهَ إِلَّاالله کہا ہے؟‘‘ (عتبان نے) کہا: تو لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔ اس (الزام لگانے والے) نےکہا: ہم تو اس کی وجہ اور اس کی خیر خواہی منافقوں ہی کے لے دیکھتے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے اسے شخص کو آگ پر حرام قرار دیا ہے جو لَاإِلٰهَ إِلَّاالله کہتا ہے اور اس کے ذریعے سے اللہ کی رضا کا طلب گار ہے۔‘‘ ابن شہاب نے کہا: میں نے (بعد میں) حصین بن محمد انصاری سے، جو بنو سالم سے تعلق رکھتے ہیں ان کے سرداروں میں سے ہیں، محمود بن ربیع کی اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اس میں ان (محمود) کی تصدیق کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ان صحابہ کرام میں سے ہیں جو انصار سے جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول ﷺ! میری نظر کمزور ہو گئی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں اور جب بارشیں ہوتی ہیں تو میرے اور ان کے درمیان والا نالہ بہنے لگتا ہے، جس کی وجہ سے میں ان کی مسجد میں نہیں پہنچ سکتا کہ میں انہیں نماز پڑھاؤں اور میں چاہتا ہوں۔ اے رسول اللہ ﷺ! آپ (میرے گھر) تشریف لائیں اور کسی جگہ نماز ادا فرمائیں تاکہ میں اس جگہ کو نماز گاہ بنا لوں۔ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’میں إنْ شَاءَ اللہُ آؤں گا اور یہ کام کروں گا‘‘ عتبان بتاتے ہیں کہ جب دن کافی بلند ہو گیا تو آپﷺ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معیت میں تشریف لائے، رسول اللہ ﷺ نے (اندر آنے کی) اجازت طلب فرمائی، میں نے اجازت دے دی۔ آپﷺ گھر داخل ہو کر بیٹھے نہیں، پھر فرمایا: تم اپنے گھر میں نے کس جگہ میرے نماز پڑھنے کو پسند کرتے ہو؟ میں نے گھر کے ایک کونہ کی طرف اشارہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی اور ہم آپﷺ کے پیچھے کھڑے ہو گئے تو آپﷺ نے دو رکعتیں ادا کیں، پھر سلام پھیر دیا، ہم نے آپﷺ کے لیے جو قیمہ کی آمیزش سے مالیدہ تیار کیا تھا اس کے لیے آپﷺ کو روک لیا، عتبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں (آپﷺ کی آمد کا سن کر) ہمارے محلہ کے ہمارے گردونواح کے لوگ جمع ہو گئے حتیٰ کہ ہمارے گھر میں کافی تعداد میں لوگ اکٹھے ہو گئے تو ان میں سے کسی نے پوچھا، مالک بن دخشن کہاں ہے؟ تو ان میں سے کسی نے کہا: وہ تو منافق ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺ سے محبت نہیں رکھتا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کے بارے میں یہ بات نہ کہو، کیا تمہیں معلوم نہیں اس نے اللہ تعالیٰ کے چہرے کے لیے لَاإِلٰهَ إِلَّاالله کا اقرار کیا ہے؟‘‘ تو صحابہ کرام نے کہا، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں، ہم تو اس کا رخ اور اس کی خیر خواہی منافقوں کے لیے دیکھتے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کے لیے آگ کو حرام قرار دیا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطرلَاإِلٰهَ إِلَّاالله کا اقرار کرے۔‘‘ ابن شہاب کہتے ہیں میں نے بعد میں حصین بن محمد انصاری سے جو بنو سالم کے سرداروں میں سے ہیں ، محمود بن ربیع کی اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو اس نے محمود کی تصدیق کی۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1)خَزِيْر:گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے اس کو کھلے پانی میں پکانا اور پکنے کے بعد چولہے پر ہی گوشت پر آٹا چھڑک دینا۔ (2) ثَابَ رِجَالٌ مِّنْ أَهْلِ الدَّار: محلہ کے بہت سارے لوگ جمع ہوگئے یہاں دار سے مراد محلہ ہے، احاطہ یا حویلی نہیں۔ (3) سَرَاتِهِمْ: سَرَات سَري کی جمع ہے، سردار۔
فوائد ومسائل
(1) کسی صاحب علم و فضل شخصیت کو خیر و برکت کے لیے گھر بلانا جائز ہے تاکہ اس سے کسی نیک کام کا افتتاح کروایا جائے۔ (2) کسی متقی اور پرہیز گار شخصیت سے مسجد کا افتتاح کروانا اور اس سے نماز پڑھوانا جائز ہے اسی طرح ضرورت کے لیے گھر میں نماز کے لیے جگہ مخصوص کرانا اور اس میں قابل احترام شخصیت سے نماز پڑھانے اپیل کرنا اور بعد میں خود اس جگہ نماز پڑھنا درست ہے۔ (3) اگر کوئی انسان کسی بزرگ اور محترم شخصیت کو کسی نیک مقصد کی خاطرگھر میں بلائے تو اس کو اس کی دعوت کو قبول کر کے اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور ایسے موقع پر کھانے کا اہتمام کرنا بھی درست ہے۔ (4) وعدہ کو پورا کرنے کی نیت سے إن شاء اللہ کہنا چاہیے اس کو فرار کا بہانا نہیں بنانا چاہیے۔ (5) اگر کسی بزرگ اور قابل احترام شخصیت کو بلایا جائے تو وہ اپنے ساتھ اپنے رفیق کو لے جا سکتا ہے۔ (6) اگر کسی شخص کو گھر بلایا جائے تو وہ بلا اجازت گھر میں داخل نہیں ہو سکتا اس کو اندر داخل ہونے کے لیے اجازت لینی ہو گی۔ (7) کسی شخص کو جس مقصد کے لیے بلایا جائے اسے سب سے پہلے اس کو پورا کرنا چاہیے۔ (8) کبھی کبھار نفل باجماعت ادا کیے جا سکتے ہیں اور ان کی کم ازکم تعداد دو ہے۔ (9) اگر کسی جگہ کوئی بزرگ شخصیت آئے تو اس کی خدمت اور اس سے فیض (دینی مسائل) حاصل کرنے کے لیے وہاں کے لوگوں کو جمع ہونا چاہیے۔ (10) اگر کوئی انسان کسی مجبوری اور عذر کی بنا پر مسجد میں حاضر نہ ہو سکتا ہو۔ تو اس کے لیے گھر پر نماز پڑھنا جائز ہے- (11) کسی قرینہ کی بنا پر کسی پر نقد و تبصرہ کرنا یہ الزام تراشی اور جرم نہیں ہے لیکن اگر سننے والے کے سامنے اس سے بہتر قرینہ اور علامت اس کے خلاف موجود ہو تو اس کو نقد اور تبصرہ کرنے والے کی اصلاح کرنی چاہیے کہ تمھارا قیافہ درست نہیں ہے۔ (12) منافقوں سے میل جول رکھنا جبکہ انسان خود ان سے متأثر نہ ہو اور ان کی حرکات کو درست نہ سمجھتا ہو جائز ہے۔ (13) لَاإِلٰهَ إِلَّاالله دین کو قبول کرنے کا عنوان ہے اور اس بات کا عہد کرنا ہے کہ میں مکمل دین کو قبول کرتا ہوں اور اس پر عمل پیرا ہونے کا عہد کرتا ہوں۔ (14) صدق دل سے دین کو قبول کرنا اور اس پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ خالص رکھنا جنت میں جانے کی ضمانت ہے۔ (15) اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپﷺ لوگوں کے دلوں کے حالات سے آگاہ تھے کیونکہ آپﷺ نے ابن دخشن کو منافق کہنے والے کو مخاطب کر کے فرمایا تھا۔ (الا تَرَاهُ) کیا تم اس کو دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے لَاإِلٰهَ إِلَّاالله کا اقرار، اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا ہے تو کیا وہ انسان اس کے دل کے حالات سے آگاہی حاصل کر سکتا تھا کسی کے اعمال وافعال اور سیرت وکردار کو دیکھ کر۔ اس کے بارے میں فیصلہ کیا جا سکتا ہے قرآن مجید میں آپﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے: ﴿فَلَعَرَفْتَهُم بِسِيمَاهُمْ ۚ وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْلِ ۚ ﴾ ’’آپ ان کو علامت سے پہچان لیں گے اور آپ ان کو ان کے بات کرنے کے ڈھنگ اور اسلوب سے جان لیں گے۔‘‘ دلوں کے حالات کے بارے میں تو فرمایا گیا: ﴿لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ﴾ ’’آپ ان کو نہیں جانتے ہم ہی ان کو جانتے ہیں۔‘‘ (16) نابینا انسان امام بن سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Mahmud bin al-Rabi' reported that 'Ibn bin Malik, who was one of the Companions of the Apostle of Allah (ﷺ) and who participated in the (Battle of) Badr and was among the Ansar (of Madinah), told that he came to the Messenger of Allah (ﷺ) and said: Messenger of Allah, I have lost my eyesight and I lead my people in prayer. When there is a downpour there is then a current (of water) in the valley that stands between me and them and I find it impossible to go to their mosque and lead them in prayer. Messenger of Allah, I earnestly beg of you that you should come and observe prayer at a place of worship (in my house) so that I should then use it as a place of worship. The Messenger of Allah (ﷺ) said: Well, it God so wills I would soon do so. 'Itban said: On the following day when the day dawned, the Messenger of Allah (ﷺ) (may peace he upon him) came along with Abu Bakr (RA) at-Siddiq, and the Messenger of Allah (ﷺ) asked permission (to get into the house). I gave him the permission, and he did not sit after entering the house, when he said: At what place in your house you desire me to say prayer? I ('Itban bin Malik) said: I pointed to a corner in the house, The Messenger of Allah (ﷺ) stood (at that place for prayer) and pronounced Allah-o-Akbar (Allah is the Greatest) (as an expression for the commencement of prayer). We too stood behind him, and he said two rak'ahs and then pronounced salutation (marking the end of the prayer). We detained him (the Holy Prophet) for the meat curry we had prepared for him. The people of the neighbouring houses came and thus there was a good gathering in (our house). One of them said: Where is Malik bin Dukhshun? Upon this one of them remarked: He is a hypocrite; he does not love Allah and His Messenger. Thereupon the Messenger of Allah (ﷺ) said: Do not say so about him. Don't you see that he utters La ilaha ill-Allah (There is no god but Allah) and seeks the pleasure of Allah through it? They said: Allah and His Messenger know best. One (among the audience) said: We see his inclination and well wishing for hypocrites only. Upon this the Messenger of Allah (ﷺ) again said: Verily Allah has forbidden the Fire for one who says: There is no god but Allah, thereby seeking Allah's pleasure. Ibn Shihab said: I asked Husain bin Muhammad al-Ansar (he was one of the leaders of Banu Salim) about the hadith transmitted by Mahmud bin Rabi' and he testified it.