قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ ﷺ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

164. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، لَعَلَّهُ قَالَ: عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ، رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَيْنَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ، إِذْ سَمِعْتُ قَائِلًا يَقُولُ: أَحَدُ الثَّلَاثَةِ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ، فَأُتِيتُ فَانْطُلِقَ بِي، فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيهَا مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ، فَشُرِحَ صَدْرِي إِلَى كَذَا وَكَذَا - قَالَ قَتَادَةُ: فَقُلْتُ لِلَّذِي مَعِي مَا يَعْنِي قَالَ: إِلَى أَسْفَلِ بَطْنِهِ - فَاسْتُخْرِجَ قَلْبِي، فَغُسِلَ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ أُعِيدَ مَكَانَهُ، ثُمَّ حُشِيَ إِيمَانًا وَحِكْمَةً، ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ أَبْيَضَ، يُقَالُ لَهُ: الْبُرَاقُ، فَوْقَ الْحِمَارِ، وَدُونَ الْبَغْلِ، يَقَعُ خَطْوُهُ عِنْدَ أَقْصَى طَرْفِهِ، فَحُمِلْتُ عَلَيْهِ، ثُمَّ انْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا، فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ، قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَفَتَحَ لَنَا، وَقَالَ: مَرْحَبًا بِهِ وَلَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ "، قَالَ: «فَأَتَيْنَا عَلَى آدَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِقِصَّتِهِ، وَذَكَرَ أَنَّهُ «لَقِيَ فِي السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ عِيسَى، وَيَحْيَى عَلَيْهِمَا السَّلَامُ، وَفِي الثَّالِثَةِ يُوسُفَ، وَفِي الرَّابِعَةِ إِدْرِيسَ، وَفِي الْخَامِسَةِ هَارُونَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»، قَالَ: " ثُمَّ انْطَلَقْنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، فَأَتَيْتُ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ، فَلَمَّا جَاوَزْتُهُ بَكَى، فَنُودِيَ: مَا يُبْكِيكَ؟ قَالَ: رَبِّ، هَذَا غُلَامٌ بَعَثْتَهُ بَعْدِي يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِهِ الْجَنَّةَ أَكْثَرُ مِمَّا يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِي "، قَالَ: «ثُمَّ انْطَلَقْنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ، فَأَتَيْتُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ»، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: وَحَدَّثَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " أَنَّهُ رَأَى أَرْبَعَةَ أَنْهَارٍ يَخْرُجُ مِنْ أَصْلِهَا نَهْرَانِ ظَاهِرَانِ، وَنَهْرَانِ بَاطِنَانِ، فَقُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ، مَا هَذِهِ الْأَنْهَارُ؟ قَالَ: أَمَّا النَّهْرَانِ الْبَاطِنَانِ فَنَهْرَانِ فِي الْجَنَّةِ، وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ: فَالنِّيلُ وَالْفُرَاتُ، ثُمَّ رُفِعَ لِي الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ، فَقُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ مَا هَذَا؟ قَالَ: هَذَا الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ يَدْخُلُهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ، إِذَا خَرَجُوا مِنْهُ لَمْ يَعُودُوا فِيهِ آخِرُ مَا عَلَيْهِمْ، ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءَيْنِ أَحَدُهُمَا خَمْرٌ، وَالْآخَرُ لَبَنٌ، فَعُرِضَا عَلَيَّ فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ، فَقِيلَ: أَصَبْتَ أَصَابَ اللهُ بِكَ أُمَّتُكَ عَلَى الْفِطْرَةِ، ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسُونَ صَلَاةً "، ثُمَّ ذَكَرَ قِصَّتَهَا إِلَى آخِرِ الْحَدِيثِ.

مترجم:

164.

سعیدؒ نے قتادہؒ سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کی (انہوں نے غالباً یہ کہا) کہ مالک بن صعصعہؓ سےروایت ہے (جو ان کی قوم کے فرد تھے) کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں بیت اللہ کے پاس نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں تھا، اس اثناء میں ایک کہنے والے کو میں نے یہ کہتے سنا: ’’تین آدمیوں میں سے ایک، دو کے درمیان والا۔ پھر میرے پاس آئے اور مجھے لے جایا گیا، اس کے بعد میرے پاس سونے کا طشت لایا گیا، جس میں زمزم کا پانی تھا، پھر میرا سینہ کھول دیا گیا، فلاں سے فلاں جگہ تک (قتادہؒ نےکہا: میں نے اپنے ساتھ والے سے پوچھا: اس سے کیا مراد لے رہے ہیں؟ اس نے کہا: پیٹ کے نیچے کےحصے تک) پھر میرا دل نکالا گیا اور اسے زم زم کے پانی سے دھویا گیا، پھر اسے دوبارہ اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا، پھر اسے ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا۔ اس کے بعد میرے پاس ایک سفید جانور لایا گیا، جسے براق کہا جاتا ہے، گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا، اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں اس کی نظر کی آخری حد تھی۔ مجھے اس پر سوار کیا گیا، پھر ہم چل پڑے یہاں تک کہ ہم سب سے نچلے (پہلے) آسمان تک پہنچے۔ جبریلؑ نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا: تو پوچھا گیا: یہ (دروازہ کھلوانے والا) کون ہے؟ کہا: جبریل ہوں۔ کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا: کیا (آسمانوں پر لانے کے لیے) ان کی طرف سے کسی کو بھیجا گیا تھا؟ کہا: ہاں۔ تو اس نے ہمارے لیے دروازہ کھول دیا اور کہا: مرحبا! آپ بہترین طریقے سے آئے! فرمایا: پھر ہم آدمؑ  کے سامنے پہنچ گئے۔‘‘ آگے پورے قصے سمیت حدیث سنائی اور بتایا: کہ دوسرے آسمان پر آپ عیسیٰؑ اور یحییٰؑ سے، تیسرے پر یوسفؑ سے اور چوتھے پر ادریسؑ سے، پانچویں پر ہارونؑ سے ملے، کہا: پھر ہم چلے یہاں تک کہ چھٹے آسمان تک پہنچے۔ میں موسیٰؑ کے پاس پہنچا اور ان کو سلام کیا، انہوں نے کہا: صالح بھائی اور صالح نبی کو مرحبا۔ جب میں ان سے آگے چلا گیا، تو وہ رونے لگے، انہیں آواز دی گئی: آپ کو کس بات نے رلا دیا؟ کہا: اے میرے رب! یہ نوجوان ہیں، جن کو تو نے میرے بعد بھیجا ہے، ان کی امت کے لوگ میری امت کے لوگوں سے زیادہ تعداد میں جنت میں داخل ہوں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پھر ہم چل پڑے یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچ گئے، تو میں ابراہیم ؑ کے سامنے آیا۔ ‘‘ اور انہوں نے حدیث میں کہا کہ نبی ا کرم ﷺ نے بتایا: ’’کہ انہوں نے چار نہریں دیکھیں، ان کے منبع سے دو ظاہری نہریں نکلتی ہیں اور دو پوشیدہ نہریں۔ میں نے کہا: اے جبریل! یہ نہریں کیا ہیں؟ انہوں نے کہا: جو دو پوشیدہ ہیں، تو وہ جنت کی نہریں ہیں اور دو ظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں۔ پھر بیت معمور میرے سامنے بلند کیا گیا، میں نے پوچھا: اے جبریلؑ! یہ کیا ہے؟ کہا: یہ بیت معمور ہے، اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں، جب اس سے نکل جاتے ہیں، تو اس (زمانے) کے آخر تک جو ان کے لیے ہے دوبارہ اس میں نہیں آ سکتے۔ پھر میرے پاس دو برتن لائے گئے: ایک شراب کا اور دوسرا دودھ کا، دونوں میرے سامنے پیش کیے گئے، تو میں نے دودھ کو پسند کیا۔ اس پر کہا گیا: آپ نے ٹھیک (فیصلہ) کیا، اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے سے (سب کو) صحیح (فیصلہ) تک پہنچائے، آپ کی امت (بھی) فطرت پر ہے۔ پھر مجھ پر ہر روز پچاس نمازیں فرض کی گئیں ..... ۔‘‘ پھر (سابقہ) حدیث کے آخر تک کا سارا واقعہ بیان کیا۔