قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ النَّذْرِ (بَابُ لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ الْعَبْدُ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1641. وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ، وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلَّبِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: كَانَتْ ثَقِيفُ حُلَفَاءَ لِبَنِى عُقَيْلٍ، فَأَسَرَتْ ثَقِيفُ رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَسَرَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَجُلًا مِنْ بَنِي عُقَيْلٍ، وَأَصَابُوا مَعَهُ الْعَضْبَاءَ، فَأَتَى عَلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْوَثَاقِ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فَأَتَاهُ، فَقَالَ: «مَا شَأْنُكَ؟» فَقَالَ: بِمَ أَخَذْتَنِي، وَبِمَ أَخَذْتَ سَابِقَةَ الْحَاجِّ؟ فَقَالَ: «إِعْظَامًا لِذَلِكَ أَخَذْتُكَ بِجَرِيرَةِ حُلَفَائِكَ ثَقِيفَ»، ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ، فَنَادَاهُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، يَا مُحَمَّدُ، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَقِيقًا، فَرَجَعَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: «مَا شَأْنُكَ؟» قَالَ: إِنِّي مُسْلِمٌ، قَالَ: «لَوْ قُلْتَهَا وَأَنْتَ تَمْلِكُ أَمْرَكَ أَفْلَحْتَ كُلَّ الْفَلَاحِ»، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَنَادَاهُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، يَا مُحَمَّدُ، فَأَتَاهُ، فَقَالَ: «مَا شَأْنُكَ؟» قَالَ: إِنِّي جَائِعٌ فَأَطْعِمْنِي، وَظَمْآنُ فَأَسْقِنِي، قَالَ: «هَذِهِ حَاجَتُكَ»، فَفُدِيَ بِالرَّجُلَيْنِ، قَالَ: وَأُسِرَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ وَأُصِيبَتِ الْعَضْبَاءُ، فَكَانَتِ الْمَرْأَةُ فِي الْوَثَاقِ وَكَانَ الْقَوْمُ يُرِيحُونَ نَعَمَهُمْ بَيْنَ يَدَيْ بُيُوتِهِمْ، فَانْفَلَتَتْ ذَاتَ لَيْلَةٍ مِنَ الْوَثَاقِ، فَأَتَتِ الْإِبِلَ، فَجَعَلَتْ إِذَا دَنَتْ مِنَ الْبَعِيرِ رَغَا فَتَتْرُكُهُ حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى الْعَضْبَاءِ، فَلَمْ تَرْغُ، قَالَ: وَنَاقَةٌ مُنَوَّقَةٌ فَقَعَدَتْ فِي عَجُزِهَا، ثُمَّ زَجَرَتْهَا فَانْطَلَقَتْ، وَنَذِرُوا بِهَا فَطَلَبُوهَا فَأَعْجَزَتْهُمْ، قَالَ: وَنَذَرَتْ لِلَّهِ إِنْ نَجَّاهَا اللهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، فَلَمَّا قَدِمَتِ الْمَدِينَةَ رَآهَا النَّاسُ، فَقَالُوا: الْعَضْبَاءُ نَاقَةُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّهَا نَذَرَتْ إِنْ نَجَّاهَا اللهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، فَأَتَوْا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «سُبْحَانَ اللهِ، بِئْسَمَا جَزَتْهَا، نَذَرَتْ لِلَّهِ إِنْ نَجَّاهَا اللهُ عَلَيْهَا لَتَنْحَرَنَّهَا، لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةٍ، وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ الْعَبْدُ»، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ حُجْرٍ: «لَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ

مترجم:

1641.

مجھے زہیر بن حرب اور علی بن حجر سعدی نے حدیث بیان کی ۔۔ الفاظ زہیر کے ہیں ۔۔ ان دونوں نے کہا ہمیں اسماعیل بن ابراہیم نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں ایوب نے ابوقلابہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابومہلب سے اور انہوں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ثقیف، بنو عقیل کے حلیف تھے، ثقیف نے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے دو آدمیوں کو قید کر لیا، (بدلے میں) رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے بنو عقیل کے ایک آدمی کو قیدی بنا لیا اور انہوں نے اس کے ساتھ اونٹنی عضباء بھی حاصل کر لی، رسول اللہ ﷺ اس آدمی کے پاس سے گزرے، وہ بندھا ہوا تھا، اس نے کہا: اے محمد! آپ ﷺ اس کے پاس آئے اور پوچھا: ’’کیا بات ہے؟‘‘ اس نے کہا: آپ نے مجھے کس وجہ سے پکڑا ہوا اور حاجیوں (کی سواریوں) سے سبقت لے جانے والی اونٹنی کو کیوں پکڑا ہے؟ آپ نے ۔۔ اس معاملے کو سنگین خیال کرتے ہوئے ۔۔ جواب دیا: ’’میں نے تمہیں تمہارے حلیف ثقیف کے جرم کی بنا پر (اس کے ازالے کے لیے) پکڑا ہے۔‘‘ پھر آپ وہاں سے پلٹے تو اس نے (پھر سے) آپﷺ کو آواز دی اور کہا: اے محمد! اے محمد (ﷺ)! رسول اللہ ﷺ بہت رحم کرنے والے، نرم دل تھے۔ پھر سے آپ اس کے پاس واپس آئے اور فرمایا: ’’کیا بات ہے؟‘‘ اس نے کہا: (اب) میں مسلمان ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم یہ بات اس وقت کہتے جب تم اپنے مالک آپ تھے (آزاد تھے) تو تم پوری بھلائی حاصل کر لیتے (اب بھی ملے گی لیکن پوری نہ ہو گی۔)‘‘ پھر آپ پلٹے تو اس نے آپ کو آواز دی اور کہا: اے محمد! اے محمد (ﷺ)! آپ (پھر) اس کے پاس آئے اور پوچھا: ’’کیا بات ہے؟‘‘ اس نے کہا: میں بھوکا ہوں مجھے (کھانا) کھلائیے اور پیاسا ہوں مجھے (پانی) پلائیے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’(ہاں) یہ تمہاری (فوراً پوری کی جانے والی) ضرورت ہے۔‘‘ اس کے بعد (معاملات طے کر کے) اسے دونوں آدمیوں کے بدلے میں چھوڑ دیا گیا۔ (اونٹنی پیچھے رہ گئی اور رسول اللہ ﷺ کے حصے میں آئی۔ لیکن مشرکین نے دوبارہ حملے کر کے پھر اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔) کہا: (بعد میں، غزوہ ذات القرد کے موقع پر، مدینہ پر حملے کے دوران) ایک انصاری عورت قید کر لی گئی اور عضباء اونٹنی بھی پکڑ لی گئی، عورت بندھنوں میں (جکڑی ہوئی) تھی۔ لوگ اپنے اونٹ اپنے گھروں کے سامنے رات کو آرام (کرنے کے لیے بٹھا) دیتے تھے، ایک رات وہ (خاتون) اچانک بیڑیوں (بندھنوں) سے نکل بھاگی اور اونٹوں کے پاس آئی، وہ (سواری کے لیے) جس اونٹ کے بھی قریب جاتی وہ بلبلانے لگتا تو وہ اسے چھوڑ دیتی حتی کہ وہ عضباء تک پہنچ گئی تو وہ نہ بلبلائی، کہا: وہ سدھائی ہوئی اونٹنی تھی تو وہ اس کی پیٹھ کے پچھلے حصے پر بیٹھی، اور اسے دوڑایا تو وہ چل پڑی۔ لوگوں کو اس (کے جانے) کا علم ہو گیا، انہوں نے اس کا تعاقب کیا لیکن اس نے انہیں بے بس کر دیا۔ کہا: اس عورت نے اللہ کے لیے نذر مانی کہ اگر اللہ نے اس اونٹنی پر اسے نجات دی تو وہ اسے (اللہ کی رضا کے لیے) نحر کر دے گی۔ جب وہ مدینہ پہنچی، لوگوں نے اسے دیکھا تو کہنے لگے: یہ عضباء ہے، رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی۔ وہ عورت کہنے لگی کہ اس نے یہ نذر مانی ہے کہ اگر اللہ نے اسے اس اونٹنی پر نجات عطا فر دی تو وہ اس اونٹنی کو (اللہ کی راہ میں) نحر کر دے گی۔ اس پر لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کو یہ بات بتائی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سبحان اللہ! اس عورت نے اسے جو بدلہ دیا وہ کتنا برا ہے! اس نے اللہ کے لیے یہ نذر مانی ہے کہ اگر اللہ نے اس کو اس اونٹنی پر نجات دے دی تو وہ اسے ذبح کر دے گی، معصیت میں نذر پوری نہیں کی جا سکتی، نہ ہی اس چیز میں جس کا بندہ مالک نہ ہو۔‘‘ ابن حجر کی روایت میں ہے: ’’اللہ کی معصیت میں کوئی نذر (جائز) نہیں‘‘