صحیح مسلم
7. کتاب: مسافرو ں کی نماز قصر کا بیان
13. باب: نماز چاشت کا استحباب ‘یہ کم از کم دو رکعتیں ‘مکمل آٹھ رکعتیں اور درمیانی صورت چار یا چھ رکعتیں ہیں‘نیز اس نماز کی پابندی کی تلقین
صحيح مسلم
7. كتاب صلاة المسافرين وقصرها
13. بَابُ اسْتِحْبَابِ صَلَاةِ الضُّحَى، وَأَنَّ أَقَلَّهَا رَكْعَتَانِ، وَأَكْمَلَهَا ثَمَانِ رَكَعَاتٍ، وَأَوْسَطُهَا أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ، أَوْ سِتٍّ، وَالْحَثُّ عَلَى الْمُحَافَظَةِ عَلَيْهَا
Muslim
7. The Book of Prayer - Travellers
13. Chapter: It is recommended to pray Duha, the least of which is two rak`ah, the best of which is eight, and the average of which is four or six, and encouragement to do so regularly
باب: نماز چاشت کا استحباب ‘یہ کم از کم دو رکعتیں ‘مکمل آٹھ رکعتیں اور درمیانی صورت چار یا چھ رکعتیں ہیں‘نیز اس نماز کی پابندی کی تلقین
)
Muslim:
The Book of Prayer - Travellers
(Chapter: It is recommended to pray Duha, the least of which is two rak`ah, the best of which is eight, and the average of which is four or six, and encouragement to do so regularly)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1699.
ابو نضر سے روایت ہے کہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں فتح مکہ کے سال رسول اللہ ﷺ کی طرف گئی تو میں نے آپ ﷺ کو نہاتے ہوئے پایا جبکہ آپﷺ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپﷺ کو کپڑے سےچھپائے ہوئے تھیں (آگے پردہ کیا ہوا تھا) میں نے سلام عرض کیا، آپ ﷺ نے پوچھا یہ کون ہے؟ میں نے کہا: ام ہانی بنت ابی طالب ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’ام ہانی کو خوش آمدید!‘‘ جب آپﷺ نہانے سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہوئے اور صرف ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے آٹھ رکعتیں پڑھیں، جب آپﷺ نماز سے فارغ ہو گئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ میرا ماں جایا بھائی علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ چاہتا ہے کہ ایک ایسے آدمی کو قتل کر دے جسے میں پناہ دے چکی ہوں۔ یعنی ہبیرہ کا بیٹا، فلاں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ام ہانی! جس کو تم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔‘‘
صحیح مسلم کی کتابوں اور ابواب کے عنوان امام مسلمؒ کے اپنے نہیں۔انہوں نے سنن کی ایک عمدہ ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں،کتابوں اور ابواب کی تقسیم بعد میں کی گئی فرض نمازوں کے متعدد مسائل پر احادیث لانے کے بعد یہاں امام مسلمؒ نے سفر کی نماز اور متعلقہ مسائل ،مثلاً ،قصر،اور سفر کے علاوہ نمازیں جمع کرنے ،سفر کے دوران میں نوافل اور دیگر سہولتوں کے بارے میں احادیث لائے ہیں۔امام نوویؒ نے یہاں اس حوالے سے کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا کا عنوان باندھ دیا ہے۔ان مسائل کے بعد امام مسلم ؒ نے امام کی اقتداء اور اس کے بعد نفل نمازوں کے حوالے سے احادیث بیان کی ہیں۔آخر میں بڑا حصہ رات کےنوافل۔(تہجد) سے متعلق مسائل کے لئے وقف کیا ہے۔ان سب کے عنوان ابواب کی صورت میں ہیں۔ا س سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب صلااۃ المسافرین وقصرھا مستقل کتاب نہیں بلکہ ذیلی کتاب ہے۔اصل کتاب صلاۃ ہی ہے جو اس ذیلی کتاب ہے کے ختم ہونے کے بہت بعد اختتام پزیر ہوتی ہے۔یہ وجہ ہے کہ بعض متاخرین نے اپنی شروح میں اس زیلی کتاب کو اصل کتاب الصلاۃ میں ہی ضم کردیا ہے۔
کتاب الصلاۃ کے اس حصے میں ان سہولتوں کا ذکر ہے۔جو اللہ کی طرف سے پہلے حالت جنگ میں عطا کی گئیں اور بعد میں ان کو تمام مسافروں کےلئے تمام کردیا گیا۔تحیۃ المسجد،چاشت کی نماز ،فرض نمازوں کے ساتھ ادا کئے جانے والے نوافل کے علاوہ رات کی نماز میں ر ب تعالیٰ کے ساتھ مناجات کی لذتوں،ان گھڑیوں میں مناجات کرنے والے بندوں کے لئے اللہ کے قرب اور اس کی بے پناہ رحمت ومغفرت کے دروازے کھل جانے اور رسول اللہ ﷺ کی خوبصورت دعاؤں کا روح پرورتذکرہ،پڑھنے والے کے ایمان میں اضافہ کردیتا ہے۔
ابو نضر سے روایت ہے کہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں فتح مکہ کے سال رسول اللہ ﷺ کی طرف گئی تو میں نے آپ ﷺ کو نہاتے ہوئے پایا جبکہ آپﷺ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپﷺ کو کپڑے سےچھپائے ہوئے تھیں (آگے پردہ کیا ہوا تھا) میں نے سلام عرض کیا، آپ ﷺ نے پوچھا یہ کون ہے؟ میں نے کہا: ام ہانی بنت ابی طالب ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’ام ہانی کو خوش آمدید!‘‘ جب آپﷺ نہانے سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہوئے اور صرف ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے آٹھ رکعتیں پڑھیں، جب آپﷺ نماز سے فارغ ہو گئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ میرا ماں جایا بھائی علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ چاہتا ہے کہ ایک ایسے آدمی کو قتل کر دے جسے میں پناہ دے چکی ہوں۔ یعنی ہبیرہ کا بیٹا، فلاں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ام ہانی! جس کو تم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال رسول اللہ ﷺ کی طرف گئی تو میں نے آپﷺ کو نہاتے ہوئے پایا اور آپﷺ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپﷺ کو کپڑے سے پردہ کیے ہوئے تھی ۔ میں نے جا کر سلام عرض کیا۔ آپﷺ نے پوچھا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ام ہانی کو خوش آمدید‘‘ تو جب آپﷺ نہانے سے فارغ ہوئے تو اٹھے اور آٹھ رکعات نماز پڑھی۔ آپﷺ ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے جب آپﷺ نماز سے فارغ ہو گئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ! میرا ماں جایا بھائی علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک ایسے آدمی کو قتل کرنا چاہتا ہے جسے میں پناہ دے چکی ہوں جو فلاں ہے اور ہبیرة کا بیٹا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ام ہانی جس کو تو نے پناہ دی ہم نے بھی پناہ دی‘‘ ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا یہ چاشت کا وقت تھا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا با پردہ نہانے والے شخص کو سلام کہنا اور اس سے ضروری گفتگو کرنا جائز ہے۔ جب کہ وہ کپڑا باندھے ہوئے کیونکہ آپﷺ بیٹی کے سامنے برہنہ نہیں ہو سکتے تھے۔ (2) اگر کسی انسان کو عورت پناہ دے دے تو وہ نافذ العمل ہو گی۔ اس کی پناہ کو توڑنا درست نہیں ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور کا یہی موقف ہے، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عورت کی دی ہوئی پناہ امام (امیر) کی صواب دید پر موقوف ہے۔ وہ برقرار رکھے یا توڑ دے اس کی مرضی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Murra, the freed slave of Umm Hani, daughter of Abu Talib, reported Umm Hani to be saying: I went to the Messenger of Allah (ﷺ) on the day of the Conquest of Makkah and found him taking bath, and Fatimah, his daughter, had provided him privacy with the help of a cloth. I gave him salutation and he said: Who is she? I said: It is Umm Hani, daughter of Abu Talib. He (the Holy Prophet) said: Greeting for Umm Hani. When he had completed the bath, he stood up and observed eight rak'ahs wrapped up in one cloth. When he turned back (after the prayer), I said to him: Messenger of Allah, the son of my mother 'Ali bin Abu Talib is going to kill a person, Fulan bin Hubaira whom I have given protection. Upon this the Messenger of Allah (ﷺ) said: We too have given protection whom you have given protection, O Umm Hani. Umm Hani said: It was the forenoon (prayer).