صحیح مسلم
8. کتاب: قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور
8. باب: قرآن مجید بغور سننے ‘سننے کے لیے حافظ قرآن سے پڑھنے کی فرمائش اور قراءت کے دوران رونے اور اس پرغور و فکر کرنے کی فضیلت
صحيح مسلم
8. کتاب فضائل القرآن وما يتعلق به
8. بَابُ فَضْلِ اسْتِمَاعِ الْقُرْآنِ، وَطَلَبِ الْقِرَاءَةِ مِنْ حَافِظِهِ لِلِاسْتِمَاعِ وَالْبُكَاءِ عِنْدَ الْقِرَاءَةِ وَالتَّدَبُّرِ
Muslim
8. Chapter: The book of the virtues of the Qur’an etc
8. Chapter: The virtue of listening to the Qur’an, asking one who has memorized it to recite so that one may listen, weeping when reciting, and pondering the meanings
باب: قرآن مجید بغور سننے ‘سننے کے لیے حافظ قرآن سے پڑھنے کی فرمائش اور قراءت کے دوران رونے اور اس پرغور و فکر کرنے کی فضیلت
)
Muslim:
Chapter: The book of the virtues of the Qur’an etc
(Chapter: The virtue of listening to the Qur’an, asking one who has memorized it to recite so that one may listen, weeping when reciting, and pondering the meanings)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1903.
مُسعِر نے عمرو بن مرہ سے اور انھوں نے ابراہیم سے روایت کی، انھوں نے کہا: نبی اکرم ﷺ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: ’’مجھے قرآن مجید سناؤ۔‘‘ انھوں نے کہا: کیا میں آپﷺ کو سناؤں جبکہ (قرآن) اترا ہی آپﷺ پر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اچھا لگتا ہے کہ میں اسے کسی دوسرے سے سنوں۔‘‘ (ابراہیم) نے کہا: انھوں نے آپﷺ کے سامنے سورہ نساء ابتداء سے اس آیت تک سنائی: ﴿ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ شَهِيدًا﴾ (اس وقت کیا حال ہوگا، جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپﷺ کو ان پر گواہ بنا کر لائیں گے۔) تو آپﷺ (اس آیت پر) رو پڑے۔ مسعر نے ایک دوسری سند سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول نقل کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میں ان پر اس وقت تک گواہ تھا جب تک میں ان میں رہا۔‘‘ مسعر کو شک ہے۔ (دُمْتُ فِيْهِمْ) کہا یا (كُنْتُ فِيْهِمْ) (جب تک میں ان میں تھا) کہا۔
یہ کتاب بھی در حقیقت کتاب الصلاۃ ہی کا تسلسل ہے قرآن مجید کی تلا وت نماز کے اہم ترین ارکان میں سے ہے اس کتاب نے دنیا میں سب سے بڑی اور سب سے مثبت تبدیلی پیدا کی ۔اس کی تعلیمات سے صرف ماننے والوں نے فائدہ نہیں اٹھا یا نہ ماننے والوں کی زندگیاں بھی اس کی بنا پر بدل گئیں ۔یہ کتاب مجموعی طور پر بنی نوع انسان کے افکار میں مثبت تبدیلی ،رحمت ،شفقت ،مواسات، انصاف اور رحمد لی کے جذبات میں اضافے کا باعث بنی ۔یہ کتاب اس کا ئنات کی سب سے عظیم اور سب سے اہم سچائیوں کو واشگاف کرتی ہے ماننے والوں کے لیے اس کی برکات ،عبادت کے دوران میں عروج پر پہنچ جاتی ہیں اس کے ذریعے سے انسانی شخصیت ارتقاء کے عظیم مراحل طے کرتی ہے اس کی دو تین آیتیں تلاوت کرنے کا اجرو ثواب ہی انسان کے وہم و گمان سے زیادہ ہے ۔اس کی رحمتیں اور برکتیں ہر ایک کے لیے عام ہیں اس بات کا خاص اہتمام کیا گیا ہے کہ اسے ہر کو ئی پڑھ سکے۔ جس طرح کو ئی پڑھ سکتا ہے وہی باعث فضیلت ہے۔ یہ کتاب اُمیوں (ان پڑھوں ) میں نازل ہوئی ایک اُمی بھی اسے یاد کرسکتا ہے اس کی تلاوت کرسکتا ہے ۔تھوڑی کوشش کرے تو اسے سمجھ سکتا ہے اور سمجھ لے اور اپنالے تو دانا ترین انسانوں میں شامل ہو جا تا ہے اس کی تلاوت میں جو جمال اور سماعت میں جو لذت ہے اسکی دوسری کو ئی مثال موجود نہیں ۔
امام مسلمؒ نے قرآن مجید کے حفظ اس کی فضیلت اس کے حوالے سے بات کرنے کے آداب خوبصورت آواز میں تلاوت کرنے اس کے سننے کے آداب ،نماز میں اس کی قراءت چھوٹی اور بڑی سورتوں کی تلاوت کے فضائل مختلف لہجوں میں قرآن کے نزول کے حوالے سے احادیث مبارکہ ذکر کی ہیں ۔ اسی کتاب میں امام مسلمؒ نے اپنی خصوصی ترتیب کے تحت نماز کے ممنوعہ اوقات اور بعض نوافل کے استحباب کی روایتیں بھی بیان کی ہیں ۔
مُسعِر نے عمرو بن مرہ سے اور انھوں نے ابراہیم سے روایت کی، انھوں نے کہا: نبی اکرم ﷺ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: ’’مجھے قرآن مجید سناؤ۔‘‘ انھوں نے کہا: کیا میں آپﷺ کو سناؤں جبکہ (قرآن) اترا ہی آپﷺ پر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اچھا لگتا ہے کہ میں اسے کسی دوسرے سے سنوں۔‘‘ (ابراہیم) نے کہا: انھوں نے آپﷺ کے سامنے سورہ نساء ابتداء سے اس آیت تک سنائی: ﴿ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ شَهِيدًا﴾ (اس وقت کیا حال ہوگا، جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپﷺ کو ان پر گواہ بنا کر لائیں گے۔) تو آپﷺ (اس آیت پر) رو پڑے۔ مسعر نے ایک دوسری سند سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول نقل کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میں ان پر اس وقت تک گواہ تھا جب تک میں ان میں رہا۔‘‘ مسعر کو شک ہے۔ (دُمْتُ فِيْهِمْ) کہا یا (كُنْتُ فِيْهِمْ)(جب تک میں ان میں تھا) کہا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابراہیم بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سيّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حكم ديا كہ: ’’مجھے قرآن مجید سناؤ۔‘‘ انھوں نے کہا، کیا میں آپﷺ کو سناؤں جبکہ قرآن تو آپ ہی پر اترا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: " میں اسے اپنےغیر سے سننا پسند کرتا ہوں‘‘ ابراہیم کہتے ہیں کہ عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپﷺ کے سامنے سورہ نساء ابتداء سے اس آیت تک سنائی ﴿ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ شَهِيدًا﴾ (اس وقت کیا حال ہوگا، جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپﷺ کو ان پر گواہ بنا کرلائیں گے۔) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر رو پڑے۔ مسعر نے ایک دوسری سند سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول نقل کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں ان پر اس وقت تک گواہ تھا جب تک میں ان میں رہا۔‘‘ مسعر کو شک ہے۔ (مَا دُمْتُ فِيهِمْ) کہا یا (مَا كُنْتُ فِيهِمْ) کہا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibrahim reported that the Apostle of Allah (ﷺ) asked 'Abdullah bin Mas'ud to recite to him (the Qur'an). He said: Should I recite it to you while it has been sent down or revealed to you? He (the Holy Prophet) said: I love to hear it from someone else. So he ('Abdullah bin Mas'ud) recited to him (from the beginning of Surat al Nisa' up to the verse:" How shall then it be when We bring from every people a witness and bring you as a witness against them?" He (the Holy Prophet) wept (on listening to it). It is narrated on the authority of Ibn Mas'ud through another chain of transmitters that the Apostle of Allah (ﷺ) also said that he had been a witness to his people as long as (said he): I lived among them or I had been among them.