قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِمَارَةِ (بَابُ ثُبُوتِ الْجَنَّةِ لِلشَّهِيدِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1903. وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ: «عَمِّيَ الَّذِي سُمِّيتُ بِهِ لَمْ يَشْهَدْ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدْرًا»، قَالَ: " فَشَقَّ عَلَيْهِ، قَالَ: أَوَّلُ مَشْهَدٍ شَهِدَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُيِّبْتُ عَنْهُ، وَإِنْ أَرَانِيَ اللهُ مَشْهَدًا فِيمَا بَعْدُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَرَانِي اللهُ مَا أَصْنَعُ، " قَالَ: «فَهَابَ أَنْ يَقُولَ غَيْرَهَا»، قَالَ: «فَشَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ»، قَالَ: فَاسْتَقْبَلَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، فَقَالَ لَهُ أَنَسٌ: يَا أَبَا عَمْرٍو، أَيْنَ؟ فَقَالَ: وَاهًا لِرِيحِ الْجَنَّةِ أَجِدُهُ دُونَ أُحُدٍ، قَالَ: «فَقَاتَلَهُمْ حَتَّى قُتِلَ»، قَالَ: «فَوُجِدَ فِي جَسَدِهِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ بَيْنِ ضَرْبَةٍ وَطَعْنَةٍ وَرَمْيَةٍ»، قَالَ: " فَقَالَتْ أُخْتُهُ - عَمَّتِيَ الرُّبَيِّعُ بِنْتُ النَّضْرِ - فَمَا عَرَفْتُ أَخِي إِلَّا بِبَنَانِهِ، وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا} [الأحزاب: 23] "، قَالَ: «فَكَانُوا يُرَوْنَ أَنَّهَا نَزَلَتْ فِيهِ وَفِي أَصْحَابِهِ»

مترجم:

1903.

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میرے چچا جن کے نام پر میرا نام رکھا گیا ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ بدر میں حاضر نہیں ہو سکے تھے اور یہ بات ان پر بہت شاق گزری تھی۔ انہوں نے کہا: یہ پہلا معرکہ تھا جس میں رسول اللہ ﷺ شریک ہوئے اور میں اس سے غیر حاضر رہا، اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی معیت میں کوئی معرکہ مجھے دکھایا تو اللہ مجھے بھی دیکھے گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔ وہ ان کلمات کے علاوہ کوئی اور بات کہنے سے ڈرے (دل میں بہت کچھ کر گزرنے کا عزم تھا لیکن اس فقرے سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔)، پھر وہ غزوہ اُحد کے دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے، کہا: پھر سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ ان کے سامنے آئے تو (میرے چچا) انس (بن نضر) رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے کہا: ابوعمرو! کدھر؟ (پھر کہا: ) جنت کی خوشبو کیسی عجیب ہے! جو مجھے کوہِ احد کے پیچھے سے آ رہی ہے، پھر وہ کافروں سے لڑے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔ ان کے جسم پر تلوار، نیزے اور تیروں کے اَسی سے اوپر زخم پائے گئے۔ ان کی بہن، میری پھوپھی، ربیع بنت نضر رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: میں نے اپنے بھائی (کی لاش) کو صرف ان کی انگلیوں کے پوروں سے پہچانا تھا، (اسی موقع پر) یہ آیت نازل ہوئی: ’’(مومنوں میں سے) کتنے مرد ہیں کہ جس (قول) پر انہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا، اسے سچ کر دکھایا، ان میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اپنا ذمہ پورا کر دیا، اور ان میں سے کوئی ایسے ہیں جو منتظر ہیں، وہ ذرہ برابر تبدیل نہیں ہوئے (اپنے اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد پر قائم ہیں۔)‘‘ صحابہ کرام کا خیال یہ تھا کہ یہ آیت حضرت انس (بن نضر) رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔