قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ السَّلَامِ (بَابُ جَوَازِ إِرْدَافِ الْمَرْأَةِ الْأَجْنَبِيَّةِ إِذَا أَعْيَتْ فِي الطَّرِيقِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2182. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ أَبُو كُرَيْبٍ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ تَزَوَّجَنِي الزُّبَيْرُ وَمَا لَهُ فِي الْأَرْضِ مِنْ مَالٍ وَلَا مَمْلُوكٍ وَلَا شَيْءٍ غَيْرَ فَرَسِهِ قَالَتْ فَكُنْتُ أَعْلِفُ فَرَسَهُ وَأَكْفِيهِ مَئُونَتَهُ وَأَسُوسُهُ وَأَدُقُّ النَّوَى لِنَاضِحِهِ وَأَعْلِفُهُ وَأَسْتَقِي الْمَاءَ وَأَخْرُزُ غَرْبَهُ وَأَعْجِنُ وَلَمْ أَكُنْ أُحْسِنُ أَخْبِزُ وَكَانَ يَخْبِزُ لِي جَارَاتٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَكُنَّ نِسْوَةَ صِدْقٍ قَالَتْ وَكُنْتُ أَنْقُلُ النَّوَى مِنْ أَرْضِ الزُّبَيْرِ الَّتِي أَقْطَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَأْسِي وَهِيَ عَلَى ثُلُثَيْ فَرْسَخٍ قَالَتْ فَجِئْتُ يَوْمًا وَالنَّوَى عَلَى رَأْسِي فَلَقِيتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَدَعَانِي ثُمَّ قَالَ إِخْ إِخْ لِيَحْمِلَنِي خَلْفَهُ قَالَتْ فَاسْتَحْيَيْتُ وَعَرَفْتُ غَيْرَتَكَ فَقَالَ وَاللَّهِ لَحَمْلُكِ النَّوَى عَلَى رَأْسِكِ أَشَدُّ مِنْ رُكُوبِكِ مَعَهُ قَالَتْ حَتَّى أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَ ذَلِكَ بِخَادِمٍ فَكَفَتْنِي سِيَاسَةَ الْفَرَسِ فَكَأَنَّمَا أَعْتَقَتْنِي

مترجم:

2182.

ہشام کے والد (عروہ) نے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انھوں نے (حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے کہا: حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے نکاح کیا تو ان کے پاس ایک گھوڑے کے سوا نہ کچھ مال تھا، نہ غلام تھا، نہ کوئی اور چیز تھی۔ ان کے گھوڑے کو میں ہی چارا ڈالتی تھی ان کی طرف سے اس کی ساری ذمہ داری میں سنبھا لتی۔ اس کی نگہداشت کرتی ان کے پانی لا نے والے اونٹ کے لیے کھجور کی گٹھلیاں توڑتی اور اسے کھلا تی میں ہی (اس پر) پانی لاتی، میں ہی ان کا پانی کا ڈول سیتی آٹا گوندھتی، میں اچھی طرح روٹی نہیں بنا سکتی تھی تو انصار کی خواتین میں سے میری ہمسائیاں میرے لیے روٹی بنا دیتیں، وہ سچی (دوستی والی) عورتیں تھیں، انھوں نے (اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا) نے کہا رسول اللہ ﷺ نے زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زمین کا جو ٹکڑا عطا فرمایا تھا وہاں سے اپنے سر پر گٹھلیاں رکھ کر لاتی یہ (زمین ) تقریباً دو تہائی فرسخ (تقریباً 3.35کلو میٹر) کی مسافت پر تھی۔ کہا: ایک دن میں آ رہی تھی گٹھلیاں میرے سر پر تھیں تو میں رسول اللہ ﷺ سے ملی آپﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے کچھ لو گ آپ کے ساتھ تھے۔ آپ ﷺ نے مجھے بلایا، پھر آواز سے اونٹ کو بٹھا نے لگے تاکہ (گٹھلیوں کا بوجھ درمیان میں رکھتے ہوئے) مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیں۔ انھوں نے (حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے) کہا: مجھے شرم آئی مجھے تمھاری غیرت بھی معلوم تھی تو انھوں (زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کہا: اللہ جانتا ہے کہ تمھارا اپنے سر پر گٹھلیوں کا بوجھ اٹھانا آپ ﷺ کے ساتھ سوار ہونے سے زیادہ سخت ہے۔ کہا: (یہی کیفیت رہی) یہاں تک کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے پاس (رسول اللہ ﷺ کی عطا کردہ حدیث :5693۔) ایک کنیز بھجوا دی اور اس نے مجھ سے گھوڑے کی ذمہ داری لے لی ۔(مجھے ایسے لگا) جیسے انھوں نے مجھے (غلامی سے) آزاد کرا دیا ہے۔