تشریح:
فائدہ:
احد کے موقع پر جاتے ہوئے ابو سفیان یہ اعلان کر گئے تھے: (موعدکم یوم بدر في العام المقبل) ’’اگلے سال بدر میں ملاقات ہو گی‘‘ رسول اللہ ﷺ نے وعدے کے مطابق اگلے سال 4 ہجری میں شعبان میں مدینہ کا انتظار حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے سپرد فرمایا اور ڈیڑھ ہزار کی جمعیت کے ہمراہ بدر کا رخ فرمایا، علم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے سپرد تھا۔ مسلمان بدر پہنچ مشرکین کا انتظار کرنے لگے اور اس دور کے رواج کے مطابق جوسامان ِ تجارت ان کے ہمراہ تھا اسے اچھے داموں بیچتے اور نفع کماتے رہے جبکہ ابو سفیان دو ہزار کی جمعیت لے کر مکہ سے روانہ توہوا لیکن ایک منزل آگ مر الظہران پہنچ کر مجنہ کے چشمے خیمہ زن ہو گئے۔ ان پر مسلمانوں کی ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ آگے بڑھنے کی ہمت ختم ہو گئی، اپنے ساتھیوں کے سامنے مسلمانوں کا مقابلہ نہ کرنے کا یہ بہانہ پیش کیا کہ یہ شادابی اور ہریالی کا موسم نہیں ہے ہمارے جانور کہاں چریں گے کہ ان کا دودھ پی سکیں؟ ان کے ساتھی بھی کم ہمتی کا شکار تھے ان کی بات سن کر سب لوٹ گئے۔ رسول اللہ نے آٹھ دن انتظار فرمایا، جب مشرکین مکہ کے واپس بھاگ جانے کی پختہ خبر آگئی تو آپﷺ نے واپس مدینہ کا رخ فرمایا۔ بدر ثانیہ یا بدر صغریٰ یا بدر آخرہ، جس طرح یہ مہم مختلف ناموں سے پکاری جاتی تھی، مسلمانوں کی قوت کا بہت بڑا مظاہرہ ثابت ہوئی اور پورے عرب پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی۔