قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ ذِكْرِ حَدِيثِ أُمِّ زَرْعٍ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2448. حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ، وَأَحْمَدُ بْنُ جَنَابٍ، كِلَاهُمَا عَنْ عِيسَى، وَاللَّفْظُ لِابْنِ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَخِيهِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: جَلَسَ إِحْدَى عَشْرَةَ امْرَأَةً، فَتَعَاهَدْنَ وَتَعَاقَدْنَ أَنْ لَا يَكْتُمْنَ مِنْ أَخْبَارِ أَزْوَاجِهِنَّ شَيْئًا. قَالَتِ الْأُولَى: زَوْجِي لَحْمُ جَمَلٍ غَثٍّ، عَلَى رَأْسِ جَبَلٍ لَا سَهْلٌ فَيُرْتَقَى، وَلَا سَمِينٌ فَيُنْتَقَلَ قَالَتِ الثَّانِيَةُ: زَوْجِي لَا أَبُثُّ خَبَرَهُ، إِنِّي أَخَافُ أَنْ لَا أَذَرَهُ، إِنْ أَذْكُرْهُ أَذْكُرْ عُجَرَهُ وَبُجَرَهُ. قَالَتِ الثَّالِثَةُ: زَوْجِي الْعَشَنَّقُ، إِنْ أَنْطِقْ أُطَلَّقْ، وَإِنْ أَسْكُتْ أُعَلَّقْ. قَالَتِ الرَّابِعَةُ: زَوْجِي كَلَيْلِ تِهَامَةَ لَا حَرَّ وَلَا قُرَّ، وَلَا مَخَافَةَ وَلَا سَآمَةَ. قَالَتِ الْخَامِسَةُ: زَوْجِي إِنْ دَخَلَ فَهِدَ، وَإِنْ خَرَجَ أَسِدَ، وَلَا يَسْأَلُ عَمَّا عَهِدَ. قَالَتِ السَّادِسَةُ: زَوْجِي إِنْ أَكَلَ لَفَّ، وَإِنْ شَرِبَ اشْتَفَّ، وَإِنِ اضْطَجَعَ الْتَفَّ، وَلَا يُولِجُ الْكَفَّ لِيَعْلَمَ الْبَثَّ قَالَتِ السَّابِعَةُ: زَوْجِي غَيَايَاءُ أَوْ عَيَايَاءُ طَبَاقَاءُ، كُلُّ دَاءٍ لَهُ دَاءٌ، شَجَّكِ أَوْ فَلَّكِ أَوْ جَمَعَ كُلًّا لَكِ. قَالَتِ الثَّامِنَةُ: زَوْجِي الرِّيحُ رِيحُ زَرْنَبٍ، وَالْمَسُّ مَسُّ أَرْنَبٍ. قَالَتِ التَّاسِعَةُ: زَوْجِي رَفِيعُ الْعِمَادِ طَوِيلُ النِّجَادِ عَظِيمُ الرَّمَادِ، قَرِيبُ الْبَيْتِ مِنَ النَّادِ قَالَتِ الْعَاشِرَةُ: زَوْجِي مَالِكٌ، وَمَا مَالِكٌ؟ مَالِكٌ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ، لَهُ إِبِلٌ كَثِيرَاتُ الْمَبَارِكِ، قَلِيلَاتُ الْمَسَارِحِ، إِذَا سَمِعْنَ صَوْتَ الْمِزْهَرِ أَيْقَنَّ أَنَّهُنَّ هَوَالِكُ. قَالَتِ الْحَادِيَةَ عَشْرَةَ: زَوْجِي أَبُو زَرْعٍ، فَمَا أَبُو زَرْعٍ؟ أَنَاسَ مِنْ حُلِيٍّ أُذُنَيَّ، وَمَلَأَ مِنْ شَحْمٍ عَضُدَيَّ، وَبَجَّحَنِي فَبَجِحَتْ إِلَيَّ نَفْسِي، وَجَدَنِي فِي أَهْلِ غُنَيْمَةٍ بِشِقٍّ، فَجَعَلَنِي فِي أَهْلِ صَهِيلٍ وَأَطِيطٍ وَدَائِسٍ وَمُنَقٍّ، فَعِنْدَهُ أَقُولُ فَلَا أُقَبَّحُ، وَأَرْقُدُ فَأَتَصَبَّحُ، وَأَشْرَبُ فَأَتَقَنَّحُ أُمُّ أَبِي زَرْعٍ، فَمَا أُمُّ أَبِي زَرْعٍ؟ عُكُومُهَا رَدَاحٌ وَبَيْتُهَا فَسَاحٌ، ابْنُ أَبِي زَرْعٍ، فَمَا ابْنُ أَبِي زَرْعٍ؟، مَضْجَعُهُ كَمَسَلِّ شَطْبَةٍ وَيُشْبِعُهُ ذِرَاعُ الْجَفْرَةِ بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ، فَمَا بِنْتُ أَبِي زَرْعٍ؟ طَوْعُ أَبِيهَا وَطَوْعُ أُمِّهَا، وَمِلْءُ كِسَائِهَا وَغَيْظُ جَارَتِهَا، جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ، فَمَا جَارِيَةُ أَبِي زَرْعٍ؟ لَا تَبُثُّ حَدِيثَنَا تَبْثِيثًا، وَلَا تُنَقِّثُ مِيرَتَنَا تَنْقِيثًا، وَلَا تَمْلَأُ بَيْتَنَا تَعْشِيشًا قَالَتْ: خَرَجَ أَبُو زَرْعٍ وَالْأَوْطَابُ تُمْخَضُ، فَلَقِيَ امْرَأَةً مَعَهَا وَلَدَانِ لَهَا كَالْفَهْدَيْنِ، يَلْعَبَانِ مِنْ تَحْتِ خَصْرِهَا بِرُمَّانَتَيْنِ فَطَلَّقَنِي وَنَكَحَهَا، فَنَكَحْتُ بَعْدَهُ رَجُلًا سَرِيًّا، رَكِبَ شَرِيًّا، وَأَخَذَ خَطِّيًّا، وَأَرَاحَ عَلَيَّ نَعَمًا ثَرِيًّا، وَأَعْطَانِي مِنْ كُلِّ رَائِحَةٍ زَوْجًا، قَالَ: كُلِي أُمَّ زَرْعٍ وَمِيرِي أَهْلَكِ، فَلَوْ جَمَعْتُ كُلَّ شَيْءٍ أَعْطَانِي مَا بَلَغَ أَصْغَرَ آنِيَةِ أَبِي زَرْعٍ. قَالَتْ عَائِشَةُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُنْتُ لَكِ كَأَبِي زَرْعٍ لِأُمِّ زَرْعٍ»

مترجم:

2448.

عیسیٰ بن یونس نے کہا: ہمیں ہشام بن عروہ نے اپنے بھائی عبداللہ بن عروہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے عروہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: ہ گیارہ عورتیں (ایک جگہ) بیٹھیں اور ان سب نے یہ اقرار اور عہد کیا کہ اپنے اپنے خاوند کی کوئی بات نہ چھپائیں گی۔ پہلی عورت نے کہا کہ میرا خاوند گویا لاغر اونٹ کے  گوشت کی طرح ہے، جو ایک دشوار گزار پہاڑ کے اوپر (رکھا) ہو۔ نہ (اس کا راستہ) آسان ہے کہ اس پر چڑھ کر جا سکے اور نہ وہ گوشت فربہ ہے اسے منتخب کر کے لایا جائے (اس خاتون نے انتہائی بلاغت سے یہ کہا کہ اس کا خاوند قلیل المنفعت، متکبر اور بے فیض ہے۔) دوسری نے کہا: میرا خاوند ایسا ہے کی اس کی خبر عام نہیں کر سکتی میں ڈرتی ہوں کہ میں اس کو نہ چھوڑ نہ بیٹھوں، اگر میں بتاؤں کے اس کے ظاہری عیب بھی بتا بیٹھوں گی اور باطنی عیب بھی بتا بیٹھوں گی  اس کے اندر عیب ہیں لیکن جیسا بھی ہو بچوں وغیرہ کی بنا پر اسے چھوڑنا نہیں چاہتی، اگر بتایا تو ایسی باتیں ہیں کہ وہ مجھے چھوڑ دے گا۔)
تیسری نے کہا: میرا خاوند حد سے زیادہ لمبا ہے (احمق اور بد اخلاق ہے ۔) اگرکچھ کہوں گی توطلا ق ہو جائے گی اورخاموش رہوں گی تولٹکی رہوں گی۔ (اس کا خاوند عقل اور خیر سے عاری ہے اور وہ ایسی زندگی گزار رہی ہے کہ اسے نہ طلاق ہوتی ہے اور نہ ٹھیک طرح سے گھر بس رہا ہے۔)
چوتھی نے کہا: میرا خاوند تہامہ کی (خوش گوار) رات کی طرح ہے نہ گرم، نہ ٹھنڈا( اس کے ساتھ میری زندگی میں نہ اس کی بدخلقی یا کم مائیگی کا ) کوئی ڈر ہے ، نہ اکتاہٹ ہے۔ (بہت آرام دہ اور اچھی زندگی گزاررہی ہے۔)
پانچویں نے کہا: میرا خاوند جب گھر آتا ہے تو چیتا ہےہوتا ہے (جو بھٹ میں خوب آرام کی نیند سوتا ہے) جب باہر  نکلتا ہے تو شیر ہوتا ہے۔ (انتہائی بہادر، مغرور، غیور اور سب سے ممتاز ہوتا ہے) اور جو کچھ (گھر میں) ہوتا ہے اسے کے بارے میں کچھ نہیں پوچھتا (سب کچھ مجھ پر چھوڑ رکھا ہے۔)
چھٹی نے کہا: میرا خاوند اگر کھائے تو سب ڈکار جاتا ہے اگر پئیے تو آخری بوند بھی پی چوس لیتا ہے، اگر سوئے تو اپنے اردگرد اچھی طرح کپڑا لپیٹ لیتا ہے، (میری طرف) ہاتھ تک نہیں بڑھاتا کہ میری تنہائی کا غم جان سکے۔ (پیٹو، سست اور مردانگی سے عار ی ہے)
ساتویں نے کہا، میرا خاوند (اس کی صفات یہ ہیں، یا تو وہ) برائی اورایذا کا طاق ہے یا پھر عاجز اور درماندہ ہے۔ عقل پر حماقت کی تہیں لگی ہیں، دنیا کی ہر بیماری اس کی بیماری ہے (کر یہ سکتا ہے) کہ تمہارا سر پھوڑ دے یا جسم کو زخمی کر دے یا ایک ساتھ دونوں کام کر دے۔
آٹھویں نے کہا: میرا خاوند ا س کی خوشبو زرنب (معطر پودے) کی خوشبو جیسی ہے۔ (جسم معطر رہتا ہے یا لوگوں میں  اس کی  شہرت بہت اچھی ہے) اور ا سکا چھونا خرگوش کے چھونے کی طرح (نرم و ملائم) ہے۔  نرم مزاج اور محبت کرنے والاہے۔)
نویں نے کہا: میرے خاوند کے گھر کے ستون اونچے ہیں (اونچا، اور بڑے لوگوں کے رہنے والا گھر ہے) اس کی لٹکانے والے پیٹی لمبی ہے۔ (درازقد، قوی اور بہادر ہے) اس کے کھانے پکنے کی جگہ پر راکھ کے ڈھیر ہیں۔ (سخی ہے، بہت کھاتا پکواتا اور لوگوں کو کھلاتا ہے) اس کا گھر قبیلے کی مجلس کے بالکل ساتھ ہے (قبیلے کے سرکردہ مشوروں اور فیصلوں کے لیے  اس کے گھر کے پاس اکٹھے ہوتے ہیں کیونکہ وہی سردار ہے، دانا ہے اور اور اسی کی بات  مانی جاتی ہے۔)
دسویں نے کہا: میرا خاوند مالک ہے اور کیا چیز ہے مالک؟اس کا جتنا بھی تعارف کرایا جائے وہ اس سے بہتر ہے۔ اس کے اونٹوں کے بٹھانے کے باڑے بہت ہیں، ان کی چراگاہیں (جہاں کھلے پھرتے رہیں) کم ہیں (مہمانوں اور قبیلے کے لوگوں کو ان کا گوشت کھلایا جائے۔ اور دودھ پلایا  جائے، اس لیے ان کی تعداد گھر کے پاس رکھی جاتی ہے اور نستتاً کم تعداد چراگاہیں میں بھیجی جاتی ہیں) جب وہ اونٹ عود کے ساز کی آواز سنتے ہیں (مہمانوں کے استقبال کے لیے ساز بجائے جاتے ہیں) تو جان لیتے ہیں  کہ ان کو نحر کرنے کا وقت  آگیا ہے۔
گیارہویں عورت نے کہا: میرا خاوند ابو زرع (تھا) کیا بات ہے ابو زرع کی!میرےدونوں کانوں کو زیوروں سے لاد  دیا ، (عمدہ کھانے کھلا کھلا کر) میرے دونوں کندھے چربی سے بھر دیے اور مجھے اتنی خوشیاں دیں اورشان بڑھائی کہ اپنی نظروں میں بھی شان والی ہو گئی، اس نے مجھے آبادی کے ایک کنارے پر چند بکریوں والے گھرانے میں دیکھا اور ایسے گھرانے میں لا کر رکھا جہاں (میں نے دیکھا کہ) گھوڑنے ہنہناتے ہیں، اونٹ بلبلاتے ہیں، گاہنے والے غلہ گاہتے ہیں او رصاف کرنے والے بھوسہ الگ کرتے ہیں۔اس کے ہاں میں بات کروں تو کوئی برائی نہیں کرتا اور سوؤں تو دن چڑھے تک سوتی رہوں اور پیوں تو سیر ہو  کر بچادوں۔ ابو زرع کی ماں! تو کیا ماں ہے ابو زرع کی! ا س کے ظروف (بڑے بڑے صندوق، بورے برتن) کناروں تک بھرے ہیں اور اس کا گھر دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔
ابو زرع کا بیٹا! تو کیا بیٹا ہے ابو زرع کا! (ایسا چھریرا بدن اور کم سونے والا کہ) اس کے سونے کی جگہ ایسی ہے جیسے کھجور کے پنے کی ایک جانب سے دھاگا الگ کر لیا گیا ہو۔ اور (کم خور ایسا کہ) بکری کے چار ماہ کے بچے کی  ایک دستی سے سیر ہو جات ہے۔
ابو زرع کی بیٹی! کیا بیٹی ہےابو زرع کی! باپ کی اطاعت شعار، ماں کی فرمانبردار، جسم کپڑوں کر بھر دے، ہمسائی (یا سوکن) اسے دیکھے تو غصے سے تپ جائے۔
ابو زرع کی خادمہ! کیا خادمہ ہے ابوزرع کی! نہ (گھر کی) بات ادھر ادھر پھیلاتی ہے، نہ ہمارا کھانا لٹاتی پھرتی ہے، نہ گھر میں کوڑا بھرا رہنے دیتی ہے۔
اس (ام زرع ) نے کہا: ابو زرع (اس وقت) گھر سے نکلا جب دودھ کےبڑے بڑے برتن (مکھن نکالنے کے لیے) بلوئے جا رہے تھے۔ اور ایک عورت سے ملا جس کے ساتھ چیتے جیسے دو بیٹے تھے اس کی کمر کے نیچے سے دو اناروں کے ساتھ کھیل رہے تھے، تو اس نے مجھے طلاق دے دی۔ اور اس سے شادی کر لی، میں نے بھی اس کے بعد ایک معزز سردار سے شادی کی، وہ تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہوتا تھا، ہاتھ میں (لمبا) خطی نیزہ رکھتا تھا، اس نے ثروت سے بھری نعمتیں مجھ بر بہا دیں اور مجھے چر کر واپس گھر آنے والے جانوروں میں سے جوڑے جوڑے دیے اور کہا: ام زرع! خود کھاؤ اور اپنے گھر والوں کو بھی بھر کے بھجواؤ ( اس نے میرے اکرام کی انتہا کردی۔)
اس نے جو کچھ مجھے دیا سب اکٹھا کر لوں تو(بھی لگتا یہی ہے کہ ) ابوزرع کا سب سے چھوٹا برتن بھی نہیں بھرے گا۔  (ساری نعمتوں اور عزت کے باوجود اسے ابو زرع بھولتا نہ تھا۔)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’میں تمہارے لیے اسی طرح ہوں جس طرح ام زرع کے لیے ابو زرع تھا۔‘‘