صحیح مسلم
15. کتاب: روزے کے احکام و مسائل
15. باب: اگر سفر گناہ کے لیے نہیں تو رمضان میں مسافر کے لیے جبکہ اس کا سفر دو یادو سے زائد منزلوں کا ہے روزہ رکھنا اور روزہ چھوڑنا دونوں جائز ہیں اور جو آدمی نقصان اٹھائے بغیر روزہ رکھ سکتا ہے ‘
صحيح مسلم
15. كتاب الصيام
15. بَابُ جَوَازِ الصَّوْمِ وَالْفِطْرِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ لِلْمُسَافِرِ فِي غَيْرِ مَعْصِيَةٍ إِذَا كَانَ سَفَرُهُ مَرْحَلَتَيْنِ فَأَكْثَرَ
Muslim
15. The Book of Fasting
15. Chapter: It is permissible to fast or not to fast during Ramadan for one who is travelling for no sinful purpose, if his journey is two stages or further. But it is better for the one who is able to fast without suffering any harm to do so, and the one for whom it is difficult may break the fast
باب: اگر سفر گناہ کے لیے نہیں تو رمضان میں مسافر کے لیے جبکہ اس کا سفر دو یادو سے زائد منزلوں کا ہے روزہ رکھنا اور روزہ چھوڑنا دونوں جائز ہیں اور جو آدمی نقصان اٹھائے بغیر روزہ رکھ سکتا ہے ‘
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: It is permissible to fast or not to fast during Ramadan for one who is travelling for no sinful purpose, if his journey is two stages or further. But it is better for the one who is able to fast without suffering any harm to do so, and the one for whom it is difficult may break the fast)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2663.
عبدالعزیز نے جعفر سے اسی سند کے ساتھ (سابقہ حدیث کے مانند) روایت کی اور یہ اضافہ کیا: تو آپﷺ سے عرض کی گئی: روزے نے لوگوں کو مشقت میں ڈال دیا ہےاور وہ اس معاملے میں آپﷺ کے عمل کا انتظار کر رہے ہیں اس پر آپ ﷺ نےعصر کے بعد پانی کا ایک پیالہ منگوایا۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
عبدالعزیز نے جعفر سے اسی سند کے ساتھ (سابقہ حدیث کے مانند) روایت کی اور یہ اضافہ کیا: تو آپﷺ سے عرض کی گئی: روزے نے لوگوں کو مشقت میں ڈال دیا ہےاور وہ اس معاملے میں آپﷺ کے عمل کا انتظار کر رہے ہیں اس پر آپ ﷺ نےعصر کے بعد پانی کا ایک پیالہ منگوایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
یہی روایت امام صاحب ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں جس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا لوگوں کے لیے روزہ مشقت کا باعث بن رہا ہے اور وہ آپ کے فعل کے منتظر ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد پانی کا پیالہ منگوایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
This hadith has been narrated by Ja'far with the some chain of transmitters and he added: It was said to him (to the Holy Prophet): There are people to whom fasting has become unbearable and they are waiting how you do. He (the Holy Prophet) then called for a cup of water when it was afternoon. The rest of the hadith is the same.