Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: Fasting on the day of Ashura')
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2710.
سفیان نے ایوب سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبداللہ بن سعید بن جبیر سے، انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے عاشورہ کے دن یہود کو روز رے کی حالت میں پایا، رسول اللہ ﷺ نے ان سے دریافت کیا۔ ’’یہ کیا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟‘‘ انھوں نے جواب دیا : یہ ایک عظیم دن ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کی نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا تو موسیٰ علیہ السلام نے (اللہ کا) شکر بجا لاتے ہوئے اس کا روزہ رکھا لہٰذا ہم بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے مقابلے میں ہم موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ زیادہ حق اور زیادہ تعلق رکھنے والے ہیں‘‘ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکھا اور (صحابہ کو بھی)روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
سفیان نے ایوب سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبداللہ بن سعید بن جبیر سے، انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے عاشورہ کے دن یہود کو روز رے کی حالت میں پایا، رسول اللہ ﷺ نے ان سے دریافت کیا۔ ’’یہ کیا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟‘‘ انھوں نے جواب دیا : یہ ایک عظیم دن ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کی نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا تو موسیٰ علیہ السلام نے (اللہ کا) شکر بجا لاتے ہوئے اس کا روزہ رکھا لہٰذا ہم بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے مقابلے میں ہم موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ زیادہ حق اور زیادہ تعلق رکھنے والے ہیں‘‘ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکھا اور (صحابہ کو بھی)روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے پایا تو آپﷺ نے یہودیوں سے دریافت کیا۔ ’’یہ دن جس کا تم روزہ رکھتے ہو اس کی کیا حقیقت و خصوصیت ہے؟‘‘ انھوں نے کہا یہ بڑی عظمت والا دن ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کی نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرقاب کیا تھا تو موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اس کا روزہ رکھا اس لیے ہم بھی (ان کی پیروی میں) اس دن روزہ رکھتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہمارا موسیٰ ؑ سے تعلق تم سے زیادہ ہے اور ہم ان کے زیادہ حق دار ہیں‘‘ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو بھی (فرائض وواجبات کی طرح تاکید ی) حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے مدینہ میں آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا کہ یہ وہ مبارک تاریخی دن ہے جس میں حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے نجات عطا فرمائی تھی فرعون اور اس کے لشکریوں کو غرقاب کیا تھا اس لیے موسی علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے اس انعام اور احسان کے شکر میں اس دن کا روزہ رکھتے تھے تو آپﷺ نے بھی ان کی اقتدا میں عاشورہ کا روزہ خود بھی رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا ایسا تاکیدی حکم دیا جیسا کہ فرائض وواجبات کے لیے دیا جاتا ہے جس کی تفصیل آگے باب 21 میں آرہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn'Abbas (Allah be pleased with both of them) reported that the Messenger of Allah (ﷺ) arrived in Madinah and found the Jews observing fast on the day of 'Ashura. The Messenger of Allah (ﷺ) said to them: What is the (significance) of this day that you observe fast on it? They said: It is the day of great (significance) when Allah delivered Moses (ؑ) and his people, and drowned the Pharaoh and his people, and Moses (ؑ) observed fast out of gratitude and we also observe it. Upon this the Messenger of Allah (ﷺ) said: We have more right, and we have a closer connection with Moses (ؑ) than you have; so Allah's Messenger (ﷺ) observed fast (on the day of 'Ashura), and gave orders that it should be observed.