Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: Making up fasts on behalf of the deceased)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2747.
ابو خالد احمر نےکہا: ہمیں اعمش نے سلمہ بن کہیل، حکم بن عتیبہ اور مسلم البطین سےحدیث سنائی، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی اور انھوں نے یہ حدیث نبی اکرم ﷺ سے روایت کی-
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
ابو خالد احمر نےکہا: ہمیں اعمش نے سلمہ بن کہیل، حکم بن عتیبہ اور مسلم البطین سےحدیث سنائی، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی اور انھوں نے یہ حدیث نبی اکرم ﷺ سے روایت کی-
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
امام صاحب نے اپنے استاد ابو سعید اشج سے یہ روایت اعمش (سلیمان) سے سلمہ بن کہیل حکم بن عتیبہ اور مسلم بطین تینوں نے سعید بن جبیر، مجاہد اور عطاء کے واسطہ سے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کی۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے یہ بات صراحتاً ثابت ہوتی ہے کہ میت کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھ سکتا ہے اور اسے روزے رکھنے چاہئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ایک مثال کے ذریعہ سمجھائی جب کہ روزہ انسان کے ذمہ اللہ کا حق ہے جو قرض کے حکم میں ہے، جس طرح انسانی ادائیگی ضروری ہے، اس سے بڑھ کر اللہ کے قرض کی ادائیگی لازمی ہے اور حج کی طرح روزہ بھی ایسا حق ہے، جس کی انسان کی زندگی میں بھی نیابت، عذر یا مجبوری کی صورت میں جائز ہے۔ لیکن نماز کی نیابت بالاتفاق جائز نہیں ہے۔ اس لیے اہل ظاہر کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی بنا پر، ولی کے لیے روزے رکھنا ضروری ہے، محدثین، ابوثور اور بعض شوافع کے نزدیک بھی ان صحیح احادیث کی بنا پر اس کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی بھی یہ رائے ہے اور حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی پر زور وکالت کی ہے لیکن احناف اور شوافع جو عبادات میں بھی (یعنی بدنی عبادت میں) قیاس سے کام لے کر میت کی طرف سے تلاوت قرآنی جائز قرار دیتےہیں، حالانکہ کسی حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے اور یہ نماز کی طرح خالص بدنی عبادت ہے جس میں نیابت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، ان کے نزدیک ولی، میت کی طرف سے روزے نہیں رکھ سکتا اور صحیح احادیث کے مقابلہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے اقوال پیش کرتے ہیں یا ایسے قواعد وضوابط جو وضعی ہیں یا چسپاں نہیں ہوتے پیش کرتے ہیں۔ بہرحال امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر میت نے اپنے مال سے فدیہ کی ادائیگی کی وصیت کی ہو تو فدیہ ادا کرنا واجب ہے۔اگر وصیت نہ کی ہو تو مستحب ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نذر کی صورت میں روزے رکھے جائیں گے اور رمضان کی صورت میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ہر روزہ کے بدلہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہو گا۔ علامہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ نے ظاہری معنی کو ترجیح دی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
This hadith has been narrated on the authority of Ibn 'Abbas (RA) from the Apostle of Allah (ﷺ) .