صحیح مسلم
15. کتاب: روزے کے احکام و مسائل
32. باب: زوال سے پہلے نفلی روزے کی نیت کرنے اور نفلی روزہ رکھنے والے کے لیے عذر کے بغیر افطار کرنے کا جواز(روزے کو )پورا کرنا افضل ہے
صحيح مسلم
15. كتاب الصيام
32. بَابُ جَوَازِ صَوْمِ النَّافِلَةِ بِنِيَّةٍ مِنَ النَّهَارِ قَبْلَ الزَّوَالِ، وَجَوَازِ فِطْرِ الصَّائِمِ نَفْلًا مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ
Muslim
15. The Book of Fasting
32. Chapter: It is permissible to observe a voluntary fast with an intention formed during the day before the sun reaches its Zenith, and it is permissible for one who is observing a voluntary fast to break his fast with no excuse, although it is better for him to complete it
باب: زوال سے پہلے نفلی روزے کی نیت کرنے اور نفلی روزہ رکھنے والے کے لیے عذر کے بغیر افطار کرنے کا جواز(روزے کو )پورا کرنا افضل ہے
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: It is permissible to observe a voluntary fast with an intention formed during the day before the sun reaches its Zenith, and it is permissible for one who is observing a voluntary fast to break his fast with no excuse, although it is better for him to complete it)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2767.
وکیع نے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، کہا: ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور پوچھا: ’’کیا آپﷺ لوگوں کے پاس (کھانے کی) کوئی چیز ہے؟‘‘ تو ہم نے کہا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو تب میں روزے سے ہوں۔‘‘ پھر ایک اور دن آپ ﷺ تشریف لائے تو ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ﷺ! ہمیں حیس تحفے میں ملا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے کھلایئے، میں نے روزے کی حالت میں صبح کی تھی۔‘‘ اس کے بعد آپ ﷺ نے کھا لیا۔
تشریح:
فوائد ومسائل
پہلی روایت مجمل ہے اور یہ اس کی نسبت زیادہ مفصل ہے۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
وکیع نے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، کہا: ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور پوچھا: ’’کیا آپﷺ لوگوں کے پاس (کھانے کی) کوئی چیز ہے؟‘‘ تو ہم نے کہا: نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو تب میں روزے سے ہوں۔‘‘ پھر ایک اور دن آپ ﷺ تشریف لائے تو ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ﷺ! ہمیں حیس تحفے میں ملا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے کھلایئے، میں نے روزے کی حالت میں صبح کی تھی۔‘‘ اس کے بعد آپ ﷺ نے کھا لیا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
پہلی روایت مجمل ہے اور یہ اس کی نسبت زیادہ مفصل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت اُم المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس تشریف لائے ارو پوچھا: ’’کیا تمھارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟‘‘ تو ہم نے کہا: نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! ’’تو اب ہم روزہ دار ہیں۔‘‘ پھرایک دن تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہمیں مالیدہ کا ہدیہ ملا ہے تو آپﷺ نے فرمایا: ’’مجھے کھلائیے میں نے تو آج روزے کی نیت کی تھی۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوش فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ نفلی روزے کی نیت دن میں بھی کی جا سکتی ہے دوسری یہ کہ نفلی روزہ توڑا بھی جا سکتا ہے اور نفلی روزہ توڑنا جرم یا گناہ نہیں ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور محدثین کا یہی مؤقف ہے۔ اگرچہ اس کی جگہ روزہ رکھنا مستحب ہے تاکہ اجروثواب حاصل ہو سکے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نفلی روزہ توڑنا جائز نہیں ہے ایسا کرنے والا گناہ کار ہے اور اس پر قضائی واجب ہے کیونکہ یہ اپنے عمل کو باطل اور رائیگاں ٹھہرانا ہے حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔ کیونکہ نفلی روزہ رکھنے والا شرعی طور پر بااختیار ہے کہ چاہے وہ روزہ پورا کرے یا کسی وجہ سے توڑنا چاہے تو توڑدے، وہ پورا کرنے کا پابند نہیں ہے اگر پابند ہوتا تو پھر توڑنے کی صورت میں عمل باطل ٹھہرتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha, the Mother of the Believers (Allah be pleased with her), reported: The Apostle of Allah (ﷺ) came to me one day and said: Is there anything with you (to eat)? I said: No. Thereupon he said: I shall then be fasting. Then he came to us another day and we said: Messenger of Allah, has been offered to us as a gift. Thereupon he said: Show that to me; I had been fasting since morning. He then ate it.