تشریح:
فائدہ:
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک مسلم جن گناہوں کی وجہ سے جہنم میں جانے والا ہو گا وہ بلاسبب کافر پر ڈال دیے جائیں گے۔ یہ اللہ کے فرمان ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾ ’’اور کوئی بوجھ اٹھانے والی (جان) کسی دوسری کا بوجھ نہیں اٹھائے گی‘‘ کے خلاف ہے ہاں اس کافر نے دھوکے سے یا جبر کر کے مسلمان سے غلط کام کروایا ہوگا تو اپنے علاوہ مسلمان کے غلط کام کی ذمہ داری بھی اس پر ڈالی جائے گی۔: ﴿لِيَحْمِلُواْ أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلاَ سَاء مَا يَزِرُونَ﴾ ’’تا کہ قیامت کے دن اپنے بوجھ پورے اٹھائیں اور کچھ بوجھ ان کے بھی جنھیں وہ علم کے بغیر گمراہ کرتے ہیں۔ سن لو! برا ہے جو بوجھ وہ اٹھا رہے ہیں۔‘‘ (النحل:25:16) اس کا یہ بھی مفہوم بیان کیا گیا ہے کہ دوزخ میں جانے والوں کی تعداد متعین ہے۔ گناہ گار مومنوں کو بھی معاف کر کے جنت میں بھیج دینےکے بعد کافروں سے وہ تعداد پوری ہو جائے گی جو جہنم کے لیے مقرر ہے۔ اس حدیث میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔