صحیح مسلم
17. کتاب: حج کے احکام ومسائل
17. باب: احرام کی مختلف صورتیں ‘حج افراد تمتع اور قران ‘نیز عمرے (کے احرام )میں ‘احرام حج کو شامل کر لینے کا جواز ‘اور (یہ کہ)حج قران کرنے والا کب احرام کھولے
صحيح مسلم
17. كتاب الحج
17. بَابُ بَيَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ، وَأَنَّهُ يَجُوزُ إِفْرَادُ الْحَجِّ وَالتَّمَتُّعِ وَالْقِرَانِ، وَجَوَازِ إِدْخَالِ الْحَجِّ عَلَى الْعُمْرَةِ، وَمَتَى يَحِلُّ الْقَارِنُ مِنْ نُسُكِهِ
Muslim
17. The Book of Pilgrimage
17. Chapter: Clarifying the types of Ihram; and that it is permissible to perfom Hajj that is Ifrad, Tamattu and Qiran. It is permissible to join Hajj to Umrah. And when the pilgrim who is performing Qiran should exit Ihram
باب: احرام کی مختلف صورتیں ‘حج افراد تمتع اور قران ‘نیز عمرے (کے احرام )میں ‘احرام حج کو شامل کر لینے کا جواز ‘اور (یہ کہ)حج قران کرنے والا کب احرام کھولے
)
Muslim:
The Book of Pilgrimage
(Chapter: Clarifying the types of Ihram; and that it is permissible to perfom Hajj that is Ifrad, Tamattu and Qiran. It is permissible to join Hajj to Umrah. And when the pilgrim who is performing Qiran should exit Ihram)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2964.
مالک نے ابن شہاب سے انھوں نے عروہ سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: ہم حجۃالوداع کے سال (اس کی ادائیگی کے لیے) اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہو ئے اور ہم (میں سے کچھ) نے عمرے کے لیے (احرام باندھ کر) تلبیہ کہا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’قربانی کا جا نور جس کے ساتھ ہو وہ عمرے کے ساتھ ہی حج کا بھی تلبیہ پکارے اور اس وقت تک احرام نہ کھولے جب تک دونوں (کے لیے عائد کردہ احرا م کی پابندیوں) سے آزاد نہ ہو جائے۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا جب میں مکہ پہنچی تو ایا م مخصوصہ میں تھی میں نے حج کا طواف کیا اور نہ صفا مروہ کے درمیان سعی کی میں نے اس (صورت حال) کا شکوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے سر کے بال کھو لو اور کنگھی کرو (پھر) حج کا تلبیہ پکارنا شروع کر دو اور عمرے کو چھوڑ دو۔‘‘ انھوں نے کہا: میں نے ایسا ہی کیا پھر جب ہم نے حج ادا کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (میرے بھا ئی)عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تنعیم بھیجا میں نے (وہاں سے احرا م باندھ کر) عمرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یہ (عمرہ) تمھا رے (اس رہ جا نے والے) عمرے کی جگہ ہے۔‘‘ جن لوگوں نے عمرے کے لیے تلبیہ پکارا تھا۔ انھوں نے بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کیا اور پھر احرام کھول دیے۔ پھر جب وہ لو گ (حج کے دورا ن میں) منیٰ سے لوٹے تو انھوں نے اپنے حج کے لیے دوسری بار طواف کیا البتہ وہ لوگ جنھوں نے حج اور عمرے کو جمع کیا تھا (حج قِران کیا تھا) تو انھوں نے (صفامروہ کا) ایک ہی طواف کیا۔
مالک نے ابن شہاب سے انھوں نے عروہ سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: ہم حجۃالوداع کے سال (اس کی ادائیگی کے لیے) اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہو ئے اور ہم (میں سے کچھ) نے عمرے کے لیے (احرام باندھ کر) تلبیہ کہا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’قربانی کا جا نور جس کے ساتھ ہو وہ عمرے کے ساتھ ہی حج کا بھی تلبیہ پکارے اور اس وقت تک احرام نہ کھولے جب تک دونوں (کے لیے عائد کردہ احرا م کی پابندیوں) سے آزاد نہ ہو جائے۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا جب میں مکہ پہنچی تو ایا م مخصوصہ میں تھی میں نے حج کا طواف کیا اور نہ صفا مروہ کے درمیان سعی کی میں نے اس (صورت حال) کا شکوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے سر کے بال کھو لو اور کنگھی کرو (پھر) حج کا تلبیہ پکارنا شروع کر دو اور عمرے کو چھوڑ دو۔‘‘ انھوں نے کہا: میں نے ایسا ہی کیا پھر جب ہم نے حج ادا کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (میرے بھا ئی)عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تنعیم بھیجا میں نے (وہاں سے احرا م باندھ کر) عمرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یہ (عمرہ) تمھا رے (اس رہ جا نے والے) عمرے کی جگہ ہے۔‘‘ جن لوگوں نے عمرے کے لیے تلبیہ پکارا تھا۔ انھوں نے بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کیا اور پھر احرام کھول دیے۔ پھر جب وہ لو گ (حج کے دورا ن میں) منیٰ سے لوٹے تو انھوں نے اپنے حج کے لیے دوسری بار طواف کیا البتہ وہ لوگ جنھوں نے حج اور عمرے کو جمع کیا تھا (حج قِران کیا تھا) تو انھوں نے (صفامروہ کا) ایک ہی طواف کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حجۃ الوداع کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور ہم نے عمرے کا احرام باندھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے پاس ہدی ہے تو وہ عمرہ کے ساتھ حج کے لیے بھی تلبیہ کہے، پھر وہ جب تک دونوں سے حلال نہ ہو جائے، اس وقت تک احرام نہ کھولے۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں میں مکہ، حیض کی حالت میں پہنچی، اس لیے بیت اللہ کا طواف نہ کر سکی اور نہ ہی صفا و مروہ کی سعی کر سکی تو میں نے اس کا شکوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے سر کے بال کھول دے اور کنگھی کر لے اور حج کا تلبیہ کہہ اور عمرہ کے افعال چھوڑ دے۔‘‘ تو میں نے ایسے ہی کیا، جب ہم حج سے فارغ ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مقام تنعیم بھیجا، میں نے عمرہ کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ تمہارے عمرے کی جگہ ہے۔‘‘ تو جن لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا، انہوں نے بیت اللہ، صفا اور مروہ کے چکر لگائے، پھر احرام کھول دیا، پھر جب وہ منیٰ سے واپس آئے تو انہوں نے اپنے حج کے لیے دوبارہ طواف کیا، لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا، انہوں نے ایک ہی طواف کیا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
1۔ حج کب فرض ہوا اس کے بارے میں اختلاف ہے۔ مشہور قول دو ہیں سن 6 ہجری اور سن 9 ہجری صحیح قول یہی معلوم ہوتا ہے کہ سن 8 ہجری میں فتح مکہ کے بعد، جب مکہ معظمہ پر مسلمانوں کا اقتدار قائم ہو گیا تو سن 9 ہجری میں حج فرض ہوا، لیکن اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حج نہیں کیا بلکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیرحج بنا کر بھیجا اور اس حج میں چند اہم اعلانات کروائے گئے تاکہ جب آئندہ سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود حج فرمائیں تو اس میں جاہلیت کے گندے اور مشرکانہ طور طریقوں کی آمیزش نہ ہو اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حج کرنے کے صحیح طور طریقے سیکھ لیں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کی خصوصی اہتمام سے تشہیر کروائی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمان اس مبارک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ کر مناسک حج اور دین کے دوسرے مسائل اوراحکام سیکھ سکیں۔ اس لیے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کی خاطر جوق درجوق اس حج میں شرکت کے لیے آئے اورراستہ میں بھی رفقائے سفر میں اضافہ ہوتا رہا۔ 2۔ حج کی اقسام: حج کی تین قسمیں ہیں۔ 1۔ حج افراد۔ جس کے لیے میقات سے جانے والا اپنے مقررہ میقات سے صرف حج کا احرام باندھتا ہے اورحج سے فراغت تک محرم ہی رہتا ہے۔ 2۔ حج تمتع۔ حج کے لیے جانے والا اپنے میقات سے صرف عمرہ کے لیے احرام باندھتا ہے اور یہ احرام حج کے مہینوں میں باندھا جائے گا۔ پھر مکہ مکرمہ پہنچ کر بیت اللہ کا طواف کرتاہے اس کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتا ہے پھر تحلیق یا تقصیر کے بعد احرام کھول دیتا ہے اور آٹھ ذوالحجہ کو نئے سرے سے حج کے لیے احرام باندھتا ہے اور حج کے تمام افعال نئے سرے سے ادا کرتا ہے۔ یعنی دس(10) ذوالحجہ کو منیٰ سے آ کر طواف افاضہ کے بعد صفا اومروہ کے درمیان سعی کرتا ہے اورحج سے فارغ ہو جاتا ہے طواف افاضہ سے پہلے، رمی ۔ قربانی اور تحلیق یا تقصیر کر لیتا ہے۔ 3۔ حج قِران۔ جس کے لیے حاجی میقات سے عمرہ اور حج دونوں کے لیے احرام باندھتا ہے اورعمرہ کرنے کے بعد احرام نہیں کھولتا بلکہ حج سے فراغت کے بعد حلال ہوتا ہے۔ یعنی طواف افاضہ سے پہلے احرام کھولتا ہے جبکہ وہ قربانی کرنے کے بعد تحلیق یا تقصیر کر لیتا ہے۔ 3۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہفتہ کے دن 25 ذوالحجہ سن 10 ہجری کو نماز ظہر کے بعد مدینہ منورہ سے نکلے ہیں اور رات ذوالحلیفہ میں گزاری ہے اگلے دن اتوار کو نماز ظہر کے بعد مسجد ذوالحلیفہ سے احرام باندھا ہے چونکہ عربوں کا دستور یہ چلا آ رہا تھا کہ وہ جب حج کے لیے نکلتے تو صرف حج کا احرام باندھتے تھے حج کے ساتھ عمرہ نہیں کرتے تھے اس لیے مدینہ منورہ سے نکلتے وقت سب کا ارادہ صرف حج ہی کا تھا۔ لیکن جب وادی عقیق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوحج کے ساتھ عمرہ کرنے کا حکم دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عمرہ کا تلبیہ کہنے کا مشورہ دیا۔ اس لیے بعض لوگوں نے یہاں سے صرف عمرہ کا تلبیہ کہنا شروع کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چونکہ ہدی (قربانی کاجانور) تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے ساتھ عمرہ کو بھی ملا لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قارن بن گئے، ازواج مطہرات نے بھی عمرہ کا تلبیہ کہنا شروع کر دیا اور حج کو فسخ کر ڈالا لیکن کچھ لوگ صرف حج کے احرام پر قائم رہے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں بیت اللہ اور صفا اورمروہ کے طواف سے فراغت کے بعد ان تمام لوگوں کو احرام کھولنے کا حکم دیا جن کے پاس قربانی نہیں تھی، اس طرح یہ سب لوگ متمتع ہو گئے، اگرچہ جب مدینہ سے چلے تھے تو سب کا ارادہ حج افراد کا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے یہ عذر پیش فرمایا چونکہ میرے پاس ہدی ہے اس لیے میں احرام کھول کر متمتع نہیں بن سکتا۔ اگرمیرے پاس قربانی نہ ہوتی تو میں بھی تمہاری طرح عمرہ کرنے کے بعد احرام کھو ل دیتا۔ 4۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی دوسری ازواج مطہرات کی طرح پہلے عمرہ کرنے کی نیت کر لی تھی لیکن چونکہ وہ طواف بیت اللہ سے پہلے حائضہ ہو گئیں تھیں اس لیے وہ پہلے عمرہ نہ کر سکیں۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی حج قرآن کرنے کا حکم دیا کیونکہ اس میں عمرہ کے افعال حج کے افعال میں داخل ہو جاتے ہیں اس لیے جن لوگوں نے حج قران کیا تھا انہوں نے صفا اورمروہ کےدرمیان سعی صرف ایک دفعہ کی جبکہ حج تمتع کرنے والوں نے طواف افاضہ کرنے کے بعد دوبارہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی۔ 5۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے چونکہ حج تمتع کا ارادہ کرلیا تھا جس میں عمرہ اورحج الگ الگ ہوتے ہیں لیکن وہ حیض کے عذر کی بنا پر الگ عمرہ نہ کرسکیں جبکہ باقی ازواج مطہرات نے الگ عمرہ کرلیا تھا اس لیے ان کی خواہش تھی کہ میں بھی الگ عمرہ کروں حالانکہ حج قران کے ساتھ ان کا عمرہ ہو چکا تھا۔ ان کی خواہش کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج سے فراغت کے بعد انہیں عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مقام تنعیم سے جو حل میں واقع ہے دوبارہ عمرہ کروایا۔ 6۔ حج کی تینوں قسموں کے جواز میں ائمہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ۔ کے نزدیک حج افراد افضل ہے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حج تمتع اورحج قرآن دونوں حج افراد سے افضل ہیں۔ اما ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حج قران افضل ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حج تمتع افضل ہے۔ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک متمتع سے وہ قارن افضل ہے جو قربانی ساتھ لاتا ہے اگرقربانی ساتھ نہیں لاتا تو متمتع افضل ہے۔ 7۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ۔اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ۔اورمحدثین کے نزدیک قارن کے لیے ایک طواف اور ایک سعی فرض ہے اور متمتع کے لیے دو طواف اور دوسعی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قارن کے لیے بھی دو طواف اوردو سعی لازم ہیں۔ لیکن یہ مؤقف صحیح حدیث کے خلاف ضعیف احادیث کی بنیاد پر ہے جیسا کہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے زادالمعاد میں تفصیل سے بیان کیا ہے (زادالمعادج 2ص: 136تا 140) امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور بعض دوسرے حضرات کا ایک قول یہ ہے کہ متمتع بھی ایک سعی پر کفایت کر سکتا ہے۔ اگرچہ افضل دو سعی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha (Allah be pleased with her) said: We went with the Messenger of Allah (ﷺ) during the year of the Farewell Pilgrimage. We entered into the state of Ihram for 'Umrah. Then the Messenger of Allah (ﷺ) said: Who has the sacrificial animal with him, he should put on Ihram for Hajj along with 'Umrah, and should not put it off till he has completed them (both Hajj and 'Umrah). She said: When I came to Makkah I was having menses, I neither circumambulated the House, nor ran between as-Safa' and al-Marwah. I complained about it to the Messenger of Allah (ﷺ) and he said: Undo your hair, comb it, and pronounce Talbiya for Hajj, and give up 'Umrah (for the time being), which I did. When we had performed the Hajj, the Messenger of Allah (ﷺ) (may peace he upon him) sent me with Abdul Rahman bin Abu Bakr (RA) to Tan'im saying: This is the place for your 'Umrah. Those who had put on Ihram for 'Umrah circumambulated the House, and ran between al-Safa' and al-Marwah. They then put off Ihram and then made the last circuit after they had returned from Mina after performing their Hajj, but those who had combined the Hajj and the 'Umrah made only one circuit (as they had combined Hajj and 'Umrah).