قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ (بَابٌ «الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ، وَجَنَّةُ الْكَافِرِ»)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2964. حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي عَمْرَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ ثَلَاثَةً فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ أَبْرَصَ وَأَقْرَعَ وَأَعْمَى فَأَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَبْتَلِيَهُمْ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مَلَكًا فَأَتَى الْأَبْرَصَ فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ لَوْنٌ حَسَنٌ وَجِلْدٌ حَسَنٌ وَيَذْهَبُ عَنِّي الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ قَالَ فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ قَذَرُهُ وَأُعْطِيَ لَوْنًا حَسَنًا وَجِلْدًا حَسَنًا قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْإِبِلُ أَوْ قَالَ الْبَقَرُ شَكَّ إِسْحَقُ إِلَّا أَنَّ الْأَبْرَصَ أَوْ الْأَقْرَعَ قَالَ أَحَدُهُمَا الْإِبِلُ وَقَالَ الْآخَرُ الْبَقَرُ قَالَ فَأُعْطِيَ نَاقَةً عُشَرَاءَ فَقَالَ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا قَالَ فَأَتَى الْأَقْرَعَ فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ شَعَرٌ حَسَنٌ وَيَذْهَبُ عَنِّي هَذَا الَّذِي قَدْ قَذِرَنِي النَّاسُ قَالَ فَمَسَحَهُ فَذَهَبَ عَنْهُ وَأُعْطِيَ شَعَرًا حَسَنًا قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْبَقَرُ فَأُعْطِيَ بَقَرَةً حَامِلًا فَقَالَ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيهَا قَالَ فَأَتَى الْأَعْمَى فَقَالَ أَيُّ شَيْءٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ أَنْ يَرُدَّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي فَأُبْصِرَ بِهِ النَّاسَ قَالَ فَمَسَحَهُ فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيْهِ بَصَرَهُ قَالَ فَأَيُّ الْمَالِ أَحَبُّ إِلَيْكَ قَالَ الْغَنَمُ فَأُعْطِيَ شَاةً وَالِدًا فَأُنْتِجَ هَذَانِ وَوَلَّدَ هَذَا قَالَ فَكَانَ لِهَذَا وَادٍ مِنْ الْإِبِلِ وَلِهَذَا وَادٍ مِنْ الْبَقَرِ وَلِهَذَا وَادٍ مِنْ الْغَنَمِ قَالَ ثُمَّ إِنَّهُ أَتَى الْأَبْرَصَ فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ قَدْ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي فَلَا بَلَاغَ لِي الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي أَعْطَاكَ اللَّوْنَ الْحَسَنَ وَالْجِلْدَ الْحَسَنَ وَالْمَالَ بَعِيرًا أَتَبَلَّغُ عَلَيْهِ فِي سَفَرِي فَقَالَ الْحُقُوقُ كَثِيرَةٌ فَقَالَ لَهُ كَأَنِّي أَعْرِفُكَ أَلَمْ تَكُنْ أَبْرَصَ يَقْذَرُكَ النَّاسُ فَقِيرًا فَأَعْطَاكَ اللَّهُ فَقَالَ إِنَّمَا وَرِثْتُ هَذَا الْمَالَ كَابِرًا عَنْ كَابِرٍ فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ قَالَ وَأَتَى الْأَقْرَعَ فِي صُورَتِهِ فَقَالَ لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِهَذَا وَرَدَّ عَلَيْهِ مِثْلَ مَا رَدَّ عَلَى هَذَا فَقَالَ إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَصَيَّرَكَ اللَّهُ إِلَى مَا كُنْتَ قَالَ وَأَتَى الْأَعْمَى فِي صُورَتِهِ وَهَيْئَتِهِ فَقَالَ رَجُلٌ مِسْكِينٌ وَابْنُ سَبِيلٍ انْقَطَعَتْ بِيَ الْحِبَالُ فِي سَفَرِي فَلَا بَلَاغَ لِي الْيَوْمَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ بِكَ أَسْأَلُكَ بِالَّذِي رَدَّ عَلَيْكَ بَصَرَكَ شَاةً أَتَبَلَّغُ بِهَا فِي سَفَرِي فَقَالَ قَدْ كُنْتُ أَعْمَى فَرَدَّ اللَّهُ إِلَيَّ بَصَرِي فَخُذْ مَا شِئْتَ وَدَعْ مَا شِئْتَ فَوَاللَّهِ لَا أَجْهَدُكَ الْيَوْمَ شَيْئًا أَخَذْتَهُ لِلَّهِ فَقَالَ أَمْسِكْ مَالَكَ فَإِنَّمَا ابْتُلِيتُمْ فَقَدْ رُضِيَ عَنْكَ وَسُخِطَ عَلَى صَاحِبَيْكَ

مترجم:

2964.

اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے کہا کہ مجھے عبدالرحمن بن ابی عمرہ نے حدیث بیان کی، انہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بنو اسرائیل میں ایک پھلبہری والا، گنجا اور اندھا، تین آدمی تھے اللہ تعالی نے ان کو آزمانا چاہا تو ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا،  وہ پھلبہری والے کے پاس گیا اور اس سے کہا، تمہیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا خوبصورت رنگ، خوبصورت جلد اور جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں۔ وہ مجھ سے دور ہو جائے۔ اس پر فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری دور ہوگئی۔ اور اسے خوب صورت رنگ اور خوبصورت جلد عطا کر دی گئی (فرشتے نے) کہا: تمیں مال کون سا زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: اونٹ یا کہا: گائے۔ اسحاق کو شک تھا۔ مگر یہ (بات یاد تھی) کہ ﷫‏پھلبہری والے اور گنجے میں سے ایک نے اونٹ اور دوسرے نے گائے کا کہا۔  فرمایا: تو اسے دس مہینے کی حاملہ اونٹنی دے دی گئی۔ اور فرشتے نے کہا: تمہیں اللہ اس میں برکت کرے۔ کہا: پھر وہ گنجے کے پاس گیا گیا، اور اس سے کہا: تمہیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا: خوبصورت بال اور یہ بیماری مجھ سے دور ہو جائے جس کی بنا پر لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں۔ فرمایا: تو فرشتے نے اس پر ہاتھ پھیرا، تو اس کی بیماری دور ہو گئی اور اسے خوبصورت بال عطا کر دیے گئے۔  فرشتے نے کہا: تمہیں کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: گائے۔ اسے ایک حاملہ گائے دے دی گئی۔ اور (فرشتے نے) کہا: اللہ تعالی تجھے اس میں برکت عطا کرے۔ فرمایا: پھر وہ اندھے کے پاس آیا اور اس نے پوچھا: تمہیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا: اللہ تعالی میری بصارت لوٹا دے تاکہ میں اس کے ذریعے سے لوگوں کو دیکھ سکوں۔ تو اس نے اس پر ہاتھ پھیرا تو اللہ تعالی نے اس کی بینائی اسے لوٹا دی۔ اس نے پوچھا: تمہیں کون سا مال سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا بکریاں۔ تو اسے ایک گابھن بکری دے دی گئی۔ ان دونوں (اونٹنی اور گائے) کے بھی بچے ہوئے اور اس بکری کے بھی بچے ہوئے۔ فرمایا اس (پھلبہری والے) کی اونٹنیوں سے بھری ایک وادی ہو گئی۔ اس (گنجے) کی گائوں سے بھری ایک وادی ہو گئی۔ اور اس (اندھے) کی بکریوں سے بھری ایک وادی ہو گئی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر وہ فرشتہ پھلبہری والے کے پاس اس کی (پہلی) شکل اور حالت میں گیا۔ کہنے لگا: مسکین آدمی ہوں، سفر میں میرا تمام مال و اسباب ختم ہو گیا ہے۔ آج اللہ اور اس کے بعد تمہارے سہارے کے بغیر منزل کو پہنچنا ممکن نہیں۔ میں تم سے اس ذات کے نام پر جس نے تمہیں خوبصورت رنگت، خوبصورت جلد اور مال عطا کیا، ایک اونٹ کا سوال کرتا ہوں جس پر (سوار ہو کر) میں اپنے سفر میں منزل کو پہنچ سکوں۔ اس نے جواب دیا: (مجھ پر) بہت (سے لوگوں کے) حقوق ہیں۔ اس (فرشتے) نے کہا: مجھے لگتا ہے کہ میں تمہیں جانتا ہوں۔ تو  وہی پھلبہری والا نہیں کہ لوگ تجھ سے گھن کرتے تھے اور وہی فقیر نہیں، جسے اللہ نے (بہت کچھ) عطا کر دیا۔ اس نے جواب دیا: مجھے تو یہ مال اپنے بڑوں سے ورثے میں ملا ہے۔ اس (فرشتے) نے کہا: ’’اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تمہیں اسی طرح کر دے جس طرح پہلے تھا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اور وہ گنجے کے پاس (بھی) اسی کی (پہلی) صورت میں آیا۔ اُس سے بھی اسی طرح کہا، جو اس (پھلبہری والے) سے کہا تھا۔ اس نے بھی اس (فرشتے) کو وہی جواب دیا جو (پھلبہری والے) نے دیا تھا۔ اس نے کہا: اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تجھے پہلے جیسا کر دے۔‘‘ فرمایا: اور وہ اندھے کے پاس اس کی (سابقہ) شکل اور حالت میں آیا اور کہا: میں مسکین ہوں، مسافر ہوں، میرے سفر میں میرا سب مال و اسباب ختم ہو گیا ہے۔ اب اللہ کی اور اس کے بعد تمہاری مدد کے بغیر منزل کو پہنچنا ممکن نہیں۔ میں اس ذات کے نام پر جس نے تمہاری بصارت تمہیں لٹا دی، تم سے ایک بکری کا سوال کرتا ہوں، جس کے ذریعے سے میں (زاد راہ کا انتظام کر کے) اپنے سفر میں منزل کو پہنچ جاؤں۔ اس نے جواب دیا: میں اندھا تھا، اللہ نے میری بصارت مجھے لوٹا دی، تو جتنا چاہے لے جا اور جتنا دل چاہے چھوڑ جا، اللہ کی قسم! اللہ کے نام پر تو جو بھی لے جائے، میں اس پر تمہیں کوئی زحمت تک نہیں دوں گا۔ اس (فرشتے) نے کہا: ’’اپنا مال سنبھال لے، تم سب کا امتحان لیا گیا تھا۔ تمہیں اللہ کی رحمت سے نوازا گیا، اور تمہارے دو ساتھیوں پر غضب نازل کیا گیا۔