صحیح مسلم
34. کتاب: جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہﷺ کے اختیار کردہ طریقے
40. باب: منافقوں کی اذیت رسانی پر نبی اکرم ﷺ کی دعا اور آپﷺ کا صبر
صحيح مسلم
34. كتاب الجهاد والسير
40. بَابٌ فِي دُعَاءِ النَّبِيِّ ﷺ إِلَى اللهِ، وَصَبْرِهِ عَلَى أَذَى الْمُنَافِقِينَ
Muslim
34. The Book of Jihad and Expeditions
40. Chapter: The supplication of the Prophet (saws) and his steadfastness in the face of the hypocrites' persecution
کتاب: جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہﷺ کے اختیار کردہ طریقے
(
باب: منافقوں کی اذیت رسانی پر نبی اکرم ﷺ کی دعا اور آپﷺ کا صبر
)
Muslim:
The Book of Jihad and Expeditions
(Chapter: The supplication of the Prophet (saws) and his steadfastness in the face of the hypocrites' persecution)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4765.
حضرت انس بن مالک رضي الله تعالي عنه سے روایت ہے، کہا: نبی ﷺ سے عرض کی گئی: (کیا ہی اچھا ہو) اگر آپ (اسلام کی دعوت دینے کے لیے) عبداللہ بن اُبی کے پاس بھی تشریف لے جائیں! نبی ﷺ ایک گدھے پر سواری فرما کر اس کی طرف گئے اور مسلمان بھی گئے، وہ شوریلی زمین تھی، جب نبی ﷺ اس کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگا: مجھ سے دور رہیں، اللہ کی قسم! آپﷺ کے گدھے کی بو سے مجھے اذیت ہو رہی ہے۔ انصار میں سے ایک شخص نے کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کا گدھا تم سے زیادہ خوشبودار ہے۔ اس پر عبداللہ بن اُبی کی قوم میں سے ایک شخص اس کی حمایت میں، غصے میں آ گیا۔ کہا: دونوں میں سے ہر ایک کے ساتھی غصے میں آ گئے۔ کہا: تو ان میں ہاتھوں، چھیڑیوں اور جوتوں کے ساتھ لڑائی ہونے لگی، پھر ہمیں یہ بات پہنچی کہ انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: ’’اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کراؤ۔‘‘
تشریح:
فائدہ:
رسول اللہ ﷺ کے سامنے عبداللہ بن ابی کو اسلام کی دعوت دینے کی تجویز پیش کی جا چکی تھی، پھر آپﷺ نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کی عیادت کا ارادہ فرمایا۔ آپ اس غرض سے تشریف لے جا رہے تھے کہ آپﷺ نے راستے کی مجلس میں عبداللہ بن ابی کو دیکھا۔ اس نے غلط روش اختیار کی لیکن آپﷺ نے حسن اخلاق سے کام لیتے ہوئے اتر کر ان سب لوگوں کو سلام کیا اور خوبصورت طریقےسے اسلام کی دعوت دی وہ اس پر بھی باز نہ آیا اور غیر مؤدب گفتگو کی لیکن آپﷺ نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کی درخواست پر اسے معاف کر دیا اور آئندہ بھی اس کے مرنے تک مسلسل معاف فرماتے اور اس سے حسن سلوک کرتے رہے۔
حضرت انس بن مالک رضي الله تعالي عنه سے روایت ہے، کہا: نبی ﷺ سے عرض کی گئی: (کیا ہی اچھا ہو) اگر آپ (اسلام کی دعوت دینے کے لیے) عبداللہ بن اُبی کے پاس بھی تشریف لے جائیں! نبی ﷺ ایک گدھے پر سواری فرما کر اس کی طرف گئے اور مسلمان بھی گئے، وہ شوریلی زمین تھی، جب نبی ﷺ اس کے پاس پہنچے تو وہ کہنے لگا: مجھ سے دور رہیں، اللہ کی قسم! آپﷺ کے گدھے کی بو سے مجھے اذیت ہو رہی ہے۔ انصار میں سے ایک شخص نے کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کا گدھا تم سے زیادہ خوشبودار ہے۔ اس پر عبداللہ بن اُبی کی قوم میں سے ایک شخص اس کی حمایت میں، غصے میں آ گیا۔ کہا: دونوں میں سے ہر ایک کے ساتھی غصے میں آ گئے۔ کہا: تو ان میں ہاتھوں، چھیڑیوں اور جوتوں کے ساتھ لڑائی ہونے لگی، پھر ہمیں یہ بات پہنچی کہ انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: ’’اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کراؤ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
رسول اللہ ﷺ کے سامنے عبداللہ بن ابی کو اسلام کی دعوت دینے کی تجویز پیش کی جا چکی تھی، پھر آپﷺ نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کی عیادت کا ارادہ فرمایا۔ آپ اس غرض سے تشریف لے جا رہے تھے کہ آپﷺ نے راستے کی مجلس میں عبداللہ بن ابی کو دیکھا۔ اس نے غلط روش اختیار کی لیکن آپﷺ نے حسن اخلاق سے کام لیتے ہوئے اتر کر ان سب لوگوں کو سلام کیا اور خوبصورت طریقےسے اسلام کی دعوت دی وہ اس پر بھی باز نہ آیا اور غیر مؤدب گفتگو کی لیکن آپﷺ نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کی درخواست پر اسے معاف کر دیا اور آئندہ بھی اس کے مرنے تک مسلسل معاف فرماتے اور اس سے حسن سلوک کرتے رہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی گئی، اے کاش! آپﷺ عبداللہ بن ابی کے پاس جائیں، (اس کو اسلام کی دعوت دیں) تو آپﷺ گدھے پر سوار ہو کر اس کی طرف چل پڑے اور مسلمان بھی چل پڑے، وہ زمین شوریلی تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس پہنچے، وہ کہنے لگا، مجھ سے دور ہو جائیے، اللہ کی قسم، مجھے تیرے گدھے کی بو نے اذیت پہنچائی ہے تو ایک انصاری آدمی نے کہا، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گدھے کی بو تجھ سے زیادہ پاکیزہ ہے، اس پر عبداللہ کی قوم کا ایک آدمی اس کی خاطر غصہ میں آ گیا، اس طرح ہر آدمی کے ساتھی، اس کی خاطر غصے میں آ گئے اور وہ ایک دوسرے کو کھجور کی چھڑیوں، ہاتھوں اور جوتیوں سے مارنے لگے، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ انہیں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے، ’’اگر مومنوں کے دو گروہ باہم لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح صفائی کرا دو۔‘‘(الحجرات، آیت نمبر: 9)
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے جو واقعہ بیان کیا ہے، اس میں اصل مقصود حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ کی عیادت تھی اور راستہ میں گزر عبداللہ بن ابی کے پاس سے ہوا، یہاں اصل مقصود، عبداللہ بن ابی کو دعوت اسلام دینا تھا، کیونکہ وہ خزرج کا سردار تھا اور اس کا اپنے قبیلہ پر اثر تھا، اس کے ایمان لانے کی صورت میں پورا قبیلہ مسلمان ہو جاتا اور اس واقعہ میں وہاں یہود اور مشرک موجود نہ تھے، عبداللہ بن ابی کے قبیلہ کے لوگ ہی تھے اور جو مسلمان لیکن اس کے تمرد کی بنا پر، جب ایک مسلمان نے اس کی بدکلامی کا جواب دیا تو خاندانی غیرت کی بنا پر ،اس کے خاندان کا ایک مسلمان آدمی بھڑک اٹھا، اس طرح باہمی اسلام کے نام لیواؤں میں جوتوں اور مکوں کا تبادلہ شروع ہوگیا اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ سورۃ حجرات کی آیت نمبر (9) اس سلسلہ میں اتری، اس کا مقصد یہ ہے، اس واقعہ پر بھی یہ آیت صادق آتی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ (نزلت كذا) کا لفظ اس صورت میں بھی استعمال کر لیتے تھے، جب آیت کسی اور وقت اتری ہوتی، لیکن وہ دوسرے واقعہ پر بھی چسپاں ہوتی، کیونکہ سورہ حجرات کا نزول تو بہت بعد میں ہوا ہے، جب کہ وفود کی آمد شروع ہوگئی تھی اور وفود کی عام آمد فتح مکہ کے بعد شروع ہوئی، الا یہ کہ یہ مان لیا جائے اس کا نزول بہت پہلے ہوگیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It has been narrated on the authority of Anas bin Malik (RA) that it was said to the Holy Prophet (ﷺ) : Would that you approached'Abdullah bin Ubayy (to persuade him to accept Islam). The Holy Prophet (ﷺ) (accordingly) went to him, riding a donkey, and (a party of) Muslims also went (with him). On the way they had to walk over a piece of land affected with salinity. When the Holy Prophet (ﷺ) approached him, he said: Do not come near me. By Allah, the obnoxious smell of your donkey has offended me. (As a rejoinder to this remark), a man from the Ansar said: By God, the smell of the donkey of the Messenger of Allah (ﷺ) is better than your smell. (At this), a man from the tribe of 'Abdullah got furious. Then people from both sides got furious and exchanged blows with sticks, hands and shoes. (The narrator says) that (after this scuffle) we learnt that (the Qur'anic verse): "If two parties of the Believers have a quarrel, make ye peace between them" (xlix. 9) was revealed about these fighting parties.