Muslim:
The Book of Faith
(Chapter: The Status of the Lowest people in paradise)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
491.
ابو حیان نے ابو زرعہ سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت کی، انہوں نےکہا: ایک دن رسو ل اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دستی اٹھا کر آپ کو پیش کی گئی، کیونکہ آپ ﷺ کو مرغوب تھی۔ آپ نے اپنے دندان مبارک سے ایک بار اس میں سے تناول کیا اور فرمایا: ’’میں قیامت کے دن تمام انسانوں کا سردار ہوں گا۔ کیا تم جانتے ہو یہ کیسے ہو گا؟ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام اگلوں اور پچھلوں کو ایک ہموار چٹیل میدان میں جمع کرے گا۔ بلانے والا سب کو اپنی آواز سنائے گا اور (اللہ کی) نظر سب کے آر پار (سب کو دیکھ رہی) ہو گی، سورج قریب ہو جائے گا اور لوگوں کو اس قدر غم اور کرب لاحق ہو گا جو ان کی طاقت سے زیادہ اور ناقابل برداشت ہو گا۔ لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے: کیا دیکھتے نہیں! تم کس حالت میں ہو؟ کیا دیکھتے نہیں! تم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے؟ کیا تم کوئی ا یسا شخص تلاش نہیں کرتے جو تمہاری سفارش کردے؟ یعنی تمہارے رب کے حضور۔ چنانچہ لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے: آدم کے پاس چلو، تو وہ آدم ؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے آدم! آپ سب انسانوں کے والد ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ میں اپنی (طرف سے) روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا، تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں! آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے؟ آدم ؑ جواب دیں گے: میرا رب آج اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں اس سے پہلے کبھی نہیں آیا اور نہ اس کے بعد کبھی آئے گا، اور یقیناً اس نے مجھے ایک خاص درخت (کےقریب جانے) سے روکا تھا، لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی تھی، مجھے اپنی جان کی فکر ہے، مجھے اپنی جان بچانی ہے۔تم کسی اور کے پاس جاؤ، نوحؑ کے پاس جاؤ۔ لوگ نوحؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے نوح! آپ (اہل) زمین کی طرف سے بھیجے گئے سب سے پہلے رسول ہیں، اور ا للہ تعالیٰ نے آپ کو شکر گزار بندے کا نام دیا ہے۔ آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ وہ انہیں جوا ب دیں گے: آج میرا رب اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں نہ وہ اس سے پہلے کبھی آیا، نہ آیندہ کبھی آئے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے لیے ایک دعا (خاص کی گئی) تھی، وہ میں نے اپنی قوم کےخلاف مانگ لی۔ (آج تو) میری اپنی جان (پر بنی) ہے، مجھے اپنی جان (کی فکر) ہے۔ تم ابراہیم ؑ کے پاس جاؤ! چنانچہ لوگ ابراہیم ؑ کے پاس حاضر ہوں گے اور عرض گزار ہوں گے: آپ اللہ کے نبی اور اہل زمین میں سے اس کے خلیل (صرف اس کے دوست) ہیں، اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں! آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ تو ابراہیم ؑ ان سے کہیں گے: میرارب اس قدر غصے میں ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنے غصے میں نہیں آیا اور نہ آیندہ کبھی آئے گا، اور اپنے (تین) جھوٹ یاد کریں گے، (اور کہیں) مجھے اپنی جان کی فکر ہے، مجھے تو اپنی جان کی بچانی ہے۔ کسی اورکے پاس جاؤ، موسیٰؑ کے پاس جاؤ! لوگ موسیٰؑ کے خدمت میں حاضر ہوں گے، اورعرض کریں گے: اے موسیٰ! آپ اللہ کےرسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیغام اور اپنی ہم کلامی کے ذریعے سے فضیلت عطا کی، اللہ کے حضور ہمارے لیے سفارش کیجیے! آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ موسیٰؑ ان سے کہیں گے: میرا رب آج اس قدر غصے میں ہے، کہ نہ اس سے پہلے کبھی اس قدر غصے میں آیا اور نہ اس کے بعد آئے گا۔ میں ایک جان کو قتل کر چکا ہوں، جس کے قتل کا مجھے حکم نہ دیا گیا تھا۔ میری جان(کا کیا ہو گا) میری جان ( کیسے بچے گی؟) عیسیٰؑ کے پا س جاؤ! لوگ عیسیٰؑ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: اے عیسیٰؑ! آپ اللہ کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریمؑ کی طرف القاء کیا، اور اس کی روح ہیں، اس لیے آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں! آپ ہماری حالت نہیں دیکھتے جس میں ہم ہیں؟ کیا آپ نہیں دیکھتے ہم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے؟ تو عیسیٰؑ انہیں جواب دیں گے: میرا رب اتنے غصے میں ہے جتنے غصےمیں نہ وہ اس سے پہلے آیا، اور نہ آیندہ کبھی آئے گا۔ وہ اپنی کسی خطا کا ذکر نہیں کریں گے، (کہیں گے مجھے) اپنی جان کی فکر ہے، مجھے اپنی جان بچانی ہے، میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، محمدﷺ کے پاس جاؤ! لوگ میرے پاس آئین گے اور کہیں گے: اے محمد! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ (اگر ہوتے تو بھی) معاف کر دیے، اپنے رب کےحضور ہماری سفارش فرمائیں۔ آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ تو میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آؤں گا اور اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی ایسی تعریفوں اوراپنی ایسی بہترین ثنا (کے دروازے) کھول دے گا اور انہیں میرے دل میں ڈالے گا، جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے نہیں کھولے گئے، پھر (اللہ) فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیے، مانگیے! آپ کو ملے گا۔ سفارش کیجیے! آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ تو میں سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا: اےمیرے رب! میری امت! میری امت! تو کہا جائے گا: اے محمد! آپ کی امت کے جن لوگوں کا حساب و کتاب نہیں، ان کو جنت کے دروازے میں سے دائیں دروازے سے داخل کر دیجیے، اور وہ جنت کے باقی دروازوں میں (بھی) لوگوں کے ساتھ شریک ہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! جنت کے دو کواڑوں کے درمیان اتنا (فاصلہ) ہے جتنا مکہ اور (شہر ہجر) یا مکہ اور بصری کے درمیان ہے۔‘‘
امام مسلم نےصحیح مسلم کاآغازکتاب الایمان سےکیاہے۔عہدنبویﷺمیں جب قرآن نازل ہوااوررسول اللہﷺ نےایمان،اسلام اوراحسان کی تعلیم دی تواس وقت ان اصطلاحات کےمفہوم کےبارےمیں کسی کےدل میں کوئی تشنگی موجودنہ تھی۔لیکن آپﷺ کی رحلت کےبعدکچھ لوگوں نےایمان اوراسلام کےاسی مفہوم پراکتفانہ کیاجوصحابہ نےبراہ راست رسول اللہﷺ سےسمجھااوردوسروں کوسمجھایاتھا، انہوں نےاپنی اغراض یااپنےاپنےفہم کےمطابق ان دونوں کےنئےنئےمفہوم نکالنےشروع کردیے۔
سب سےپہلاگروہ جس نےایمان اورکفرکامفہوم اپنی مرضی سےنکالا،خوارج تھے۔ یہ گنوارلوگ تھے۔ قرآن اوراسلام کےبنیادی اصولوں کی تعبیربھی اپنی مرضی سےکرتےتھے۔ قبل ازاسلام کےڈاکوؤں کی طرح لوگوں کوقتل کرتےاوران کامال لوٹتے۔ مسلمانوں کےخلاف ان تمام جرائم کےجوازکےلیے انہوں نےیہ عقیدہ نکالاکہ گناہ کبیرہ کامرتکب کافرمطلق ہے۔ ان کےنزدیک ایمان محض عمل کانام تھا۔ صحیح مسلم کی حدیث:473(191)میں ان کےاس عقیدےکاذکرہے۔
حضرت عمرکےدورمیں جب اسلامی فتوحات کادائرہ وسیع ہواتوعراق،فارس،شام اورمصروغیرہ کےعلاقےاسلامی قلمرومیں داخل ہوئےاوریہاں کےباشندےبڑی تعدادمیں مسلمان ہوئے۔ یہاں کےلوگوں کےدینی افکارپرعلوم عقلیہ کی چھاپ نمایاں تھی۔ اسلام میں داخل ہونےکےبعداپنےاپنےافکارکےحوالےسےان کےمتعددفرقےسامنےآئے۔ ان لوگوں نےایمان اوراسلام کےحوالےسےفلسفیانہ اورمنطقی سوالات علمائےاسلام کےسامنےپیش کرنے کرنے شروع کر دیے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کا مقصد تو فہم اور حصول علم تھا جبکہ کچھ لوگ خوارج کی طرح فتنہ انگیزی کے لیے ان سوالوں کو زیر بحث لاتے تھے۔ ان بہت سے سوالات میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ تقدیر سے مراد کیا ہے اور کیا اس کو مانا بھی ایمان کا حصہ ہے یا نہیں ۔ علمائے اسلام کو بہر طور ان سوالوں کے جواب دینے تھے۔ ہر ایک نے اپنے ذخیرہ علم اور اپنے فہم کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی۔
اس دور کے مباحث کے حوالے سے فقہائے محدثین کے سامنے ایمان کے بارے میں جو سوالات پیش ہوئے وہ اس طرح تھے:
٭ ایمان کیا ہے؟ محض علم ،محض دل کی تصدیق ،محض اقرار ،عمل با ان میں سے بعض کا یا ان سب کا مجموعہ؟
٭ اسی طرح یہ بھی سوال اٹھا کہ ایمان رکھنے والے سب برابر ہیں یا کسی کا ایمان زیادہ اور کسی کا حکم ہے؟
٭ کیا ایک عام امتی کا ایمان صدیق اکبر یا عمر فاروق یا علی بن ابی طالب کے ایمان کے برابر ہوسکتا ہے؟
٭ کیا ایک امتی کا ایمان انبیاء اور ملائکہ کے ایمان کے برابر ہو سکتا ہے؟ کیا ایمان اور چیز ہے اور عمل چیزے دیگر؟
٭ کیا ایمان ہمیشہ ایک جتنا رہتا ہے یا کم و بیش ہوسکتا ہے؟
٭ کن باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے؟ ان میں تقدیر بھی شامل ہے یا نہیں؟
٭ یہ سوال بھی شدت سے زیر بحث رہا کہ کبائر کا مرتکب مسلمان ہے، یا دائرہ اسلام سے بالکل خارج ہے، یا پھر کہیں درمیان میں ہے؟
معبد جہنی ،جہم بن صفوان اور اس دور کے فرقہ قدریہ سے تعلق رکھنے والے ابوحسن صالحی کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ایمان محض دل کی معرفت یا دل میں جان لینے کا نام ہے اورکفر الجهل بالرب تعالی ’’ الله تبارک وتعالی کو نہ جانے کا نام ہے۔‘‘ اس جواب سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ فرعون مومن تھا کیونکہ جس طرح حضرت موسیٰ نے فرمایا، اسے علم تھا کہ اللہ ہی آسمانوں وزمین کا رب ہے۔ ارشاد الہی ہے:
(قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ هَـٰؤُلَاءِ إِلَّا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ)
’’ تو نے جان لیا ہے کہ ان چیزوں کو نشانیاں بنا کر آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نہیں
اتارا ۔ بني اسراءيل 17:102)
اہل کتاب کے بارے میں قرآن کہتا ہے :
(يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ)
’’وہ رسول اللہﷺ کوپہچانتےہیں جس طرح اپنی اولادکوپہچانتےہیں۔ ‘‘(البقرہ 146:2)
اس نقطہ نظرکےمطابق یہ سب بھی مومن ہوئے۔ ابلیس بھی جواللہ تبارک وتعالیٰ کےبارےمیں بےعلم نہیں، مومن قرارپایا۔ نعوذبالله من ذلك.
اس بنیادی سوال کے حوالے سے فرقہ کرامیہ کا جواب یہ تھا کہ ایمان محض زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے۔ اس صورت میں منافق بھی کامل ایمان رکھنے والے مومن قرار پاتے ہیں۔ کرامیہ ان کو مومن ہی سمجھتے تھے، البتہ یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالی نے ان کے لیے جس عذاب کی خبر دی ہے اسے وہ ضرور بھگتیں گے۔
ابومنصور ماتریدی اور امام ابو حنیفہ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ایمان محض دل کی تصدیق کا نام ہے۔ ان کے بالمقابل
علمائے احناف میں سے ایک بڑی تعداد کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایمان دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کو کہتے ہیں۔
زیادہ تر ائمہ کرام، مثلا: امام مالک، شافعی، احمد بن حنبل، اوزاعی، اسحاق بن راہویہ اور باقی تمام ائمہ حدیث کے علاوہ ظاہریہ اورمتکلمین میں سے اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ايمان تصديق بالجنان،واقرارباللسان وعمل بالاركان’’ایمان دل کی تصدیق،زبان کےاقراراور(اس تصدیق واقرارکےمطابق باقی)اعضاءکےاعمال سےثابت ہوتاہے۔‘‘یادرہےکہ محدثین دل کی تصدیق کودل کاعمل اورزبان کےاقرارکوزبان کاعمل سمجھتےہیں۔ (شرح العقيده الطحاوية ،قوله:والايمان هوالاقرارباللسان....ص:332)
قدریہ،جہمیہ اورکرامیہ تواہل سنت والجماعت سےخارج تھے۔ ان کاردیقیناضروری تھااوراچھی طرح کیابھی گیا۔ لیکن امام ابوحنیفہ اوران کےمؤیدین کےلیے،جوغیرنہیں،خوداساطین اہل سنت والجماعت میں سےتھے،فرامین رسول اللہﷺ کےذریعےسےاصل حقائق کی وضاحت انتہائی ضروری تھی۔
ایمان کےبارےمیں مذکورہ بالابنیادی سوالات کےجواب میں امام ابوحنیفہسےیہ باتیں منقول ہیں:
(الف)(العمل غيرالايمان والايمان غيرالعمل))
’’عمل ایمان سےجداہےاورایمان عمل سےالگ ہے۔ ‘‘
(ب)المومنون مستوؤن فى الايمان والتوحيد،متفاضلون فى الاعمال)
’’مومنین ایمان اورتوحیدمیں برابرہیں اوراعمال میں کم وبیش۔ ‘‘
(ج)الايمان لايزيدولاينقص
’’ایمان نہ گھٹتاہےنہ بڑھتاہے۔ ‘‘
(د)ايماني كايمان جبرئيل
’’میراایمان جبریل کےایمان کےمانندہے۔‘‘
(و)ايمان اهل السماوات والارض وايمان الاولين والاخرين والانبياءواحد
’’آسمانوں اورزمین والوں کاایمان اوراگلوں پچھلوں اورانبیاءکاایمان ایک (برابر)ہے۔ ‘‘(شرح الفقه الأكبربحواله إيضاح الأدلة ،ص:301-308)
امام بخاری،امام مسلم اوردیگرائمہ حدیث کےسامنےچونکہ پوراذخیرہ حدیث تھا،اس لیے انہیں معلوم تھاکہ یہ باتیں نہ صرف کتاب وسنت سےٹکراتی ہیں، بلکہ بعض صورتوں میں جن جن الفاظ کےساتھ قرآن نےیارسول اللہﷺ نےان امورکوبیان فرمایاہےبعینہ انہی الفاظ کواستعمال کرتےہوئےبالکل متضادباتیں کہہ دی گئی ہیں،اورایک بڑےحلقےمیں ان کوقبول بھی کیاجارہاہے۔اس کاصحیح مداوایہی تھاکہ جولوگ بھی قرآن اورحدیث رسول اللہﷺ سےمتضادباتیں کہہ رہےتھے،ان کےسامنےرسالت مآب ﷺ کےتمام متعلقہ فرامین من عن پیش کردیئےجائیں۔
کتاب الایمان میں امام مسلم سب سےپہلےحدیث جبریل لائےہیں۔ اس میں رسول اللہﷺ نےحضرت جبریل کےپیش کردہ سوالوں کوجواب دیتےہوئےایمان،اسلام اوراحسان کامفہوم واضح کیاہے۔امام مسلمنےاس کےساتھ ہی اس مفہوم کی دوسری احادیث بھی بیان کردی ہیں۔ ان احادیث 93۔103۔(8۔12)سےپتہ چلتاہےکہ ان تینوں (ایمان،اسلام،اوراحسان)میں ابتدائی مرتبہ اسلام کاہے،اس سےاونچامقام ایمان کاہےاورسب سےاونچااحسان کا۔ اوریہ کہ اللہ، اس کےرسول،ملائکہ ،قیامت ،جنت اوردوزخ کےساتھ ساتھ تقدیرالہیٰ پربھی ایمان لاناضروری ہے۔ اسی طرح ان احادیث سےیہ بات بھی واضح ہوجاتی ہےکہ گناہ کبیرہ کامرتکب ابدی جہنمی نہیں ہوتا۔
اس کےبعدامام مسلم ایسی احادیث لائےہیں جن میں یہ مذکورہ ہےکہ وہ ایمان جوانسان کوجنت میں لےجاتاہےشرک سےپاک عبادات ،زکاۃ کی ادائیگی ،صلہ رحمی اوراللہ کےحرام وحلال کےاحکامات کی پابندی پرمشتمل ہے۔ (دیکھیے،احادیث :104۔114(13۔16)
پھروہ وفدعبدالقیس سےمتعلقہ روایات اوران کےہم معنی احادیث لائےہیں ۔ رسول اللہﷺنےوفدکےلوگوں کوحکم دیاکہ وہ اکیلےاللہ پرایمان لائیں،پھرسمجھانےکےلیے خودہی سوال کیاکہ کیاتم جانتےہوکہ اکیلےاللہ پرایمان کیاہے۔ پھرخودہی وضاحت فرمائی کہ ایمان اللہ کی وحدانیت اورمحمدﷺ کی رسالت کی گواہی ،اقامت صلاۃ،زکاۃ کی ادائیگی روزےرکھنےاوراللہ کی حرام کردہ اشیاءسےدوررہنےکانام ہے۔ (دیکھیے،احادیث :115۔123(17۔19)
ان احادیث سے تین باتیں واضح ہو جاتی ہیں:
1۔ گواہی (شہادت) دل کی تصدیق کی ہوتی ہے۔
2۔ ایمان حق دل کی تصدیق کا نام نہیں نہ دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار تک معامل ختم ہو جاتا ہے بلکہ باقی اعضاء و جوارح کے اعمال کے ذریعے سے بھی اسی حقیقت کی تصدیق ضروری ہے جس کی زبان سے گواہی دی گئی۔
3۔ ایمان اور اسلام کے الفاظ جب دونوں ملا کر ایک ساتھ بولے جائیں تو دونوں سے الگ الگ مفہوم مراد لیا جاتاہے۔ جب ان میں سے صرف ایک بولا جائے تو اس کے معنی میں بعض اوقات دوسرا بھی شامل ہوتا ہے اور بعض اوقات دونوں ایک دوسرے کے قائم مقام کے طور پر بولے جاتے ہیں۔ اس سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ ایمان محض تصدیق و اقرار کا نام نہیں بلکہ اس میں دیگر اعضاء کے اعمال بھی شامل ہونے ضروری ہیں، ورنہ یہ اسلام کے قائم مقام کے طور پر نہ بولا جا سکتا۔
اس کے بعد امام مسلم مانعین زکاة کے حوالے سے وہ احادیث لائے ہیں جن میں حضرت عمر اور حضرت ابو بکر ؓ کے الگ الگ موقف کا ذکر ہے۔ حضرت عمر کا خیال تھا کہ جس نے لا إله إلا الله کہہ دیا وہ مومن ہے اس لیے بقول رسول اللہ ﷺجان اور مال کے تحفظ کا حق دار ہے، اس سے جنگ نہیں کی جاسکتی۔ لا إله إلا الله کہنے سے اقرار اور اغلبا تصدیق کا تو پتہ چل جاتا ہے لیکن حضرت ابو بکر صدیق کا موقف اس سے مختلف تھا۔ انھوں نے فرمان رسول اللہ ﷺکے اگلےحصہ طرف توجہ دلائی۔ آپ نےفرمایاتھا: ((الاّبحقه)) الایہ کہ اسی کاحق ہو‘‘یعنی لا إله إلا الله كاحق یہ ہےکہ باقی اعضاءاسکےمطابق عمل کرتےہوں۔ جب زکاۃ کاوقت آجائے تو لا الہ کا تقاضا ہے کہ زکاة ادا کی جائے۔ اگر کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو اس کے لیے جان و مال کا تحفظ باقی نہ رہے گا۔ آپ نے زور دے کر یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی زکاة کے مال کی ایک رسی دینے سے بھی انکار کرے گا تو اس کے خلاف جہاد ہوگا۔ اس بات سے حضرت عمر نے بھی اتفاق کیا اور تسلیم کیا کہ وہی ہے جو حضرت ابوبکر صدیق کہہ رہے ہیں۔ دیکھیے،احادیث :124۔131(20۔23)
ان کےبعدوہ احادیث لائی گئیں جن کےالفاظ میں اجمال کےساتھ اس بات پرزوردیاگیاکہ جس نے لا إله إلا الله کہاوہ یقیناجنت میں داخل ہوگا۔ (دیکھیے،احادیث:136۔151(26۔36) ان احادیث کےذریعےسےیہ بات واضح ہوتی ہےکہ اجمال کےموقع پرمحض لا إله إلا الله کہنےکی بات کی گئی لیکن اس میں لا إله إلا الله کےتقاضوں پرعمل کرناشامل ہے۔ پھریہ روایت پیش کی گئی کہ ایمان کاذائقہ محض وہی شخص چکھتاہےجواللہ کےرب ہونےاورمحمدﷺکےرسول ہونےکےساتھ ساتھ اسلام کےدین ہونےپربھی راضی ہو۔ ظاہرہےجواستطاعت کےباوجوداحکام اسلام پرعمل نہیں کرتاوہ دل سےاسلام کےدین ہونےپرراضی ہی نہیں ہے۔ یہ انتہائی لطیف نکات ہیں جوامام مسلم نےمحض احادیث مبارکہ کی ترتیب کےذریعےسےواضح فرمائےہیں۔
پھر امام مسلم نے بالترتیب ایمان کے شعبوں اور ان میں سے افضل اور ادنی شعبوں کے متعلق احادیث پیش کیں۔
ان کے بعد وہ احادیث ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ایمان کی حلاوت سے وہی آشنا ہوتا ہے جو اللہ ، اس کے رسول اور اہل ایمان سے محبت کرتا ہے۔ ان کے بعد وہ احادیث ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ اہل و عیال، اولا و، مال اور خود اپنی ذات سے بڑھ کر محبت نہ ہو تو ایمان موجود نہیں۔ ظاہر ہے محبت تصدیق اور اقرار کے علاوہ دل کا ایک اور عمل ہے۔ (دیکھیے ، أحاديث: 152- 169(44) اس کے بغیر بھی ایمان کی نفی ہو جاتی ہے۔ گویا تصدیق بالقلب کے علاوہ قلب ہی کے دوسرے اعمال ، مثل : محبت اور احترام بھی ضروری ہیں۔
امام مسلم احادیث 177- 180(50) میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی روایات لائے ہیں ۔ تفصیلی روایت میں رسول اللہﷺ کے الفاظ اس طرح ہیں: جس نے ان (منکرات کے خلاف ہاتھوں سے جہاد کیا وہ مومن ہے۔ جس نے زبان کے ساتھ جہاد کیا وہ مومن ہے اور جس نے دل کے ساتھ جہاد کیا وہ مومن ہے۔ اس سے نیچے ایک رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ۔‘‘ ان الفاظ سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح بعض لوگوں نے کہا ہے محض دل کی تصدیق اور زبان کا اقرار ایمان نہیں، بلکہ دیگر اعضاء، زبان اور خود دل کے دیگر اعمال بھی ضروری ہیں۔ تصدیق کے علاوہ دل کے دوسرے اعمال میں منکرات سے نفرت اوریہ عزم کہ جب ہاتھ اور زبان سے ان منکرات کے خلاف جہاد کی استطاعت ملے گی تو یہ جہاد کروں گا ، شامل ہیں ۔ دل کے مزید اعمال، مثلا : الحب في الله والبغض في الله کے بارے میں بھی احادیث پیش نظررہنی چاہییں ۔ ان احادیث سے جہمیہ کے نقطہ نظر کی تردید بھی ہوتی ہے کہ دل کی تصدیق کے سوا دل کے دوسرے اعمال ایمان نہیں ۔ ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھ سے جہاد کرنے والے کا ایمان زیادہ ہے کیونکہ اس میں باقی اعضاء بھی زیادہ سے زیادہ شریک ہوتے ہیں۔ زبان سے جہاد کرنے والے کا اس سے کم، اس میں زبان کے ساتھ دل شریک ہوتا ہے۔ اور محض دل میں برا برسمجھنے والے کا ایمان سب سے کم ہے، کیونکہ باقی اعضا شامل نہیں ہوتے ۔ اس کے اپنے سرے سے ایمان ہی موجود ہیں۔
ان کے بعد امام مسلم نے وہ احادیث ذکر کی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ کن لوگوں کا ایمان کن کن اعمال کی بنا پرافضل ہے اور کن لوگوں کا ایمان کم مرتبہ ہے، نیز ایمان کو یمن کی طرف نسبت دی گئی ہے اور اس کا سبب ان کے دلوں کی رقت کو قرار دیا گیا۔ اور کفر کی نسبت ان اونٹ چرانے والوں کی طرف کی گئی جو شدت پسند اور تندخو تھے۔ (دیکھیے ، أحاديث : 181-51193-53) ان احادیث سے امر بالمعروف والی احادیث کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے کہ دل کی تصدیق کے علاوہ دل ہی سے متعلق دیگر ایسے اعمال ہیں جو ایمان کا حصہ ہیں۔ اسی طرح عدم تصدیق کے ساتھ دل ہی کےبعض دیگر عمل ہیں جو کفر کو سنگین تر بنا دیتے ہیں ۔ ایسے اعمال میں سنگ دلی ، شدت پسندی وغیرہ شامل ہیں۔
قرآن مجید نے ایمان اور اس میں اضافے کو دل ہی کی کیفیت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ فرمان الہی ہے:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ﴾
’’مومن وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت
کی جائیں تو یہ آیتیں ان کا ایمان زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ۔‘‘ الأنفال 8:2)
احادیث کی ترتیب سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ منکرات سے شدید نفرت، دل کی نرمی، اللہ کے ذکر پر دلوں میں خشیت ، سب ایمان میں شامل ہیں، یہ محض دل کی تصدیق کا نام نہیں ۔ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آیات الہی کی سماعت سے ایمان، جو مذکورہ بالا تمام باتوں کا مجموعہ ہے، زیادہ ہو جاتا ہے۔ جو حضرات نفس ایمان میں اضافے کے قائل نہیں بلکہ نزول قرآن کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ آیتوں پر ایمان لانے کو ایمان کا اضافہ قرار دیتے ہیں، ان کو اس آیت کے معنی قرار دینا پڑیں گے کہ جب پہلی دفعہ کوئی آیت ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہے تو ان کا ایمان زیادہ ہو جاتا ہے۔ دوسری یا تیسری بارانہی آیات کو سن کر ایمان میں اضافہ نہیں ہوتا۔ اور آیت مبارکہ میں جس طرح تلاوت آیات سے پہلے ذکر الہی کا بیان ہے اسے بھی وہ پہلی بار اللہ کے ذکر پرمحمول کریں گے۔قرآن کےالفاظ ﴿ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ﴾ اور﴿ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ﴾ ‘‘جب اللہ کاذکرکیاجاتاہے اورجب اس کی آیتیں ان کےسامنےتلاوت کی جائیں‘‘سےایسےمفہوم کی گنجائش بھی نہیں نکلتی۔
اس کے بعد احادیث : 2012- 209(57) کے ذریعے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ گناہوں کے ارتکاب سے ایمان میں کی واقع ہوتی ہے، نیز گناہ کبیرہ کے ارتکاب کے وقت ایمان انسان کے دل سے نکل جاتا ہے، بعد میں واپس آجاتا ہے۔ ان احادیث کو اگر ہر گناہ کے ساتھ دل پر ایک کالا نکتہ آ جانے اور گناہوں کی کثرت سے دل کے مکمل سیاہ ہو جانے والی احادیث کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ برے اعمال کے ارتکاب سے دل کے اندر موجودنور ایمان کم ہوتا ہوتا بالآخر رخصت ہو جاتا ہے، اسی طرح اچھے عمل کرنے سے نور ایمان میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ یہ اقوال کہ میرا ایمان جبریل کےایمان کی طرح ہےیااولین،آخرین ،اہل دنیا،اہل سماءاورانبیاءسب کاایمان برابرہے،مذکورہ احادیث سےبالکل متضادہیں۔
ان کےبعدکی احادیث میں بعض ایسےاعمال کاتذکرہ ہےجن کورسول اللہﷺ نےکفرقراردیاہے۔ ان کےبعدوہ احادیث ہیں جن میں رسول اللہﷺ نےایمان کوعمل قراردیاہے۔ آپﷺ سےپوچھاگیا(اي الاعمال افضل)افضل ترین عمل کون ساہے؟فرمایا:الايمان بالله عزوجل...الخ-"اللہ عزوجل پرایمان لانا...‘‘(دیکھیے،احادیث:248۔251(83۔85)یہ قول کہ الايمان غير،والعمل غيران فرامین رسول ﷺ سےبالکل متضادہے۔
پھر ان احادیث کو لایا گیا جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمان کی طرح کفر میں بھی کمی اور زیادتی ہوتی ہے، مثل : تارک صلاة یا باہم قتال کر نے والوں کا کفر قطعی اور حتمی کفر سے کم تر ہے۔ ان احادیث کے بعد کبائر کے درجات کے حوالے سے احادیث مبارکہ کو لایا گیا، پھر وہ احادیث ہیں جن میں کبر اور شرک کو ایمان سے متضاد قرار دیا گیا اور شرک نہ کرنے کو جنت میں داخلے کی شرط اور شرک کرنے کو جہنم میں داخلے کا حتمی سبب قرار دیا گیا۔ کبراور شرک دونوں دل اوراعضاء کے عمل ہی کی صورتیں ہیں محض دل کی عدم تصدیق کی نہیں۔
پھر وہ احادیث بیان ہوئیں جن میں ذکر ہے کہ ایمان میں درجہ بدرجہ اضافہ ہوتا ہے، کم ترین ایمان یہ ہے کہ کوئی تخص اچانک موت کو سامنے دیکھ کر اسلام سے عداوت اور عناد کے فورا بعد غور و فکر کے بغیر، یکدم لا إله إلا الله کا اقرار کر لے۔ یہ سب سے نچلا درجہ ہے۔ جب ایساواقعہ پیش آیا تو موقع پر موجود صحابی کا ظن غالب یہ تھا کہ ایسے شخص کی زبان پر اقرار تھا لیکن اس کے پیچھے جان بچانے کا ارادہ تھا، تصدیق کا کوئی جز موجود نہ تھا۔ لیکن رسول اللہ ﷺنے زور دے کر فرمایا کہ اس نے جو لا إله إلا الله کہہ دیا تھا تو یہ دلیل ہے کہ ایمان کا یہ جز موجود تھا۔ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن جب لا إله إلا الله تمھارے سامنے کھڑا ہو جائے گا تو کیا کرو گے؟ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تم جو یہ سمجھے کہ اس کے دل میں جان بچانے کے قصد کے علاوہ کچھ نہیں تھا تو تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا ؟ دیکھیے ، أحاديث: 279۔274(95۔97) ان کے ساتھ اس حدیث کو ملا کر دیکھیں جس میں حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی بستی سے اذان کی آواز آئے تو اس پر حملہ نہ کرو۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگرض اقرار یاعمل سامنے آجائے تو اسے ایمان سمجھا جائے جب تک اس کی دلیل موجود نہ ہو جو کفر پر دلالت کرے۔
پھر وہ احادیث ہیں جن میں ہی فرمایا گیا ہے کہ جس نے کافر ہو جانے کی جھوٹی قسم کھائی وہ اسی طرح (کافر) ہے جس طرح اس نے کہا۔ ایسے شخص کی یہ قسم کہ وہ کافر ہے، تب جھوئی ہوگی جب اس کے دل میں کسی نہ کسی درجے کا ایمان موجود ہو، اور اس قسم کی بنا پر اس کے دل میں کفر کا غصہ بھی موجود ہے۔ ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی انسان کے دل میں اسلام اور کفر دونوں کی متضاد کیفیتیں بھی موجود ہوسکتی ہیں۔ چونکہ مذکورہ بالا کبائر کے مرتکب لوگوں کے ہاں کچھ اعمال صالحہ بھی موجود ہو سکتے ہیں جو کسی حد تک ان کے دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کی تصدیق کرتے ہیں،اس لیے ان کو اسلام سے قطعی طور پر خارج قرار نہیں دیا گیا لیکن ان کے دلوں میں ایمان کی کمی کی وجہ سے ایسی کیفیت بھی موجود ہے جس کے سبب سے وہ کفر یہ اعمال کا ارتکاب کرتے جارہے ہیں ۔ یہ انتہائی باریک نکات ہیں جو امام مسلم نے احادیث کے انتخاب اور ان کی ترتیب سے اجاگر کیے ہیں۔
اسی طرح ایساشخص جو خودکشی کر لے اس کی سزا ابدی جہنم ہے جوقطعی کفر یا شرکت کی سزا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے یہ بھی اعلان کر ایا کہ نفس مسلمہ یا مومن انسان کے علاوہ کوئی جنت میں نہ جائے گا لیکن یہ بھی ہوا کہ ایک شخص نے ہجرت کے بعد مشکلات بھری زندگی سے تنگ آ کر ہاتھوں کی رگیں کاٹ کر خودکشی کرلی، الله تعالی نے ہاتھوں کے علاوہ اس کے باقی وجود کو خوش دیا۔ ہاتھ ویسے رہے تو رسول اللہ اﷺ نے اس کے ہاتھوں کے لیے بھی بخشش کی دعا فرمادی۔
اس حدیث سے اور اس سے پہلے والی احادیث سے پتہ چلا کہ بہت سے ایسے گناہ ہیں جن کا ارتکاب اس وقت ہوتا ہے جب ایمان یا تو بہت کم ہو جاتا ہے یا بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ ختم ہو جانے کی صورت میں ان کی سزا جہنم بلکہ ابدی جہنم ہے لیکن اگر وہی گناہ کسی ایسے شخص سے ہو جائے جس کے دل سے ایمان قطعی طور پر رخصت نہیں ہوا تھا تو ایمان کی کم از کم مقدار بڑے گناہوں کی مغفرت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ (دیکھیے ، احادیث : 300-308 (109-112)
آگے چل کر وسوسوں کی بات ہے۔ احادیث :340-342 (132-3) میں دل میں آنے والے ایسے وساوس کی کیفیت کو، جو زبان پر نہیں لائے جاسکتے صریح ایمان یامحض ایمان قرار دیا گیا ہے۔ جس کی بناپر انسان کو اللہ کا خوف لاحق ہوتاہے اور ان وساوس سے کراہت ہوتی ہے ایسے برے وسوسے دل میں موجود ہوتے ہیں جو زبان پر نہیں لائے جا سکتے۔لیکن ان کے ہوتے ہوئے اس وقت دل میں جو ایمان موجود ہے جس کی بنا پر اسے صریح، خالص اور ملاوٹ سے پاک ایمان قرار دیا گیا ہے۔
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایمان کے ساتھ دل میں ایسی باتیں آسکتی ہیں جنھیں ایک مومن کے لیے زبان پر لا نا ممکن نہیں۔ یہ وساوس ہیں، لیکن جب تک یہ شک بن کر دل میں جاگزیں نہ ہو جائیں ان پر مؤاخذہ نہیں۔ جاگزیں ہوجائیں تو مؤاخذہ ہے کیونکہ اب یہ دل کا عمل بن چکا ہے۔ اسی طرح نیکی کا ارادہ دل کا عمل ہے جس پر جزا ملتی ہے۔ برائی کا ارادہ بھی دل ہی کا عمل ہے لیکن اللہ نے اپنی خصوصی رحمت سے اس کو معاف فرما دیا ہے۔ اگر اس ارادے پر دوسرے اعضاء عمل کر کے اس کی تصدیق کرتے ہیں تو پھر ایک برائی کی جاتی ہے۔
وسوسوں کی وجہ سے اہل ایمان کے دلوں کے اندر بر پا جنگ میں، اہل ایمان کی ایمان پر ثابت قدمی ، ان کے ایمان
کے خالی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ یہ بھی دل ہی کا عمل ہے۔
احادیث 343-352 (134) میں شیطان کے اٹھائے جانے والے ایسے سوال کا تذکرہ ہے جس کا مقصد شکوک وشبہات پیدا کرنا اور ایمان و یقین کی پوری عمارت کو منہدم کرنا ہے۔ سوالوں کے سلسلے میں جب سوال سامنے آتا ہے کہ اگر ہر چیز کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو پھر خود اللہ کوکس نے پیدا کیا ؟ یہ بد ترین وسوسہ ہے۔ اس کا علاج یہ بتایا گیا کہ اس مرحلے پر مومن کو چاہیے کہ فورأ رک جائے اور شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے اور آمنت بالله کہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے یہ تاکید کی گئی کہ وجود باری تعالی کے لیے عقل اور حِس کی واضح دلالت موجود ہے لیکن شیطان دل میں ڈالے گئے اس سوال کے ذریعے سے انسان کو ان اشیاء کے بارے میں محض عقل کو استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس مرحلے پر ضروری ہے کہ انسان اپنی فطرت کی طرف رجوع کرے، اس اولین میثاق کو دہرائے جو ہر روح سے لیا گیا اور اس میثاق کے ساتھ اپنی وابستگی کو مضبوط کرے۔
اس کے بعد امام مسلم نے بڑے لطیف پیرائے میں اپنی ترتیب کو آگے بڑھایا۔ حدیث : 357۔362(137۔141) تک عہد اور حلف کی اہمیت کی احادیث بیان فرمائیں اور متعلقہ مسائل کی وضاحت کی ۔ اس کے بعد 362-366 (142) تک بڑی ذمہ دار ہوں ، مثلا : حکمرانوں کے عہد اور حلف کے بارے میں احادیث ذکر کیں، پھر اس عہد یا میثاق اول کے موضوع پر احادیث لائے جسے قرآن نے ’’الأمانة‘‘ کہا ہے۔
حدیث: 367( 143 ) میں پہلے یہ الفاظ ہیں کہ سب سے پہلے ’’الأمانة‘‘ انسانی دلوں کے اندرونی حصے میں نازل ہوئی، پھر قرآن نازل ہوا اور اہل ایمان نے قرآن اور سنت سے علم حاصل کیا، ان الفاظ میں بہت سے نکات قابل غور ہیں ۔ الأمانة وہی ہے جس کے بارے میں قرآن نے کہا:
﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا﴾
’’ہم نے دکھائی امانت آسانوں کو زمین کو اور پہاڑوں کو تو ان سب نے انکار کر دیا کہ اسے اٹھائیں اور اس سےڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا یہ بڑاہی ظالم اور نادان ہے۔‘‘الاحزاب33۔72)
محدثین نے امانت کے معنی ایمان کیے ہیں۔ ایمان کو ایک امانت ہی کے طور پر انسان کے سپرد کیا گیا تھا، اس کی حفاظت ضروری تھی ، قرآن مجید نے یہ بات یوں بیان کی:
﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَىٰ شَهِدْنَا أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَافِلِينَ ﴿١٧٢﴾ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ ﴿١٧٣﴾ وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾
’’ اور جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور یہ( پوچھ کر) انھیں خود ان پر گواہ بنایا کیا میں تمہارا رب نہیں؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں! ہم گواہ ہیں، (یہ اس لیے کیا کہ) کہیں قیامت کے دن تم یہ نہ کہو کہ ہمیں تو اس بات (اکیلے اللہ کی ربوبیت )کی خبر ہی تھی یا ایسا کہو کہ شرک تو ہمارے آباء واجداد نے کیا، ہم تو بعد میں ان کی اولاد تھے (جو انھوں نے سکھایا سیکھ گئے ۔) تو ہمیں کیوں ہلاک کرتے ہو اس کام پر جسے (دوسرے) غلط کاروں نے کیا؟ اور اس طرح ہم کھولتے ہیں آیتوں کو شاید وہ لوگ (حق کی طرف) لوٹ آ ئیں‘‘ الأعراف 7:172۔174)
یہی عہد وہ فطری ایمان ہے جس پر انسان کی ولادت ہوتی ہے۔ قرآن اسے ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
﴿فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾
’’ پس تو ایک طرف کا ہو کر اپنا چہرہ دین کے لیے سیدھا رکھو، اللہ کی اس فطرت کے مطابق جس پر اس نے سب لوگوں کو پیدا کیا، اللہ کی پیدائش کو کسی طرح بدلنا (جائز )نہیں ۔ یہی سیدھا دین ہے، اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ الروم 30:30)
صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کل مولود ولد على الفطرة ‘‘(صحیح البخاري، حدیث: 1385، وصحیح مسلم، حدیث:6755 (2658) مسلم کی ایک اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں
((وإني خلقت عبادي حنفاءکلهم و إنهم أتتهم الشياطين فاجتالتهم عن دينهم ))
’’ میں نے اپنے تمام بندے دین حنیف کے پیرو کار پیدا کیے (پھر ) ان کے پاس شیاطین آئے اور انھیں ان کےدین سے پھیر دیا۔ صحیح مسلم، حدیث:7207(2865)
اِنَّ اللهَ تَعَالیٰ يَقُولُ لأَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ : لَوْ أَنَّ لَكَ مَا فِي الأَرْضِ مِنْ شَيْءٍ ، أَكُنْتَ تَفْتَدِي بِهِ ؟ فَيَقُولُ : نَعَمْ . فَيَقُول فقدسالتك ماهوأَهْوَنَ مِنْ ذَلِكَ وَأَنْتَ فِي صُلْبِ آدَمَ : أَنْ لا تُشْرِكَ بِي شَيْئًا ، فَأَبَيْتَ إِلا الشرك
’’اللہ تعالیٰ دوزخیوں میں سےسب سےہلکےعذاب والےسےکہےگا:زمین میں جوکچھ بھی ہےاگروہ تیری ملکیت ہوتوکیاتواسےاس(عذاب)کےبدلےفدیےمیں دےدےگا؟وہ کہےگا:جی ہاں۔ وہ (اللہ)کہےگا:میں نےتو،جب توآدم کی پشت میں تھا،تجھ سےوہ مانگاتھاجواس سےبہت کم تھا، یہ کہ تو(کسی کو)میراشریک نہ ٹھہراناپرتونےشریک ٹھہرانےکےسواہرچیزسے انکارکیا۔‘‘صحيح البخارى ،حديث:3334وصحيح مسلم،حديث:2805،7083)
یہی وہ عہدہےجس پراللہ تعالیٰ انسان کوپیداکرتاہے۔ اگرماں باپ اوردیگرعوامل انسان کواس سےمنحرف نہ کردیں تودل سےاس کی تصدیق ہوتی ہے،پھرزبان گواہی دےکراورباقی اعضاءبھی اپنےعمل سےاس کی تصدیق کرتےہیں۔
اس کےبعدباب الإسراءبرسول الله إلى السماوات وفرض الصلوات میں امام مسلم حدیث: 412۔417(162۔164)تک وہ احادیث لائےہیں جن میں دوبارہ رسول اللہﷺ کاشق صدرہونےکاتذکرہ ہے۔
پہلاواقعہ ابتدائےطفولیت کاہےجب آپ بنوسعدمیں تھے۔ اس کوان الفاظ میں بیان کیاگیاہے:
((فاستخرج القلب،فاستخرج منه علقه،فقال:هذاحظ الشيطان منك،ثم غسله فى طست من ذهب بماءزمزم ،ثم لامه ،ثم اعاده فى مكانه))
’’جبریل نےآپ کےدل کوباہرنکالا،اس میں سےایک لوتھڑاالگ کیااورکہایہ (دل کےاندر)وہ حصہ تھاجس کےذریعےسےشیطان اثراندازہوسکتاتھا، پھراسے(دل کو)سونےکےطشت میں زمزم کےپانی سےدھویا، پھراسےجوڑااوراس کی جگہ پرواپس رکھ دیا۔ ‘‘
((ففرج صدري،ثم غسله من ماءزمزم ،ثم جاءبطست من ذهب ممتليءحكمة وايمانا،فافرغهافى صدري ،ثم اطبقه ثم اخذبيدي ،فعرج بى الى السماء))
’’جبریل نے میرا سینہ چاک کیا، پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا، پھر سونے کا ایک طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا تو اسے میرے سینے میں خالی کر دیا، پھر سینے کو بند کیا پھر میرا ہاتھ پکڑا اور معراج پر لے گئے ۔‘‘
پہلے شق صدر کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ میثاق اولین کو برائی کی کوئی قوت چھیڑ ہی نہ سکے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ واضح طور پر ہمیشہ اسی میثاق پر قائم رہے۔ اور دوسرے شق صدر کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے قلب مبارک میں حکمت و ایمان میں مزید اضافہ کیا جائے تا کہ آپ اپنے عظیم ترین سفر اور اس کے مشاہدات کے لیے تیار ہو جائیں۔ یہ حدیث حقیقت ایمان میں زیادتی کے بارے میں نص صریح ہے۔ آپ ﷺ کا قلب مطہر پہلے ہی ایمان سے معمور تھا۔ اس مرحلے میں اس میں مزید اضافہ کر دیا گیا۔ ان دونوں حدیثوں سے، کہنے والے کی اس بات کی مکمل تردید ہو جاتی ہے کہ إيماني إيماني الأنبیاء ”میرا ایمان انبیاء کے ایمان کی طرح ہے۔ ان فقروں کے حامی متکلمین نے ان فقروں کی تائید کے لیے جو کچھ کہا ہے اس حدیث کو سامنے رکھیں تو ان میں سے کسی بات میں کوئی وزن باقی نہیں رہتا۔
البتہ محد ثین کی بھر پورمہم کے نتیجے میں، بعض اہل علم نے ان باتوں کی از سر نو تعمیر اور وضاحت کرنے کی کوششیں کیں۔ شیخ ملاعلی قاری نے امام ابوحنیفہ کے بعد ان کے ایسے شارحین کے وضاحتی بیان جمع کر کے کامیابی سے حضرت الامام کے اقوال کی ایسی تعبیر کر دی ہے جو کتاب وسنت پرمبنی ائمہ محدثین اور جمہور امت کے نقطہ نظر کے قریب تر ہے۔
ایمان کے حوالے سے امام مسلم نے احادیث کی جمع وترتیب کے ذریعے سے جوحقائق واضح کیے، یہ ان کا ایک اجمالی جائزہ ہے، اس جائزے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کے سامنے ایمان کے بنیادی حقائق کا ایک مختصر نقشہ موجود رہے اور امام مسلم نے اپنے حسن ترتیب سے جو نکات واضح کرنے کی کوشش کی ان کے سمجھنے میں مشکل پیش نہ آئے۔
ابو حیان نے ابو زرعہ سے اور انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت کی، انہوں نےکہا: ایک دن رسو ل اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دستی اٹھا کر آپ کو پیش کی گئی، کیونکہ آپ ﷺ کو مرغوب تھی۔ آپ نے اپنے دندان مبارک سے ایک بار اس میں سے تناول کیا اور فرمایا: ’’میں قیامت کے دن تمام انسانوں کا سردار ہوں گا۔ کیا تم جانتے ہو یہ کیسے ہو گا؟ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام اگلوں اور پچھلوں کو ایک ہموار چٹیل میدان میں جمع کرے گا۔ بلانے والا سب کو اپنی آواز سنائے گا اور (اللہ کی) نظر سب کے آر پار (سب کو دیکھ رہی) ہو گی، سورج قریب ہو جائے گا اور لوگوں کو اس قدر غم اور کرب لاحق ہو گا جو ان کی طاقت سے زیادہ اور ناقابل برداشت ہو گا۔ لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے: کیا دیکھتے نہیں! تم کس حالت میں ہو؟ کیا دیکھتے نہیں! تم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے؟ کیا تم کوئی ا یسا شخص تلاش نہیں کرتے جو تمہاری سفارش کردے؟ یعنی تمہارے رب کے حضور۔ چنانچہ لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے: آدم کے پاس چلو، تو وہ آدم ؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے آدم! آپ سب انسانوں کے والد ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ میں اپنی (طرف سے) روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا، تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں! آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے؟ آدم ؑ جواب دیں گے: میرا رب آج اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں اس سے پہلے کبھی نہیں آیا اور نہ اس کے بعد کبھی آئے گا، اور یقیناً اس نے مجھے ایک خاص درخت (کےقریب جانے) سے روکا تھا، لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی تھی، مجھے اپنی جان کی فکر ہے، مجھے اپنی جان بچانی ہے۔تم کسی اور کے پاس جاؤ، نوحؑ کے پاس جاؤ۔ لوگ نوحؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے نوح! آپ (اہل) زمین کی طرف سے بھیجے گئے سب سے پہلے رسول ہیں، اور ا للہ تعالیٰ نے آپ کو شکر گزار بندے کا نام دیا ہے۔ آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ وہ انہیں جوا ب دیں گے: آج میرا رب اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں نہ وہ اس سے پہلے کبھی آیا، نہ آیندہ کبھی آئے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے لیے ایک دعا (خاص کی گئی) تھی، وہ میں نے اپنی قوم کےخلاف مانگ لی۔ (آج تو) میری اپنی جان (پر بنی) ہے، مجھے اپنی جان (کی فکر) ہے۔ تم ابراہیم ؑ کے پاس جاؤ! چنانچہ لوگ ابراہیم ؑ کے پاس حاضر ہوں گے اور عرض گزار ہوں گے: آپ اللہ کے نبی اور اہل زمین میں سے اس کے خلیل (صرف اس کے دوست) ہیں، اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں! آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ تو ابراہیم ؑ ان سے کہیں گے: میرارب اس قدر غصے میں ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنے غصے میں نہیں آیا اور نہ آیندہ کبھی آئے گا، اور اپنے (تین) جھوٹ یاد کریں گے، (اور کہیں) مجھے اپنی جان کی فکر ہے، مجھے تو اپنی جان کی بچانی ہے۔ کسی اورکے پاس جاؤ، موسیٰؑ کے پاس جاؤ! لوگ موسیٰؑ کے خدمت میں حاضر ہوں گے، اورعرض کریں گے: اے موسیٰ! آپ اللہ کےرسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیغام اور اپنی ہم کلامی کے ذریعے سے فضیلت عطا کی، اللہ کے حضور ہمارے لیے سفارش کیجیے! آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ موسیٰؑ ان سے کہیں گے: میرا رب آج اس قدر غصے میں ہے، کہ نہ اس سے پہلے کبھی اس قدر غصے میں آیا اور نہ اس کے بعد آئے گا۔ میں ایک جان کو قتل کر چکا ہوں، جس کے قتل کا مجھے حکم نہ دیا گیا تھا۔ میری جان(کا کیا ہو گا) میری جان ( کیسے بچے گی؟) عیسیٰؑ کے پا س جاؤ! لوگ عیسیٰؑ کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے: اے عیسیٰؑ! آپ اللہ کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریمؑ کی طرف القاء کیا، اور اس کی روح ہیں، اس لیے آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں! آپ ہماری حالت نہیں دیکھتے جس میں ہم ہیں؟ کیا آپ نہیں دیکھتے ہم پر کیسی مصیبت آن پڑی ہے؟ تو عیسیٰؑ انہیں جواب دیں گے: میرا رب اتنے غصے میں ہے جتنے غصےمیں نہ وہ اس سے پہلے آیا، اور نہ آیندہ کبھی آئے گا۔ وہ اپنی کسی خطا کا ذکر نہیں کریں گے، (کہیں گے مجھے) اپنی جان کی فکر ہے، مجھے اپنی جان بچانی ہے، میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، محمدﷺ کے پاس جاؤ! لوگ میرے پاس آئین گے اور کہیں گے: اے محمد! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ (اگر ہوتے تو بھی) معاف کر دیے، اپنے رب کےحضور ہماری سفارش فرمائیں۔ آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال میں ہیں؟ آپ دیکھتے نہیں ہم پر کیا مصیبت آن پڑی ہے؟ تو میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آؤں گا اور اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی ایسی تعریفوں اوراپنی ایسی بہترین ثنا (کے دروازے) کھول دے گا اور انہیں میرے دل میں ڈالے گا، جو مجھ سے پہلے کسی کے لیے نہیں کھولے گئے، پھر (اللہ) فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیے، مانگیے! آپ کو ملے گا۔ سفارش کیجیے! آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ تو میں سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا: اےمیرے رب! میری امت! میری امت! تو کہا جائے گا: اے محمد! آپ کی امت کے جن لوگوں کا حساب و کتاب نہیں، ان کو جنت کے دروازے میں سے دائیں دروازے سے داخل کر دیجیے، اور وہ جنت کے باقی دروازوں میں (بھی) لوگوں کے ساتھ شریک ہیں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! جنت کے دو کواڑوں کے درمیان اتنا (فاصلہ) ہے جتنا مکہ اور (شہر ہجر) یا مکہ اور بصری کے درمیان ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ کے پاس گوشت لایا گیا اور آپ کو دستی کا گوشت پیش کیا گیا، کیونکہ آپ ﷺ کو دستی مرغوب تھی۔ آپ نے اس سے دانتوں سے ایک دفعہ گوشت کاٹا اور فرمایا: ’’قیامت کے دن میں تمام انسانوں کا سردار ہوں گا، اور کیا تم جانتے ہو یہ کیسے ہوگا؟ اللہ عز و جل قیامت کے دن تمام پہلوں اور پچھلوں کو ایک کھلے ہموارمیدان میں جمع کرے گا۔ منادی کی آواز سب کو سنائی دے گی اور دیکھنے والے کی نظر سب پر پڑے گی۔ آفتاب قریب ہو جائے گا اور لوگوں کو اس قدر غم اور مصیبت پہنچے گی جو ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گی۔ جس کو وہ برداشت نہیں کر سکیں گے، تو لوگ ایک دوسرے کو کہیں گے: کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو، تم کس حالت میں ہو؟ تمھیں کس قدر پریشانی اٹھانی پڑ رہی ہے؟ کیا تم کسی کو تلاش نہیں کرو گے؟ جو تمھارے رب کے حضور تمھاری سفارش کرے؟ تو لوگ ایک دوسرے کو کہیں گے آدم ؑ کے پاس چلو۔ پھر وہ آدم ؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے آدم! آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دستِ مبارک سے بنایا ہے، اور آپ میں اپنی خصوصی روح پھونکی، فرشتوں کو حکم دیا، تو وہ آپ کے حضور جھک گئے۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں! کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں، ہم کس قدر پریشان ہیں؟ آپ دیکھ نہیں رہے ہمیں کس قدر مصیبت پہنچ چکی ہے؟ تو آدمؑ جواب دیں گے: یقیناً میرا رب آج اس قدر ناراض ہے، کہ اس سے پہلے کبھی اس قدر ناراض نہیں ہوا اور نہ ہی اس کے بعد اس قدر ناراض ہو گا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس نے مجھے درخت سے روکا تھا، لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی۔ آج مجھے تو اپنی ہی فکر ہے، تم میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، نوح ؑ کے پاس جاؤ! تو لوگ نوح ؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے نوحؑ! آپ اہلِ زمیں کی طرف سب سے پہلے رسول ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو شکر گزار بندہ کا نام دیا ہے۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں کیا! آپ دیکھ نہیں رہے ہیں ہم کس قدر پریشانی میں ہیں؟ کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں ہمیں کس قدر مصیبت پہنچ چکی ہے؟ تو وہ انھیں جواب دیں گے: آج میرا رب اس قدر غصے میں ہے کہ اتنا کبھی اس سے پہلےغصہ میں نہیں آیا، نہ ہی اس کے بعد کبھی اس قدر غصے میں آئے گا۔ صورتِ حال یہ ہے، کہ مجھے ایک دعا کرنے کا حق حاصل تھا وہ میں نے اپنی قوم کےخلاف کر لی، آج تو مجھے اپنی فکر دامن گیر ہے۔ ابراہیم ؑ کے پاس جاؤ! تو لوگ ابراہیم ؑ کے پاس آئیں گے اور عرض گزار ہوں گے: آپ اللہ کے نبی اور اہلِ زمین میں سے اس کے خلیل ہیں، ہمارے لیے اپنے رب کے حضور سفارش فرمائیں! کیا آپ ہماری حالت دیکھ نہیں رہے ہیں؟ کیا ہم جس قدر تکلیف میں مبتلا ہیں وہ آپ کو نظر نہیں آ رہی؟ تو ابراہیم ؑ انھیں کہیں گے: میرا رب آج اس قدر غضب ناک ہے کہ اس قدر اس سے پہلے غضبناک نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہوگا، اور اپنے توریوں کا تذکرہ کریں گے، مجھے تو اپنی ہی فکر دامن گیر ہے، میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ، موسیٰؑ کے پاس جاؤ! تو لوگ موسیٰؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے: اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیغامات اور ہم کلامی کی لوگوں پر فضیلت بخشی ہے۔ ہماری خاطر اللہ کے حضور سفارش کیجیے۔ کیا آپ ہماری بے بسی کو نہیں دیکھ رہے؟ کیا ہم جس قدر تکلیف میں مبتلا ہیں، آپ اس کا ملاحظہ نہیں کر رہے؟ تو موسیٰؑ ؑ ان کو کہیں گے: میرا رب آج اس قدر غصہ میں ہے کہ اس سے پہلے اس قدر غضبناک نہیں ہوا، اور نہ ہی اس کے بعد اس قدر ناراض ہوگا، اور میں ایک جان کو قتل کر چکا ہوں، جس کے قتل کی مجھے اجازت نہ تھی۔ مجھے تو اپنی ہی فکر لاحق ہے، عیسیٰؑ کے پاس چلے جاؤ! لوگ عیسیٰ ؑ کے پاس آ کر عرض کریں گے: اے عیسیٰؑ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اور آپ نے لوگوں سے پنگھوڑے میں گفتگو کی، آپ اللہ کا کلمہ ہیں، جس کا اس نے مریمؑ کی طرف القاء کیا، اور اس کی روح ہیں، اس لیے اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں! کیا آپ ہماری حالت کو نہیں دیکھ رہے؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہے، ہم کس قدر مصائب میں مبتلا ہیں؟ تو عیسیٰؑ انھیں جواب دیں گے: میرا رب آج اس قدر غصہ میں ہے کہ اس سے پہلے کبھی اس قدر غصے میں نہیں ہوا، نہ اس کے بعد اس قدر غصے میں ہو گا۔ (وہ) اپنی کسی خطا کا ذکر نہیں کریں گے، مجھے اپنی ہی فکر ہے،میرے سوا کسی کے پاس جاؤ! محمد ﷺ کے پاس جاؤ! تو لوگ میرے پاس آکر کہیں گے: اے محمدؐ! آپ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے ہیں، اپنے رب کے حضور ہماری سفارش فرمائیں۔ کیا آپ ہماری حالت نہیں دیکھ رہے؟ کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہم کس قدر تکلیف میں مبتلا ہیں؟ تو میں چلوں گا اور عرش کے نیچے آ کر اپنے رب کے حضور سجدہ میں گر جاؤں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنے محامد اور بہترین ثناء کا اظہار فرمائے گا، اور میرے دل میں ڈالے گا، مجھ سے پہلے کسی کو ان سے آگاہ نہیں کیا، پھر کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھا! مانگ! تمھیں ملے گا، سفارش کیجیے! تیری سفارش قبول ہوگی۔ تو میں سر اٹھا کر عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت! میری امت! (یعنی میری امت کو بخش دے) تو کہا جائے گا: اے محمد(ﷺ)! اپنی امت کے ان لوگوں کو جن کا حساب و کتا ب نہیں، جنت کے دروازوں میں سے دائیں دروازے سے داخل کیجیے اور وہ جنت کے باقی دروازوں میں لوگوں کے ساتھ شریک ہیں۔ اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں محمد (ﷺ) کی جان ہے، جنت کے دروازوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ مکہ اور ہجر یا مکہ اور بصریٰ کے درمیان ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1) فَنَهَسَ: دانت سے کاٹنا۔ (2) صَعِيد: کھلی اور ہموار زمین۔ (3) يَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ: نظر تمام انسانوں کا احاطہ کرے گی، دیکھنے والے سے کوئی اوجھل نہیں ہو گا۔ (4) مَصَارِيعٌ:مِصْراعٌ کی جمع ہے، دروازے کے پٹ۔ ہجر اور بصری: دو قدیمی معروف شہر ہیں، جن کے درمیان کافی مسافت ہے۔
فوائد ومسائل:
(1) سید اس شخصیت کوکہتےہیں، جو سب سے برتر اورفائق ہو، اورگھبراہٹ وپریشانی میں لوگ اس کی پناہ میں آئیں۔ قیامت کوتمام انسان، آدمؑ سےلےکر آخری فرد تک آپ کی جھنڈےتلےہوں گے، اورآپ سےسفارش کےطالب ہوں گے، اس لیے آپ ﷺ نےتحدیث نعمت کے طور پر فرمایا: ’’کہ میں قیامت کوتمام انسانوں کاسردارہوں گا۔‘‘ (2) آپ ﷺنے دنیا میں اس بات کا اظہار فرمایاہے، کہ شفاعت کبریٰ کا اہل میں ہوں اورکوئی رسول اس کام کےلیے آمادہ نہ ہوگا۔ قیامت کے روز آپ ﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق لوگ تدریجاً آپ کےپاس پہنچیں گے، آپ کی امت کاکوئی فردبھی یہ مشورہ نہ دے سکے گا، کہ سفارش تو آخری رسول کی قبول ہونی ہے، چلو اس کےپاس چلیں، تا کہ عملاً آپ ﷺ کی فضیلت وبرتری کا سب انسانوں کےسامنےظہورہوسکے۔ (3) انبیاءؑ کے بیان کردہ عذرمعاف ہوچکےہیں، کیونکہ ان میں سےکسی سےقصور و کوتاہی شعوری طورپرسرزدنہیں ہوگی، اس کےباوجود، انہوں نے توبہ واستغفار کا ورد جاری رکھا، لیکن قیامت کی وحشت اور ہولناکی کی بنا پر وہ ان معاف شدہ باتوں کویادکر کے سفارش کرنےسےمعذرت کااظہارفرمائیں گے۔ (4) اللہ تعالیٰ صفتِ غضب سےمتصف ہے،لیکن اس کی کیفیت کوبیان کرناممکن نہیں ہے، اس لیےکسی قسم کی تاویل وتعطیل کی ضرورت نہیں ہے۔ (5) اس حدیث میں حضرت ابراہیمؑ نےتین کذبات بولنے کی بنا پر سفارش سےمعذرت کا اظہارفرمایا ہے،عربی زبان میں علامہ انباری کے بقول (کذب) کالفظ پانچ معانی کےلیے استعمال ہوتاہے۔ علامہ انباری نے مثالیں بھی دی ہیں، تفصیل کے لیے دیکھئے تاج العروس: (1/449) (1)جھوٹ۔ (2) چوک جانا۔ (3) آرزو اور امید کا خاک میں ملنا۔(4)کسی کو دھوکا میں رکھنا۔ (5)توریہ وتعریض سے کام لینا۔ یعنی ایساقول جو بظاہر خلاف واقعہ نظر آتا ہے، لیکن اگرغورو فکر سے کام لیا جائے، تو وہ بالکل واقعہ کےمطابق ہوتا ہے۔ جن واقعات کوحضرت ابراہیمؑ نے کذبات سےتعبیرکیا ہے، تو ان میں تینوں اقوال بظاہر خلافِ واقعہ نظرآتےہیں، لیکن اگرغور کیا جائے تو وہ تینوں اقوال بالکل واقعہ کےمطابق ہیں، یہ حضرت ابراہیمؑ کی شان کی رفعت وبلندی ہے، کہ انہوں نے توریہ وتعریض کوبھی جو بالکل جائز اور درست ہے، اپنی شان رفیع سے فروتر سمجھا، اور ان کو کذب سےتعبیرکیا۔ (6) احادیث صحیحہ میں شفاعت کبریٰ جو تمام انسانوں کے حساب وکتاب شروع کرنے کے لیے ہوگی، کا تذکرہ موجودنہیں ہے، بلکہ آپ کی امت کے گناہ گاروں کی سفارش کا ذکرہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سفارش کبریٰ کا اسلام کا نام لیوا فرقوں میں سےکوئی فرقہ منکر نہیں ہے، جبکہ گناہ گاروں کی سفارش کا خوارج اورمعتزلہ وغیرہما نے انکارکیا ہے، اس لیے گناہ گاروں کی سفارش کےلیے احادیث کے بیان پر زور دیا گیا، اورمتفقہ سفارش کے تذکرہ کونظر اندازکردیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported: Meat was one day brought to the Messenger of Allah (ﷺ) and a foreleg was offered to him, a part which he liked. He sliced with his teeth a piece out of it and said: I shall be the leader of mankind on the Day of Resurrection. Do you know why? Allah would gather in one plain the earlier and the later (of the human race) on the Day of Resurrection. Then the voice of the proclaimer would be heard by all of them and the eyesight would penetrate through all of them and the sun would come near. People would then experience a degree of anguish, anxiety and agony which they shall not be able to bear and they shall not be able to stand. Some people would say to the others: Don you see in which trouble you are? Don't you see what (misfortune) has overtaken you? Why don't you find one who should intercede for you with your Lord? Some would say to the others: Go to Adam. And they would go to Adam ؑand say: O Adam, thou art the father of mankind. Allah created thee by His own Hand and breathed in thee of His spirit and ordered the angels to prostrate before thee. Intercede for us with thy Lord Don't you see in what (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? Adam ؑwould say: Verily, my Lord is angry, to an extent to which He had never been angry before nor would He be angry afterward. Verily, He forbade me (to go near) that tree and I disobeyed Him. I am concerned with my own self. Go to someone else; go to Noah. They would come to Noah and would say: O Noah, thou art the first of the Messengers (sent) on the earth (after Adam), and Allah named thee as a" Grateful Servant," intercede for us with thy Lord. Don't you see in what (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? He would say: Verily, my Lord is angry today as He had never been angry before, and would never be angry afterwards. There had emanated a curse from me with which I cursed my people. I am concerned with only myself, I am concerned only with myself; you better go to Ibrahim (peace be upon him). They would go to Ibrahim and say: Thou art the apostle of Allah and His Friend amongst the inhabitants of the earth; intercede for us with thy Lord. Don't you see in which (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? Ibrahim would say to them: Verily, my Lord is today angry as He had never been angry before and would never be angry afterwards. and (Ibrahim) would mention his lies (and then say): I am concerned only with myself, I am concerned only with myself. You better go to someone else: go to Moses (ؑ). They would come to Moses (ؑ) (peace be upon him) and say: O Moses (ؑ), thou art Allah's messenger, Allah blessed thee with His messengership and His conversation amongst people. Intercede for us with thy Lord. Don't you see in what (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? Moses (ؑ) (peace be upon him) would say to them: Verily. my Lord is angry as He had never been angry before and would never be angry afterwards. I, in fact, killed a person whom I had not been ordered to kill. I am concerned with myself, I am concerned with myself. You better go to Jesus (peace be upon him). They would come to Jesus and would say: O Jesus, thou art the messenger of Allah and thou conversed with people in the cradle, (thou art) His Word which I-Ie sent down upon Mary. and (thou art) the Spirit from Him; so intercede for us with thy Lord. Don't you see (the trouble) in which we are? Don't you see (the misfortune) that has overtaken us? Jesus (peace be upon him) would say: Verily, my Lord is angry today as He had never been angry before or would ever be angry afterwards. He mentioned no sin of his. (He simply said:) I am concerned with myself, I am concerned with myself; you go to someone else: better go to Muhammad (ﷺ) . They would come to me and say: O Mahammad, thou art the messenger of Allah and the last of the apostles. Allah has pardoned thee all thy previous and later sins. Intercede for us with thy Lord; don't you see in which (trouble) we are? Don't you see what (misfortune) has overtaken us? I shall then set off and come below the Throne and fall down prostrate before my Lord; then Allah would reveal to me and inspire me with some of His Praises and Glorifications which He had not revealed to anyone before me. He would then say: Muhammad, raise thy head; ask and it would be granted; intercede and intercession would be accepted I would then raise my head and say: O my Lord, my people, my people. It would be said: O Muhammad (ﷺ) , bring in by the right gate of Paradise those of your people who would have no account to render. They would share with the people some other door besides this door. The Holy Prophet (ﷺ) then said: By Him in Whose Hand is the life of Muhammad, verify the distance between two door leaves of the Paradise is as great as between Makkah and Hajar, or as between Makkah and Busra.