Muslim:
The Book of Purification
(Chapter: The description of wudu’ and its perfection)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
550.
یونس نے ابن شہاب سے روایت کی، کہ عطاء بن یزید نے انہیں خبر دی کہ حمران نے، جوحضرت عثمان ؓ کے آزاد کردہ غلام ہیں، انہیں بتایا: کہ حضرت عثمانؓ نے وضوء کے لیے پانی منگوایا اور وضوء کیا، تو دونوں ہاتھوں کو تین بار دھویا، پھر کلی کی اور (ناک میں پانی ڈال کر ) ناک جھاڑی، پھر تین بار چہرہ دھویا، پھر تین بار دایاں بازو کہنیوں تک دھویا، پھر اسی طرح بایاں دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر تین بار اپنا دایاں پاؤں ٹخنوں تک دھویا، پھر اسی طرح بایاں پاؤں دھویا، پھر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تھا کہ آپ نے اسی طرح وضو کیا، جس طرح میں نے اب کیا ہے، پھر رسول ا للہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا، پھر اٹھ کر دو رکعتیں ادا کیں، ان دونوں کے دوران میں اپنے آپ سے باتیں نہ کیں، اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔‘‘ ابن شہاب نے کہا: ہمارے علماء (تابعین) کہا کرتے تھے: کہ یہ کامل ترین وضو ہے جو کوئی انسان نماز کے لیے کرتا ہے۔
اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت وفضیلت
طہارت کا مطلب ہے صفائی اور پاکیز گی۔ یہ نجاست کی ضد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بعثت کے بعد آغاز کار میں جو احکام ملے اور جن کا مقصود اگلے مشن کے لیے تیاری کرنا اور اس کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرنا تھا، وہ ان آیات میں ہیں: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (7) ”اے موٹا کپڑا لپیٹنے والے! اٹھیے اور ڈرایئے، اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے، اپنے کپڑے پاک رکھیے، پلیدی (بتوں) سے دور رہے، (اس لیے ) احسان نہ کیجیے کہ زیادہ حاصل کریں اور اپنے رب کی رضا کے لیے صبر کیجیے‘‘ (المدثر 71
اسلام کے ان بنیادی احکام میں کپڑوں کو پاک رکھنے اور ہر طرح کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی ناپاکی سے دور رہنے کا حکم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ سے تعلق، ہدایت اور روحانی ارتقا کا سفر طہارت اور پاکیزگی سے شروع ہوتا ہے جبکہ گندگی تعفن اورغلاظت شیطانی صفات ہیں اور ان سے گمراہی ، ضلالت اور روحانی تنزل کا سفر شروع ہوتا ہے۔
وُضُوْ، وَضَائَة سے ہے جس کے معنی نکھار اور حسن و نظافت کے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی کے سامنے حاضری کی تیاری یہی ہے کہ انسان نجس نہ ہو، طہارت کی حالت میں ہو اور مسنون طریقہ وضو سے اپنی حالت کو درست کرے اور خود کو سنوارے۔ وضوسے جس طرح ظاہری اعضاء صاف اور خوبصورت ہوتے ہیں، اسی طرح روحانی طور پر بھی انسان صاف ستھرا ہو کر نکھر جاتا ہے۔ ہر عضو کو دھونے سے جس طرح ظاہری کثافت اور میل دور ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ تمام گناہ بھی دھل جاتے ہیں جوان اعضاء کے ذریعے سے سرزد ہوئے ہوں ۔
مومن زندگی بھر اپنے رب کے سامنے حاضری کے لیے وضو کے ذریعے سے جس وَضَائَةَ کا اہتمام کرتا ہے قیامت کے روز وہ مکمل صورت میں سامنے آئے گی اور مومن غَرُّ مُعُجَّلُونَ (چمکتے ہوئے روشن چہروں اور چمکتے ہوئے ہاتھ پاؤں والے) ہوں گے۔
نظافت اور جمال کی یہ صفت تمام امتوں میں مسلمانوں کو ممتاز کرے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ماہرین صحت جسمانی صفائی کے حوالے سے وضو کے طریقے پرتعجب آمیر تحسین کا اظہار کرتے ہیں ۔ اسلام کی طرح اس کی عبادات بھی بیک وقت دنیا و آخرت اور جسم و روح کی بہتری کی ضامن ہیں۔ الله تعالی کے سامنے حاضری اور مناجات کی تیاری کی یہ صورت ظاہری اور معنوی طور پر انتہائی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے لیے آسان بھی ہے۔ جب وضو ممکن نہ ہو تو اس کا قائم مقام تیمم ہے، یعنی ایسی کوئی بھی صورت حال پیش نہیں آتی جس میں انسان اس حاضری کے لیے تیاری نہ کر سکے۔
یونس نے ابن شہاب سے روایت کی، کہ عطاء بن یزید نے انہیں خبر دی کہ حمران نے، جوحضرت عثمان ؓ کے آزاد کردہ غلام ہیں، انہیں بتایا: کہ حضرت عثمانؓ نے وضوء کے لیے پانی منگوایا اور وضوء کیا، تو دونوں ہاتھوں کو تین بار دھویا، پھر کلی کی اور (ناک میں پانی ڈال کر ) ناک جھاڑی، پھر تین بار چہرہ دھویا، پھر تین بار دایاں بازو کہنیوں تک دھویا، پھر اسی طرح بایاں دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر تین بار اپنا دایاں پاؤں ٹخنوں تک دھویا، پھر اسی طرح بایاں پاؤں دھویا، پھر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا تھا کہ آپ نے اسی طرح وضو کیا، جس طرح میں نے اب کیا ہے، پھر رسول ا للہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا، پھر اٹھ کر دو رکعتیں ادا کیں، ان دونوں کے دوران میں اپنے آپ سے باتیں نہ کیں، اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔‘‘ ابن شہاب نے کہا: ہمارے علماء (تابعین) کہا کرتے تھے: کہ یہ کامل ترین وضو ہے جو کوئی انسان نماز کے لیے کرتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عثمان ؓ کے آزاد کردہ غلام حمران ؓ سے روایت ہے، کہ عثمانؓ نے مجھے وضو کے لیے پانی لانے کا کہا اور وضو کیا، تو دونوں ہتھیلیاں (ہاتھ) تین مرتبہ دھوئیں، پھر کلی کی اور (ناک میں پانی ڈال کر) ناک جھاڑی، پھر تین دفعہ چہرہ دھویا، پھر دایاں ہاتھ کہنیوں تک تین دفعہ دھویا، اس طرح بایاں دھویا، پھر اپنے سر کا مسح فرمایا، پھر اپنا دایاں پاؤں ٹخنوں سمیت تین مرتبہ دھویا، پھر اس طرح بایاں پاؤں دھویا، پھر کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ ﷺ نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس نےمیرے اس وضو کی طرح وضو کیا، پھر اٹھ کر دو رکعتیں ادا کیں، ان دونوں میں اپنے آپ سے گفتگو نہ کی (خود کلامی نہ کی)، تو اس کے گزشتہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔‘‘ ابنِ شہاب نے کہا: ہمارے علماء کہتے تھے: کہ یہ خود کامل ترین وضو ہے، جو کوئی نماز کے لیے کرتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
اسْتَنْثَرَ: ناک میں پانی ڈال کر اس کو جھاڑنا۔ اہل لغت، فقہاء اور محدثین سب کی اکثریت نے یہی معنی کیا ہے، اگرچہ ابن اعرابی اور ابن قتیبہ نے اس کا معنی: ناک میں پانی ڈالنا کیا ہے، جو درست نہیں، کیونکہ بعض روایات میں "اِسْتِنْثَار"سے پہلے "اِسْتِنْشَاق" (ناک میں پانی چڑھانا) کا ذکر موجود ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Humran, the freed slave of 'Uthman, said: 'Uthman bin 'Affan called for ablution water and this is how he performed the ablution. He washed his hands thrice. He then rinsed his mouth and cleaned his nose with water (three times). He then washed his face three times, then washed his right arm up to the elbow three times, then washed his left arm like that, then wiped his head; then washed his right foot up to the ankle three times, then washed his left foot like that, and then said: I saw the Messenger of Allah (ﷺ) perform ablution like this ablution of mine. Then the Messenger of Allah (ﷺ) said: He who performs ablution like this ablution of mine and then stood up (for prayer) and offered two rak'ahs of prayer without allowing his thoughts to be distracted, all his previous sins are expiated. Ibn Shihab said: Our scholars remarked: This is the most complete of the ablutions performed for prayer.