Muslim:
The Book of Purification
(Chapter: Another description of wudu’)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
568.
خالد بن عبد اللہ نےعمرو بن یحییٰ بن عمارہ سے، انہوں نے اپنے والد (یحییٰ بن عمارہ) سے، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم انصاری ؓ سے روایت کی (انہیں شرف صحبت حاصل تھا)، (یحییٰ بن عمارہ نے) کہا:حضرت عبد اللہ بن زیدؓ سے کہا گیا: ہمیں رسول اللہ ﷺ کا (سا) وضو کر کے دکھائیں! اس پر انہوں نے پانی کا ایک برتن منگوایا، اسے جھکا کر اس میں سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی انڈیلا اور انہیں تین بار دھویا، پھر اپنا ہاتھ ڈال کر پانی نکالا اور ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی کھینچا، یہ تین بار کیا، پھر اپنا ہاتھ ڈال کر پانی نکالا اور اپنا چہرہ تین بار دھویا، پھر اپنا ہاتھ ڈال کر پانی نکالا اور اپنے بازو کہنیوں تک دو دو بار دھوئے، (تاکہ امت کو معلوم ہو جائے کہ کسی عضو کو دوبار دھونا بھی جائز ہے) پھر ہاتھ ڈال کر پانی نکالا اور اپنے سر کا مسح کیا اور (آپ) اپنے دونوں ہاتھ (سر پر) آگے سے پیچھے کو اور پیچھے سے آگے کو لائے، (ایک طرف مسح کرنا اور اسی ہاتھ کو دوبارہ واپس لانامستحب ہے) پھر دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے، پھرکہا: ’’رسول اللہ ﷺ کا وضو اسی طرح تھا۔‘‘
اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت وفضیلت
طہارت کا مطلب ہے صفائی اور پاکیز گی۔ یہ نجاست کی ضد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بعثت کے بعد آغاز کار میں جو احکام ملے اور جن کا مقصود اگلے مشن کے لیے تیاری کرنا اور اس کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرنا تھا، وہ ان آیات میں ہیں: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (7) ”اے موٹا کپڑا لپیٹنے والے! اٹھیے اور ڈرایئے، اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے، اپنے کپڑے پاک رکھیے، پلیدی (بتوں) سے دور رہے، (اس لیے ) احسان نہ کیجیے کہ زیادہ حاصل کریں اور اپنے رب کی رضا کے لیے صبر کیجیے‘‘ (المدثر 71
اسلام کے ان بنیادی احکام میں کپڑوں کو پاک رکھنے اور ہر طرح کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی ناپاکی سے دور رہنے کا حکم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ سے تعلق، ہدایت اور روحانی ارتقا کا سفر طہارت اور پاکیزگی سے شروع ہوتا ہے جبکہ گندگی تعفن اورغلاظت شیطانی صفات ہیں اور ان سے گمراہی ، ضلالت اور روحانی تنزل کا سفر شروع ہوتا ہے۔
وُضُوْ، وَضَائَة سے ہے جس کے معنی نکھار اور حسن و نظافت کے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی کے سامنے حاضری کی تیاری یہی ہے کہ انسان نجس نہ ہو، طہارت کی حالت میں ہو اور مسنون طریقہ وضو سے اپنی حالت کو درست کرے اور خود کو سنوارے۔ وضوسے جس طرح ظاہری اعضاء صاف اور خوبصورت ہوتے ہیں، اسی طرح روحانی طور پر بھی انسان صاف ستھرا ہو کر نکھر جاتا ہے۔ ہر عضو کو دھونے سے جس طرح ظاہری کثافت اور میل دور ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ تمام گناہ بھی دھل جاتے ہیں جوان اعضاء کے ذریعے سے سرزد ہوئے ہوں ۔
مومن زندگی بھر اپنے رب کے سامنے حاضری کے لیے وضو کے ذریعے سے جس وَضَائَةَ کا اہتمام کرتا ہے قیامت کے روز وہ مکمل صورت میں سامنے آئے گی اور مومن غَرُّ مُعُجَّلُونَ (چمکتے ہوئے روشن چہروں اور چمکتے ہوئے ہاتھ پاؤں والے) ہوں گے۔
نظافت اور جمال کی یہ صفت تمام امتوں میں مسلمانوں کو ممتاز کرے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ماہرین صحت جسمانی صفائی کے حوالے سے وضو کے طریقے پرتعجب آمیر تحسین کا اظہار کرتے ہیں ۔ اسلام کی طرح اس کی عبادات بھی بیک وقت دنیا و آخرت اور جسم و روح کی بہتری کی ضامن ہیں۔ الله تعالی کے سامنے حاضری اور مناجات کی تیاری کی یہ صورت ظاہری اور معنوی طور پر انتہائی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے لیے آسان بھی ہے۔ جب وضو ممکن نہ ہو تو اس کا قائم مقام تیمم ہے، یعنی ایسی کوئی بھی صورت حال پیش نہیں آتی جس میں انسان اس حاضری کے لیے تیاری نہ کر سکے۔
خالد بن عبد اللہ نےعمرو بن یحییٰ بن عمارہ سے، انہوں نے اپنے والد (یحییٰ بن عمارہ) سے، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم انصاری ؓ سے روایت کی (انہیں شرف صحبت حاصل تھا)، (یحییٰ بن عمارہ نے) کہا:حضرت عبد اللہ بن زیدؓ سے کہا گیا: ہمیں رسول اللہ ﷺ کا (سا) وضو کر کے دکھائیں! اس پر انہوں نے پانی کا ایک برتن منگوایا، اسے جھکا کر اس میں سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی انڈیلا اور انہیں تین بار دھویا، پھر اپنا ہاتھ ڈال کر پانی نکالا اور ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی کھینچا، یہ تین بار کیا، پھر اپنا ہاتھ ڈال کر پانی نکالا اور اپنا چہرہ تین بار دھویا، پھر اپنا ہاتھ ڈال کر پانی نکالا اور اپنے بازو کہنیوں تک دو دو بار دھوئے، (تاکہ امت کو معلوم ہو جائے کہ کسی عضو کو دوبار دھونا بھی جائز ہے) پھر ہاتھ ڈال کر پانی نکالا اور اپنے سر کا مسح کیا اور (آپ) اپنے دونوں ہاتھ (سر پر) آگے سے پیچھے کو اور پیچھے سے آگے کو لائے، (ایک طرف مسح کرنا اور اسی ہاتھ کو دوبارہ واپس لانامستحب ہے) پھر دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے، پھرکہا: ’’رسول اللہ ﷺ کا وضو اسی طرح تھا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم انصاریؓ (جسے شرفِ رفاقت حاصل ہے) ان سے کسی نے کہا: ہمیں رسول اللہ ﷺ کا وضو کر کے دکھائیں! تو انھوں نے پانی کا برتن منگوایا اور اس سے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا اور انھیں تین دفعہ دھویا، پھر (برتن میں) اپنا ہاتھ ڈال کر نکالا اور ایک ہتھیلی سے کلی کی اور ناک میں پانی کھینچا۔ یہ کام تین دفعہ کیا، پھر اپنا ہاتھ ڈال کر (برتن میں سے) نکالا اور اپنا چہرہ تین دفعہ دھویا، پھر برتن میں اپنا ہاتھ ڈال کر نکالا اور اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دو دو دفعہ دھوئے، پھر برتن میں ہاتھ ڈال کر اس سے پانی نکالا اور اپنے سر کا مسح کیا۔ اپنے دونوں ہاتھ آگے سے پیچھے کو اور پیچھے سے آگے لائے، پھر دونوں پاؤں ٹخنوں سمیت دھوئے، پھر کہا: ’’رسول اللہﷺ ایسے ہی وضو کیا کرتے تھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1) أَكْفَأَ مِنْهَا: اس کو جھکایا، اس سے پانی ڈالا۔ (2)اسْتَنْشَقَ:نشق سے ہے، جس کا معنی ہے، سونگھنا، مقصد ناک میں پانی چڑھانا، ناک میں پانی ڈالنا۔ (3) أَقْبَلَ: آگے سے شروع کیا اور دبر اس کے برعکس ہے۔ یعنی پیچھے سے شروع کیا ہے۔
فوائد ومسائل:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوا، آپ ﷺ ایک ہی چلو سے کلی بھی کرتے اورناک میں پانی بھی چڑھاتے تھے اور بہتر طریقہ یہی ہے۔ علماء نے اس کےپانچ طریقے لکھے ہیں:
(1) ایک چلو لے کر اس سے تین مرتبہ کلی کرے اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالے۔ (2) ایک چلو میں پانی لے اور اس سے تین دفعہ پہلے کلی کرے، پھر تین دفعہ ناک میں پانی ڈالے۔ (3)تین دفعہ چلو میں پانی لے اور ہر دفعہ کلی کرے اور ناک میں پانی ڈالے۔(4) پہلے ایک چلو سے تین دفعہ کلی کرے، پھر دوسرے چلو سے تین دفعہ ناک میں پانی ڈالے۔(5) ہر چلو سے صرف ایک کام کرے پہلے تین چلوؤں سے تین دفعہ کلی کرے، پھر تین چلوؤں سے تین دفعہ ناک میں پانی ڈالے۔ اس حدیث سے تیسرا طریقہ ثابت ہوتا ہے، کہ تین چلوؤں سے دونوں کام یک بار کرے۔ (2) بعض اعضاء کو دو دفعہ اور بعض کو تین دفعہ دھونا بھی جائز ہے، آپ نے ہاتھ کہنیوں سمیت دو دفعہ دھوئے، چہرہ اور صرف ہاتھ شروع میں تین دفعہ ہوئے۔ (3) سر کے مسح میں ہاتھ (دونوں) سامنے سے پیچھے کی طرف، پھر پیچھے سے آگے کی طرف لانا اس بات کی دلیل ہے، کہ مسح پورے سر کا کیا جائے گا۔ اس کے افضل وبہتر ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، فرضیت اور وجوب میں اختلاف ہے۔ (4) سر کا مسح ایک دفعہ کیا، اس لیے اس میں تعداد کا ذکر نہیں کیا، دوسرے اعضاء کے لیے مرتین اور ثلاثا کا ذکر ہے، اور اس حدیث میں پاؤں کے دھونے میں بھی عدد مذکور نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah bin Zaid bin 'Asim al-Ansari (RA), who was a Companion (of the Holy Prophet), reported: It was said to him (by people): Perform for us the ablution (as it was performed) by the Messenger of Allah (ﷺ) . He ('Abdullah bin Zaid) called for a vessel (of water), and poured water from it on his hands and washed them three times. Then he inserted his hand (in the vessel) and brought it (water) out, rinsed his mouth and snuffed up water from the palm of one hand doing that three times, He again inserted his hand and brought it out and washed his face three times, then inserted his hand and brought it out and washed each arm up to the elbow thrice, then inserted his hand and brought it out and wiped his head both front and back with his hands. He then washed his feet up to the ankles, and then said: This is how God's Messenger (peace be upon him) performed ablution.