قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةَ (بَابُ قَضَاءِ الصَّلَاةِ الْفَائِتَةِ، وَاسْتِحْبَابِ تَعْجِيلِ قَضَائِهَا)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

682. وَحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ صَخْرٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ زَرِيرٍ الْعُطَارِدِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيَّ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسِيرٍ لَهُ، فَأَدْلَجْنَا لَيْلَتَنَا، حَتَّى إِذَا كَانَ فِي وَجْهِ الصُّبْحِ عَرَّسْنَا، فَغَلَبَتْنَا أَعْيُنُنَا حَتَّى بَزَغَتِ الشَّمْسُ، قَالَ: فَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ مِنَّا أَبُو بَكْرٍ، وَكُنَّا لَا نُوقِظُ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ مَنَامِهِ إِذَا نَامَ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ عُمَرُ، فَقَامَ عِنْدَ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ يُكَبِّرُ، وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ حَتَّى اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ، وَرَأَى الشَّمْسَ قَدْ بَزَغَتْ، قَالَ: «ارْتَحِلُوا»، فَسَارَ بِنَا حَتَّى إِذَا ابْيَضَّتِ الشَّمْسُ نَزَلَ فَصَلَّى بِنَا الْغَدَاةَ، فَاعْتَزَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لَمْ يُصَلِّ مَعَنَا، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا فُلَانُ ‍‍ مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَنَا؟» قَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَيَمَّمَ بِالصَّعِيدِ، فَصَلَّى، ثُمَّ عَجَّلَنِي فِي رَكْبٍ بَيْنَ يَدَيْهِ نَطْلُبُ الْمَاءَ، وَقَدْ عَطِشْنَا عَطَشًا شَدِيدًا، فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ إِذَا نَحْنُ بِامْرَأَةٍ سَادِلَةٍ رِجْلَيْهَا بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ، فَقُلْنَا لَهَا: أَيْنَ الْمَاءُ؟ قَالَتْ: أَيْهَاهْ أَيْهَاهْ، لَا مَاءَ لَكُمْ، قُلْنَا: فَكَمْ بَيْنَ أَهْلِكِ وَبَيْنَ الْمَاءِ؟ قَالَتْ: مَسِيرَةُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، قُلْنَا: انْطَلِقِي إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَمَا رَسُولُ اللهِ؟ فَلَمْ نُمَلِّكْهَا مِنْ أَمْرِهَا شَيْئًا حَتَّى انْطَلَقْنَا بِهَا، فَاسْتَقْبَلْنَا بِهَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهَا، فَأَخْبَرَتْهُ مِثْلَ الَّذِي أَخْبَرَتْنَا، وَأَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا مُوتِمَةٌ لَهَا صِبْيَانٌ أَيْتَامٌ، فَأَمَرَ بِرَاوِيَتِهَا فَأُنِيخَتْ فَمَجَّ فِي الْعَزْلَاوَيْنِ الْعُلْيَاوَيْنِ، ثُمَّ بَعَثَ بِرَاوِيَتِهَا، فَشَرِبْنَا وَنَحْنُ أَرْبَعُونَ رَجُلًا عِطَاشٌ حَتَّى رَوِينَا، وَمَلَأْنَا كُلَّ قِرْبَةٍ مَعَنَا وَإِدَاوَةٍ، وَغَسَّلْنَا صَاحِبَنَا، غَيْرَ أَنَّا لَمْ نَسْقِ بَعِيرًا، وَهِيَ تَكَادُ تَنْضَرِجُ مِنَ الْمَاءِ - يَعْنِي الْمَزَادَتَيْنِ - ثُمَّ قَالَ: «هَاتُوا مَا كَانَ عِنْدَكُمْ»، فَجَمَعْنَا لَهَا مِنْ كِسَرٍ وَتَمْرٍ، وَصَرَّ لَهَا صُرَّةً، فَقَالَ لَهَا: «اذْهَبِي فَأَطْعِمِي هَذَا عِيَالَكِ، وَاعْلَمِي أَنَّا لَمْ نَرْزَأْ مِنْ مَائِكِ»، فَلَمَّا أَتَتْ أَهْلَهَا قَالَتْ: لَقَدْ لَقِيتُ أَسْحَرَ الْبَشَرِ، أَوْ إِنَّهُ لَنَبِيٌّ كَمَا زَعَمَ، كَانَ مِنْ أَمْرِهِ ذَيْتَ وَذَيْتَ، فَهَدَى اللهُ ذَاكَ الصِّرْمَ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ، فَأَسْلَمَتْ وَأَسْلَمُوا

مترجم:

682.

سلم بن زریر عطاری نے کہا: میں نے ابو رجاء عطاری سے سنا، وہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کر رہے تھے، کہا: میں نبی ﷺ کے ایک سفر میں آپﷺ کے ہمراہ تھا، ہم اس رات چلتے رہے حتی کہ جب صبح قریب آئی تو ہم (تھکاوٹ کے سبب) اتر پڑے، ہم پر (نیند میں ڈوبی) آنکھیں غالب آ گئیں یہاں تک کہ سورج چمکنے لگا۔ ہم میں جو سب سے پہلے بیدار ہوئے وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ جب نبیﷺ سو جاتے تو ہم آپ ﷺ کو جگایا نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ ﷺ خود بیدار ہو جاتے، پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جاگے ، وہ اللہ کے نبی ﷺ کے قریب کھڑے ہو گے اور اللہ اکبر پکارنے لگے اور (اس) تکبیر میں آواز اونچی کرنے لگے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ بھی جاگ گئے، جب آپﷺنے سر اٹھایا اور دیکھا کہ سورج چمک رہا ہے تو فرمایا: ’’(آگے )چلو۔‘‘ آپ ﷺ ہمیں لے کر چلے یہاں تک کہ سورج (روشن) ہو کر سفید ہو گیا، آپﷺ اترے، ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ لوگوں میں سے ایک آدمی الگ ہو گیا اور اس نے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھی، جب سلام پھیرا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا: ’’فلاں! تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟‘‘ اس نے کہا: اے اللہ کے نبیﷺ! مجھے جنابت لاحق ہو گی ہے۔ آپﷺنے اسے حکم دیا۔ اس نے مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھی، پھرآپﷺنے مجھے چند سواروں سمیت پانی کی تلاش میں جلدی اپنے آگے روانہ کیا، ہم سخت پیاسے تھے، جب ہم چل رہے تھے تو ہمیں ایک عورت ملی جس نے اپنے پاؤں دو مشکوں کے درمیان لٹکا رکھے تھے (بڑی مشکوں سمیت پاؤں لٹکائے، اونٹ پر سوار تھی) ہم نے اس سے پوچھا: پانی کہاں ہے؟ کہنے لگی: افسوس! تمہارے لیے پانی نہیں ہے۔ ہم نے پوچھا: تمہارے گھر اور پانی کے دریمان کتنا فاصلہ ہے؟ اس نے کہا: ایک دن اور رات کی مسافت ہے۔ ہم نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ کے پاس چلو۔ کہنے لگی: اللہ کا رسول کیا ہوتا ہے؟ ہم نے اسے اس کے معاملے میں (فیصلےکا) کچھ اختیار نہ دیا حتی کہ اسے لے آئےاس کے ساتھ ہم رسول اللہ ﷺکے سامنے حاضر ہوئے، آپﷺ نے اس سے پوچھا تو اس نے آپکو اسی طرح بتایا جس طرح ہمیں بتایا تھا، اور آپﷺ کو یہ بھی بتایا کہ وہ یتیم بچوں والی ہے، اس کے (زیر کفالت) بہت سے یتیم بچے ہیں۔ آپﷺ نے اس کی پانی ڈھونے والی اونٹنی کے بارے میں حکم دیا، اسے بھٹا دیا گیا اور آپﷺ نے کلی کر کے مشکوں کے اوپر کے دونوں سوراخوں میں پانی ڈالا، پھر آپﷺ نے اس کی اونٹنی کوکھڑا کیا تو ہم سب نے اور ہم چالیس (شدید) پیاسے افراد تھے (ان مشکوں سے) پانی پیا یہاں تک کہ ہم سیراب ہو گے اور ہمارے پاس جتنی مشکیں اور پانی کے برتن تھے سب بھر لیے اور اپنے ساتھی کو غسل بھی کرایا، البتہ ہم نے کسی اونٹ کو پانی نہ پیلایا اور وہ یعنی دونوں مشکیں پانی (کی مقدار زیادہ ہو جانے کے سبب) پھٹنے والی ہو گیئں، پھر آپﷺ نے فرمایا:’’تمہارے پاس جو کچھ ہے لے آؤ۔‘‘ ہم نے ٹکڑے اور کھجوریں اکٹھی کیں، اس کے لیے ایک تھیلی کا منہ بند کر دیا گیا تو آپ، نےاس سے کہا: ’’جاؤ اور یہ خوراک اپنے بچوں کو کھلاؤ اور جان لو! ہم نے تمہارے پانی میں کمی نہیں۔‘‘ جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس پہنچی تو کہا: میں انسانوں کے سب سے بڑے ساحر سے مل کر آئی ہوں یا پھر جس طرح کہ وہ خود کو سمجھتا ہے، وہ نبی ہے، اور اس کا معاملہ اس اس طرح سے ہے۔ پھر (آخر کار) اللہ نے اس عورت کے سبب سے لوگوں سے کٹی ہوئی اس آبادی کو ہدایت عطا کر دی، وہ مسلمان ہو گی اور (باقی) لوگ بھی مسلمان ہو گے۔ (یہ پچھلے واقعے سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ ہے۔)