صحیح مسلم
4. کتاب: حیض کا معنی و مفہوم
3. باب: خصوصی ایام میں عورت کے لیےجائز ہے کہ وہ اپنے خاوند کا سر دھوئے اور اسے کنگھی کرے، اس کا جھوٹا پا ک ہے ، اس کی گود میں سر رکھنا اور اس (عالم) میں قرآن پڑھنا جائز ہے
صحيح مسلم
4. كتاب الحيض
3. بَابُ جَوَازِ غُسْلِ الْحَائِضِ رَأْسَ زَوْجِهَا وَتَرْجِيلِهِ وَطَهَارَةِ سُؤْرِهَا وَالَاتِّكَاءِ فِي حِجْرِهَا وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فِيهِ
Muslim
4. The Book of Menstruation
3. Chapter: It is permissible for a menstruating woman to wash her husband’s head, and comb his hair; her leftovers are pure (tahir); and regarding reclining in her lap and reciting Qur’an
باب: خصوصی ایام میں عورت کے لیےجائز ہے کہ وہ اپنے خاوند کا سر دھوئے اور اسے کنگھی کرے، اس کا جھوٹا پا ک ہے ، اس کی گود میں سر رکھنا اور اس (عالم) میں قرآن پڑھنا جائز ہے
)
Muslim:
The Book of Menstruation
(Chapter: It is permissible for a menstruating woman to wash her husband’s head, and comb his hair; her leftovers are pure (tahir); and regarding reclining in her lap and reciting Qur’an)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
711.
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سےروایت ہے کہ یہودی، جب ان کی کوئی عورت حائضہ ہوتی تو نہ وہ اس کے ساتھ کھانا کھاتے اور نہ اس کے ساتھ گھر ہی میں اکٹھے رہتے۔ چنانچہ نبی اکرمﷺ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے آپﷺ سے اس بارے میں پوچھا، اس پر اللہ تعالیٰ نےآیت تاری: ’’یہ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپﷺ فرما دیجیے، یہ اذیت (کا وقت) ہے، اس لیے محیض (مقام حیض) میں عورتوں (کے ساتھ مجامعت) سے دور ہو‘‘ آخر تک۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جماع کے سوا سب کچھ کرو۔‘‘ یہودیوں تک یہ بات پہنچی تو کہنے لگے: یہ آدمی ہمارے دین کی ہر بات کی مخالفت ہی کرنا چاہتا ہے۔ (یہ سن کر) اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ تعالی عنہما رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دونوں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! یہود اس اس طرح کہتے ہیں تو کیا ہم ان (عورتوں) سے جماع بھی نہ کر لیا کریں؟ اس پر رسول اللہ ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا حتی کہ ہم نے سمجھا کہ آپﷺ دونوں سے ناراض ہو گئے ہیں۔ وہ دونوں نکل گئے، آگے سے رسول اللہ ﷺ کے لیے دودھ کا ہدیہ آ رہا تھا، آپﷺ نے کسی کو ان کے پیچھے بھیجا اور ان کو (بلوا کر) دودھ پلایا، وہ سمجھ گئے کہ آپﷺ ان سے ناراض نہیں ہوئے۔
حیض : وہ خون ہے جو بلوغت سے لے کر سن یاس تک عورت کو تقریبا چار ہفتے کے وقفے سے ہر ماہ آتا ہے اور دوران حمل اور عموما رضاعت کے زمانے میں بند ہو جاتا ہے۔ ایک حیض سے لے کر دوسرے حیض تک کے عرصے کو شریعت میں ’’طُهْر‘‘ کہتے ہیں۔
اسلام سے پہلے زیادہ تر انسانی معاشرے اس حوالے سے جہالت اور توہمات کا شکار تھے۔ یہودان ایام میں عورت کو انتہائی نجس اور غلیظ سمجھتے۔ جس چیز کو اس کا ہاتھ لگتا اسے بھی پلید سمجھتے ۔ اسے سونے کے کمروں اور باورچی خانے وغیرہ سے دور رہنا پڑتا۔ نصاریٰ بھی مذہبی طور پر یہودیوں سے متفق تھے۔ ان کے ہاں بھی حیض کے دوران میں عورت انتہائی نجس تھی اور جو کوئی اس کو چھو لیتا وہ بھی نجس سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ان کی اکثریت عملا عہد نامہ قدیم کے احکامات پرعمل نہ کرتی تھی بلکہ وہ دوسری انتہا پر تھی۔ عام عیسائی اس دوران میں بھی عورتوں سے مقاربت کر لیتے تھے۔
صحابہ کرام نے اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا۔ اس کے جواب میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی:﴿ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ﴾ ’’اور (لوگ) آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ بتا دیجیے یہ اذیت ( کا زمانہ ہے)، اس لیے محیض (زمانہ حیض یا جہاں سے حیض کے خون کا اخراج ہوتا ہے اس مقام میں) عورتوں سے( جماع کرنے سے) دور رہو اور ان سے مقاربت نہ کرو یہاں تک کہ وہ حالت طہر میں آجائیں (حیض کے ایام ختم ہو جائیں)، پھر جب وہ پاک صاف ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ، جہاں سے اللہ نے تمھیں حکم دیا ہے، اللہ (اپنی طرف) رجوع کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔“ ((البقرۃ 222:2) اس آیت میں اللہ تعالی نے محیض کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یہ مصدر بھی ہے اور اسم ظرف بھی۔ مصدر ہو تو وہی معنی ہیں جو حیض کے ہیں، لیکن مخصوص ایام میں عورتوں کو خون آنا، یعنی اس کے دوران احتراز کرو۔ اسم ظرف ہو تو ظرف زمانی کی حیثیت سے معنی ہوں گے: حیض کا زمانہ مفہوم یہ ہو گا کہ حیض کے دنوں میں بیویوں کے ساتھ جنسی مقاربت ممنوع ہے۔ ظرف مکان کی حیثیت سےمحیض سے مراد وہ جگہ ہوگی جہاں سے حیض کے خون کا اخراج ہوتا ہے۔ ظرف مکان مراد لیتے ہوئے لسان العرب میں اس آیت کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے:ان المحيض فى هذاالاية الماتى من المراة لانه موضع الحيض فكانه قال:اعتزلوا النساءفى موضع الحيض ،لاتجامعوهن فى ذلك المكان.
اس آیت میں محیض سے عورت کے جسم )کا وہ حصہ مراد ہے جہاں مجامعت کی جاتی ہے کیونکہ یہی حیض ( کے اخراج کی (بھی) جگہ ہے۔ گویا یہ فرمایا: حیض ( کے اخراج) کی جگہ میں عورتوں( کے ساتھ مباشرت) سے دور رہو، اس جگہ ان کے ساتھ جماع نہ کرو۔‘‘
حیض کا جو بھی معنی میں مفہوم یہی ہے کہ ان دنوں میں بیویوں سے صنفی تعلقات سے پرہیز کیا جائے لیکن، اس باب کی احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو ساتھ رکھا جائے، ان کی طرف التفات اور توجہ کو برقرار رکھا جائے۔
قرآن نے عورتوں کی اس فطری حالت کے بارے میں تمام جاہلانہ افکار کی تردید کر دی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے فطری
معاملہ ہونے کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا: «هذا شيء كتبه الله على بنات آدم) (صحيح البخارى ،الحيض ،باب كيف كان بدءالحيض ،قبل الحديث:294)یہ ایسی چیز ہے کہ آدم کی بیٹیوں کے بارے میں اللہ نے اس کا فیصلہ فرمایا ہے۔‘‘ قرآن کے الفاظ( و هو اذی )کے معنی ہیں: یہ ادنی اذیت (کم درجے کی تکلیف کا زمانہ)ہے۔ عورت کو یہ اذیت جسمانی تبدیلیوں ، نفسیاتی کیفیت، ناپاک خون اور اس کی بدبو کی وجہ سے پہنچتی ہے۔ اسلام نے اس فطری تکلیف کے زمانے میں عورتوں کو سہولت دیتے ہوئے نماز معاف کر دی اور رمضان کے روزے کے لیے وہی سہولت دی جو مریض کو دی جاتی ہے۔ یعنی ان دنوں میں وہ روزہ نہ رکھے اور بعد میں اپنے روزے پورے کر لے۔
موجودہ میڈیکل سائنس نے بھی اب اسی بات کی شہادت مہیا کر دی ہے کہ ان دنوں میں خواتین بے آرامی، اضطراب اور ہلکی تکلیف کا شکار رہتی ہیں ۔ سنجیدہ قسم کے فرائض ادا کرنے میں انھیں دقت پیش آتی ہے، اس لیے جہاں وہ ملازمت کرتی ہیں ان اداروں کا فرض ہے کہ ان ایام میں عورتوں کے فرائض کی ادائیگی میں سہولت مہیا کریں۔ وہ سہولت کیا ہو؟ روشن خیالی اور حقوق نسواں کا لحاظ کرنے کے دعووں کے باوجود مغربی تہذیب ابھی تک ایسی کسی سہولت کے بارے میں سوچنے سے معذور ہے جبکہ اسلام نے ، جودین فطرت ہے، پہلے ہی ان کے فرائض میں تخفیف کر دی۔
تکلیف اور اضطراب کی اس حالت میں گھر کے دوسرے افراد بالخصوص خاوند کی طرف سے کراہت اور نفرت کا اظہار نفسیاتی طور پر عورت کے لیے شدید تکلیف اور پریشانی کا باعث بن جاتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے خلاف یہودیوں اور دیگر جاہل معاشروں کے ظالمانہ رویے کا ازالہ کیا اور یہ اہتمام فرمایا کہ خاوند کے ساتھ اس کے جنسی تعلقات تو منقطع ہو جائیں، کیونکہ وہ عورت کے لیے مزید تکلیف کا سبب بن سکتے ہیں، لیکن عورت اس دوران میں باقی معاملات میں گھر والوں بالخصوص خاوند کی بھر پور توجہ اور محبت کا مرکز رہے۔ صحیح مسلم کی کتاب الحیض کے آغاز کے ابواب میں اس اہتمام کی تفصیلات مذکور ہیں۔
آگے کے ابواب میں مردوں اور عورتوں کے نجی زندگی کے مختلف احوال کے دوران میں عبادت کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ عورتوں کے خصوصی ایام کے ساتھ متصل یا ملتی جلتی بعض بیماریوں اور ولادت کے عرصے کے دوران میں طہارت کے مسائل بھی کتاب الحیض کا حصہ ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سےروایت ہے کہ یہودی، جب ان کی کوئی عورت حائضہ ہوتی تو نہ وہ اس کے ساتھ کھانا کھاتے اور نہ اس کے ساتھ گھر ہی میں اکٹھے رہتے۔ چنانچہ نبی اکرمﷺ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے آپﷺ سے اس بارے میں پوچھا، اس پر اللہ تعالیٰ نےآیت تاری: ’’یہ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپﷺ فرما دیجیے، یہ اذیت (کا وقت) ہے، اس لیے محیض (مقام حیض) میں عورتوں (کے ساتھ مجامعت) سے دور ہو‘‘ آخر تک۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جماع کے سوا سب کچھ کرو۔‘‘ یہودیوں تک یہ بات پہنچی تو کہنے لگے: یہ آدمی ہمارے دین کی ہر بات کی مخالفت ہی کرنا چاہتا ہے۔ (یہ سن کر) اسید بن حضیر اور عباد بن بشر رضی اللہ تعالی عنہما رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دونوں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! یہود اس اس طرح کہتے ہیں تو کیا ہم ان (عورتوں) سے جماع بھی نہ کر لیا کریں؟ اس پر رسول اللہ ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا حتی کہ ہم نے سمجھا کہ آپﷺ دونوں سے ناراض ہو گئے ہیں۔ وہ دونوں نکل گئے، آگے سے رسول اللہ ﷺ کے لیے دودھ کا ہدیہ آ رہا تھا، آپﷺ نے کسی کو ان کے پیچھے بھیجا اور ان کو (بلوا کر) دودھ پلایا، وہ سمجھ گئے کہ آپﷺ ان سے ناراض نہیں ہوئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ یہودی جب ان کی کوئی عورت حائضہ ہوتی، تو وہ نہ اس کے ساتھ کھانا کھاتے اور نہ ان کے ساتھ ان کے گھروں میں اکٹھے رہتے، تو نبی اکرم ﷺ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے آپﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت اتاری ”یہ آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ فرما دیجیے حیض پلیدی ہے، تو حیض کے دنوں میں ان سے الگ رہو۔‘‘ آخر تک (سورة بقرة:۲۲۲) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جماع کے سوا (ہر چیز) سب کچھ کرو۔‘‘ یہودیوں تک یہ بات پہنچی تو کہنے لگے، یہ شخص ہر بات میں ہماری مخالفت کرنا چاہتا ہے (یہ سن کر) اسید بن حضیر اور عباس بن بشر رضی اللہ تعالی عنہما رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! یہود ایسا ایسا کہتے ہیں، تو کیا ہم ان سے جماع بھی نہ کریں؟ اس پر رسول اللہ ﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، حتیٰ کہ ہم نے سمجھا کہ آپﷺ دونوں پر ناراض ہوگئے ہیں، تو وہ دونوں نکل گئے، آگے سے رسول اللہ ﷺ کے لیے دودھ کا تحفہ آ رہا تھا، آپﷺ نے ان کے پیچھے ایلچی بھیجا (اور ان کو بلوا کر) دونوں کو دودھ پلایا، تو وہ سمجھ گئے، آپﷺ ان پر ناراض نہیں ہیں۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
1۔ معتکف مسجد سے ضرورت کے تحت، ہاتھ، پیر یا سر نکال سکتا ہے۔ 2۔ اگر مسجد میں قضائے حاجت کا انتظام نہ ہو اور باہر دور جانا پڑتا ہو گھر قریب ہو تو قضائے حاجت کے لیے گھر جا سکتا ہے۔ 3۔ راستہ سے گزرتے گزرتے بیمار کی بیمار پرسی کر سکتا ہے۔ 4۔ عورت کا حیض کی حالت میں سارا جسم پلید نہیں ہو جاتا، اس لیے وہ گھر کا کام کاج کر سکتی ہے خاوند کا سر دھو کر اس میں کنگھی کر سکتی ہے مسجد سے باہرکھڑے ہو کر مسجد میں کھڑے ہوئے محرم کو کوئی چیز پکڑا سکتی ہے۔ 5۔ حائضہ کی گود میں سر رکھ کر قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر واذکار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ 6۔ بیوی سے محبت وپیار کے اظہار کے لیے اس کے کھانے پینے کی جگہ سے کھایا پیا جا سکتا ہے اور اس کا حیض کی صورت میں منہ پلید نہیں ہوتا۔ 7۔ خاص تعلقات کے سوا، میاں بیوی کے باقی معاملات حیض سے متاثر نہیں ہوتے۔ 8۔ اہل کتاب کی مخالفت شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے ہو گی، مخالفت کے جوش میں شرعی حدود سے تجاوز نہیں کیا جائے گا۔ ﴿فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ﴾ کا مقصد تعلقات زن وشوہر سے اجتناب کرنا ہے، ان سے بالکل الگ تھلگ ہو جانا مراد نہیں ہے کہ انسان بیوی کے ساتھ اٹھ بیٹھ نہ سکے اور نہ اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھا سکے اور کمرے الگ الگ ہو جائیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Thabit narrated it from Anas (RA) : Among the Jews, when a woman menstruated, they did not dine with her, nor did they live with them in their houses; so the Companions of the Apostle (ﷺ) asked The Apostle (ﷺ) , and Allah, the Exalted revealed: "And they ask you about menstruation; say it is a pollution, so keep away from woman during menstruation" to the end (Qur'an, ii. 222). The Messenger of Allah (ﷺ) said: Do everything except intercourse. The Jews heard of that and said: This man does not want to leave anything we do without opposing us in it. Usaid bin Hudair and Abbad bin Bishr came and said: Messenger of Allah, the Jews say such and such thing. We should not have, therefore, any contact with them (as the Jews do). The face of the Messenger of Allah (ﷺ) underwent such a change that we thought he was angry with them, but when they went out, they happened to receive a gift of milk which was sent to the Apostle of Allah (ﷺ) . He (the Holy Prophet) called for them and gave them drink, whereby they knew that he was not angry with them