باب: حائضہ کے لیے روزے کی قضا واجب ہے ، نماز کی نہیں
)
Muslim:
The Book of Menstruation
(Chapter: A menstruating woman is obliged to make up missed fasts but not prayers)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
780.
عاصم نے معاذہ سے روایت کیا، انہوں نے کہا: میں نے عائشہ ؓ رضی اللہ تعالی عنہا سے سوال کیا، میں نے کہا: حائضہ عورت کا یہ حال کیوں ہے کہ وہ روزوں کی قضا دیتی ہے نماز کی نہیں؟ انہوں نے فرمایا: کیا تم حروریہ ہو؟ میں نے عرض کیا: میں حروریہ نہیں، (صرف) پوچھنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے فرمایا: ہمیں بھی حیض آتا تھا تو ہمیں روزوں کی قضا دینے کا حکم دیا جاتا تھا، نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔
حیض : وہ خون ہے جو بلوغت سے لے کر سن یاس تک عورت کو تقریبا چار ہفتے کے وقفے سے ہر ماہ آتا ہے اور دوران حمل اور عموما رضاعت کے زمانے میں بند ہو جاتا ہے۔ ایک حیض سے لے کر دوسرے حیض تک کے عرصے کو شریعت میں ’’طُهْر‘‘ کہتے ہیں۔
اسلام سے پہلے زیادہ تر انسانی معاشرے اس حوالے سے جہالت اور توہمات کا شکار تھے۔ یہودان ایام میں عورت کو انتہائی نجس اور غلیظ سمجھتے۔ جس چیز کو اس کا ہاتھ لگتا اسے بھی پلید سمجھتے ۔ اسے سونے کے کمروں اور باورچی خانے وغیرہ سے دور رہنا پڑتا۔ نصاریٰ بھی مذہبی طور پر یہودیوں سے متفق تھے۔ ان کے ہاں بھی حیض کے دوران میں عورت انتہائی نجس تھی اور جو کوئی اس کو چھو لیتا وہ بھی نجس سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ان کی اکثریت عملا عہد نامہ قدیم کے احکامات پرعمل نہ کرتی تھی بلکہ وہ دوسری انتہا پر تھی۔ عام عیسائی اس دوران میں بھی عورتوں سے مقاربت کر لیتے تھے۔
صحابہ کرام نے اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا۔ اس کے جواب میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی:﴿ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّـهُ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ﴾ ’’اور (لوگ) آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ بتا دیجیے یہ اذیت ( کا زمانہ ہے)، اس لیے محیض (زمانہ حیض یا جہاں سے حیض کے خون کا اخراج ہوتا ہے اس مقام میں) عورتوں سے( جماع کرنے سے) دور رہو اور ان سے مقاربت نہ کرو یہاں تک کہ وہ حالت طہر میں آجائیں (حیض کے ایام ختم ہو جائیں)، پھر جب وہ پاک صاف ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ، جہاں سے اللہ نے تمھیں حکم دیا ہے، اللہ (اپنی طرف) رجوع کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔“ ((البقرۃ 222:2) اس آیت میں اللہ تعالی نے محیض کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ یہ مصدر بھی ہے اور اسم ظرف بھی۔ مصدر ہو تو وہی معنی ہیں جو حیض کے ہیں، لیکن مخصوص ایام میں عورتوں کو خون آنا، یعنی اس کے دوران احتراز کرو۔ اسم ظرف ہو تو ظرف زمانی کی حیثیت سے معنی ہوں گے: حیض کا زمانہ مفہوم یہ ہو گا کہ حیض کے دنوں میں بیویوں کے ساتھ جنسی مقاربت ممنوع ہے۔ ظرف مکان کی حیثیت سےمحیض سے مراد وہ جگہ ہوگی جہاں سے حیض کے خون کا اخراج ہوتا ہے۔ ظرف مکان مراد لیتے ہوئے لسان العرب میں اس آیت کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے:ان المحيض فى هذاالاية الماتى من المراة لانه موضع الحيض فكانه قال:اعتزلوا النساءفى موضع الحيض ،لاتجامعوهن فى ذلك المكان.
اس آیت میں محیض سے عورت کے جسم )کا وہ حصہ مراد ہے جہاں مجامعت کی جاتی ہے کیونکہ یہی حیض ( کے اخراج کی (بھی) جگہ ہے۔ گویا یہ فرمایا: حیض ( کے اخراج) کی جگہ میں عورتوں( کے ساتھ مباشرت) سے دور رہو، اس جگہ ان کے ساتھ جماع نہ کرو۔‘‘
حیض کا جو بھی معنی میں مفہوم یہی ہے کہ ان دنوں میں بیویوں سے صنفی تعلقات سے پرہیز کیا جائے لیکن، اس باب کی احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو ساتھ رکھا جائے، ان کی طرف التفات اور توجہ کو برقرار رکھا جائے۔
قرآن نے عورتوں کی اس فطری حالت کے بارے میں تمام جاہلانہ افکار کی تردید کر دی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے فطری
معاملہ ہونے کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا: «هذا شيء كتبه الله على بنات آدم) (صحيح البخارى ،الحيض ،باب كيف كان بدءالحيض ،قبل الحديث:294)یہ ایسی چیز ہے کہ آدم کی بیٹیوں کے بارے میں اللہ نے اس کا فیصلہ فرمایا ہے۔‘‘ قرآن کے الفاظ( و هو اذی )کے معنی ہیں: یہ ادنی اذیت (کم درجے کی تکلیف کا زمانہ)ہے۔ عورت کو یہ اذیت جسمانی تبدیلیوں ، نفسیاتی کیفیت، ناپاک خون اور اس کی بدبو کی وجہ سے پہنچتی ہے۔ اسلام نے اس فطری تکلیف کے زمانے میں عورتوں کو سہولت دیتے ہوئے نماز معاف کر دی اور رمضان کے روزے کے لیے وہی سہولت دی جو مریض کو دی جاتی ہے۔ یعنی ان دنوں میں وہ روزہ نہ رکھے اور بعد میں اپنے روزے پورے کر لے۔
موجودہ میڈیکل سائنس نے بھی اب اسی بات کی شہادت مہیا کر دی ہے کہ ان دنوں میں خواتین بے آرامی، اضطراب اور ہلکی تکلیف کا شکار رہتی ہیں ۔ سنجیدہ قسم کے فرائض ادا کرنے میں انھیں دقت پیش آتی ہے، اس لیے جہاں وہ ملازمت کرتی ہیں ان اداروں کا فرض ہے کہ ان ایام میں عورتوں کے فرائض کی ادائیگی میں سہولت مہیا کریں۔ وہ سہولت کیا ہو؟ روشن خیالی اور حقوق نسواں کا لحاظ کرنے کے دعووں کے باوجود مغربی تہذیب ابھی تک ایسی کسی سہولت کے بارے میں سوچنے سے معذور ہے جبکہ اسلام نے ، جودین فطرت ہے، پہلے ہی ان کے فرائض میں تخفیف کر دی۔
تکلیف اور اضطراب کی اس حالت میں گھر کے دوسرے افراد بالخصوص خاوند کی طرف سے کراہت اور نفرت کا اظہار نفسیاتی طور پر عورت کے لیے شدید تکلیف اور پریشانی کا باعث بن جاتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے خلاف یہودیوں اور دیگر جاہل معاشروں کے ظالمانہ رویے کا ازالہ کیا اور یہ اہتمام فرمایا کہ خاوند کے ساتھ اس کے جنسی تعلقات تو منقطع ہو جائیں، کیونکہ وہ عورت کے لیے مزید تکلیف کا سبب بن سکتے ہیں، لیکن عورت اس دوران میں باقی معاملات میں گھر والوں بالخصوص خاوند کی بھر پور توجہ اور محبت کا مرکز رہے۔ صحیح مسلم کی کتاب الحیض کے آغاز کے ابواب میں اس اہتمام کی تفصیلات مذکور ہیں۔
آگے کے ابواب میں مردوں اور عورتوں کے نجی زندگی کے مختلف احوال کے دوران میں عبادت کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ عورتوں کے خصوصی ایام کے ساتھ متصل یا ملتی جلتی بعض بیماریوں اور ولادت کے عرصے کے دوران میں طہارت کے مسائل بھی کتاب الحیض کا حصہ ہیں۔
عاصم نے معاذہ سے روایت کیا، انہوں نے کہا: میں نے عائشہ ؓ رضی اللہ تعالی عنہا سے سوال کیا، میں نے کہا: حائضہ عورت کا یہ حال کیوں ہے کہ وہ روزوں کی قضا دیتی ہے نماز کی نہیں؟ انہوں نے فرمایا: کیا تم حروریہ ہو؟ میں نے عرض کیا: میں حروریہ نہیں، (صرف) پوچھنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے فرمایا: ہمیں بھی حیض آتا تھا تو ہمیں روزوں کی قضا دینے کا حکم دیا جاتا تھا، نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
معاذہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے سوال کیا، کہ کیا وجہ ہے حائضہ روزہ کی قضائی دیتی ہے اور نماز کی قضائی نہیں دیتی؟ تو انہوں نے پوچھا: کیا تو حروریہ سے ہے؟ میں نے کہا، میرا حروریہ سے تعلق نہیں ہے، میں تو صرف پوچھنا چاہتی ہوں۔ تو انہوں نے جواب دیا: ہمیں بھی حیض آتا تھا تو ہمیں روزہ کی قضائی کا حکم دیا جاتا تھا، نماز کی قضائی کا نہیں۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
کسی مسئلہ کا حکم کیا ہے اس کا اصل دارومدار قرآن و سنت کی نصوص پر ہے اس کی حکمت اور مصلحت یا فلاسفی کیا ہے اس کا بتانا جاننا ضروری نہیں ہے کیونکہ اس کے بارے میں مختلف آراء ہو سکتی ہیں اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب میں صرف یہ کہا کہ ہمیں روزہ کی قضا کا حکم ملا ہے نماز کی قضاء کا حکم نہیں آئمہ دین عام طور پر اس فرق کی وجہ یا علت یہ بیان کرتے ہیں نمازیں ہر روز پڑھتی ہوتی ہیں اس لیے ان کی قضا و حرج اور تنگی کا باعث ہے جبکہ روزے صرف ایک ماہ میں رکھنے ہوتے ہیں باقی گیارہ مہینے روزے فرض نہیں ہیں اس لیے ان کی قضائی کسی دن بھی دی جا سکتی ہے۔ اس لیے یہ مشقت یا کلفت کا باعث نہیں ہے اگرچہ اس پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ نماز اپنے پورے وقت کا استیعاب نہیں کرتی اس لیے ایک وقت میں کئی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں اور روزہ پورے دن کا رکھنا ہوتا ہے اس لیے ایک دن میں ایک سے زائد روزہ رکھنا ممکن نہیں ہے نماز کے لیے طہارت ضروری ہے اور حیض و نفاس میں عورت پاکیزگی حاصل نہیں کر سکتی اس لیے اس پر نماز فرض نہیں ہے تو قضائی کیسے فرض ہو سکتی ہے اور روزہ کے لیے طہارت شرط نہیں ہے اس لیے حائضہ روزہ فرض سے تخفیف و آسانی کے لیے اس پر ادا کی بجائے قضا لازم ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Mu'adha said: I asked 'A'isha: What is the reason that a menstruating woman completes the fasts (that she abandons during her monthly course), but she does not complete the prayers? She (Hadrat 'A'isha) said: Are you a Haruriya? I said: I am not a Haruriya, but I simply want to inquire. She said: We passed through this (period of menstruation), and we were ordered to complete the fasts, but were not ordered to complete the prayers.