قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْكُسُوفِ (بَابُ مَا عُرِضَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ فِي صَلَاةِ الْكُسُوفِ مِنْ أَمْرِ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

905. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ فَاطِمَةَ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ خَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ وَهِيَ تُصَلِّي فَقُلْتُ مَا شَأْنُ النَّاسِ يُصَلُّونَ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا إِلَى السَّمَاءِ فَقُلْتُ آيَةٌ قَالَتْ نَعَمْ فَأَطَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِيَامَ جِدًّا حَتَّى تَجَلَّانِي الْغَشْيُ فَأَخَذْتُ قِرْبَةً مِنْ مَاءٍ إِلَى جَنْبِي فَجَعَلْتُ أَصُبُّ عَلَى رَأْسِي أَوْ عَلَى وَجْهِي مِنْ الْمَاءِ قَالَتْ فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتْ الشَّمْسُ فَخَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَكُنْ رَأَيْتُهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا حَتَّى الْجَنَّةَ وَالنَّارَ وَإِنَّهُ قَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا أَوْ مِثْلَ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ فَيُؤْتَى أَحَدُكُمْ فَيُقَالُ مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوْ الْمُوقِنُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ فَيَقُولُ هُوَ مُحَمَّدٌ هُوَ رَسُولُ اللَّهِ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى فَأَجَبْنَا وَأَطَعْنَا ثَلَاثَ مِرَارٍ فَيُقَالُ لَهُ نَمْ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ إِنَّكَ لَتُؤْمِنُ بِهِ فَنَمْ صَالِحًا وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوْ الْمُرْتَابُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُ

مترجم:

905.

ہمیں (عبداللہ) ابن نمیر نے حدیث بیان کی، کہا: ہم سے ہشام نے، انھوں نے (اپنی بیوی) فاطمہ (بنت منذر بن زبیر بن عوام) سے اور انھوں نے (اپنی دادی) حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے دور میں سورج کو گرہن لگ گیا، چنانچہ میں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں آئی اور وہ (ساتھ مسجد میں) نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے پوچھا: لوگوں کو کیا ہوا وہ (اس وقت) نماز پڑھ رہے ہیں؟ انھوں نے اپنے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ تو میں نے پوچھا: کوئی نشانی (ظاہر ہوئی) ہے؟ انھوں نے (اشارے سے) بتایا: ہاں، تو رسول اللہ ﷺ نے قیام کو بہت زیادہ لمبا کی حتیٰ کہ مجھ پر غشی طاری ہونے لگی، میں نے اپنے پہلو میں پڑی مشک اٹھائی اور اپنے سریا اپنے چہرے پر پانی ڈالنےلگی ۔ کہا: رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے خطاب فرمایا، اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور اس کی ثنا بیان کی ، پھر فرمایا: ’’امابعد (حمد وثنا کے بعد)! کوئی چیز ایسی نہیں جس کا میں نے مشاہدہ نہیں کیا تھا مگر اب میں نے اپنی اس جگہ سے اس کا مشاہدہ کر لیا ہے حتی ٰ کہ جنت اور دوزخ بھی دیکھ لی ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مجھ پر یہ وحی کی گئی ہے کہ عنقریب ہے  قبروں میں تمھاری مسیح دجال کی آزمائش کے قریب یا س جیسی آزمائش ہو گی۔ (فاطمہ نے کہا) مجھے پتہ نہیں، حضر ت اسماء نے ان میں سے کون سا لفظ کہا۔ اور تم میں سے ہر ایک کے پاس (فرشتوں کی) آمد ہو گی اور پوچھا جائے گا: تم اس آدمی کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ تومومن یا یقین رکھنے والا۔ مجھے معلوم نہیں حضرت اسماء نے کون سا لفظ کہا۔ کہے گا: وہ محمد ہیں، وہ اللہ کے رسول ہیں، ہمارے پاس کھلی نشانیاں اور ہدایت لے کر آئے، ہم نے ان (کی بات) کو قبول کیا اور اطاعت کی، تین دفعہ (سوال وجواب) ہو گا۔ پھر اُس سے کہا جائے گا: سو جاؤ، ہمیں معلوم تھا کہ تم ان پر ایمان رکھتے ہو۔ ایک نیک بخت کی طرح سو جاؤ۔ اور رہا منافق یا وہ جوشک وشبہ میں مبتلا تھا۔ معلوم نہیں حضرت اس‬ماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا ن‬ے ان میں سے کون سا لفظ کہا ۔ تو وہ کہے گا: میں نہیں جانتا، میں نے لوگوں کو کچھ کہتےہوئے سنا تھا تو وہی کہہ دیا تھا۔‘‘