Muslim:
The Book of Prayers
(Chapter: The Tashah-hud In The Prayer)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
926.
ابو اسامہ نے سعید بن ابی عروبہ سے حدیث بیان کی، نیز معاذ بن ہشام نے اپنے والد سے حدیث بیان کی، اسی طرح جریر نے سلیمان تیمی سے خبر دی، ان سب (ابن ابی عروبہ، ہشام اور سلیمان) نے قتادہ سے اسی (سابقہ) حدیث کی مانند روایت کیا، البتہ قتادہ سے سلیمان اور ان سے جریر کی بیان کردہ حدیث میں یہ اضافہ ہے: ’’جب امام پڑھے تو تم غور سے سنو۔‘‘ اور ابو عوانہ کے شاگرد کامل کی حدیث کے علاوہ ان میں سے کسی کی حدیث میں: ’’اللہ عزوجل نے اپنے نبیﷺ کی زبان سے فرمایا ہے: ’’اللہ نے اسے سن لیا جس نے اس کی حمد کی۔‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔ ابو اسحاق نے کہا: ابو نضر کے بھانجے ابو بکر نے اس حدیث کے متعلق بات کی تو امام مسلم نے کہا: آپ کو سلیمان سے بڑا حافظ چاہیے؟ اس پر ابو بکر نے امام مسلم سے کہا: ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث؟ پھر (ابو بکر نے) کہا: وہ صحیح ہے، یعنی (یہ اضافہ کہ) جب امام پڑھے تو تم خاموش رہو۔ امام مسلم نے (جواباً) کہا: وہ میرے نزدیک بھی صحیح ہے۔ تو ابو بکر نے کہا: آپ نے اسے یہاں کیوں نہ رکھا (درج کیا)؟ (امام مسلم نے جواباً) کہا: ہر وہ چیز جو میرے نزدیک صحیح ہے، میں نے اسے یہاں نہیں رکھا۔ یہاں میں نے صرف ان (احادیث) کو رکھا جن (کی صحت) پر انہوں (محدثین) نے اتفاق کیا ہے۔
انسان اشرف المخلوقات ہے، اگر اب تک میسر سائنسی معلومات کو بنیاد بنایا جائے تو انسان ہی سب سے عقلمند مخلوق ہے جس نے عناصر قدرت سے کام لے کر اپنے لیے قوت و طاقت کے بہت سے انتظامات کر لیے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ بہت ہی کمزور ، بار بار مشکلات میں گھر کر بے بس ہو جانے والی مخلوق ہے جو اپنی زندگی کے اکثر معاملات میں دوسروں کی مدد کی محتاج ہے، دوسروں پر انحصار کرتی ہے، اپنے مستقبل کے حوالے سے ہر وقت خدشات کا شکار اور خوفزدہ رہتی ہے۔ ان میں سے جو انسان ایک قادر مطلق پر ایمان سے محروم ہیں، ان میں سے اکثر دوسری ایسی مخلوقات کا سہارا لیتے اور ان کو اپنا محافظ ، اپنا رازق اور خالق سمجھتے اور ان سے مدد کی درخواست کرتے ہیں جو ان کی پہنچ سے دور ہوں یا جن کی اپنی کمزوریوں سے انسان بے خبر ہوں۔ مظاہر فطرت کی پوجا، بتوں کی پوجا، دیوتاؤں اور دیویوں کی پرستش حتی کہ ہاتھیوں، بندروں اور سانپوں کی عبادت کمزور انسان کی خوفزدگی اور اس کی احتیاج کی دلیل ہے۔
اللہ کے بھیجے ہوئے دین نے انسان کو یہ سکھایا کہ جنہیں تم پوجتے ہو وہ بھی تمھاری طرح بلکہ تم سے بڑھ کر کمزور اورمحتاج ہیں ۔ وہ محض ایک ہی ذات ہے جس کے ساتھ کسی کی کوئی شراکت داری نہیں اور وہی ہر شے پر قادر ہے۔ ہر قوت اس کے پاس ہے۔ ہر نعمت کے خزانوں کا مالک وہی ہے۔ اس نے سبھی کو پیدا کیا۔ وہ بھی پیدا ہونے کا یا کسی بھی اور چیز کا محتاج تھانہ آیندہ بھی ہوگا۔ وہ ہماری عبادت کا بھی محتاج نہیں بلکہ ہم ہی اس کے قرب، اس کی رحمت، اس کی مہربانی اور اس کی سخاوت کے محتاج ہیں ۔ اس کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوجانے سے ہماری کمزوری طاقت میں، ہماری احتیاج فراوانی میں بدل سکتی ہے اور ہمارا خوف عمل سلاتی
کے احساس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
تمام انبیاء کا مشن یہی تھا کہ انسان اس ابدی حقیقت کو سمجھ لے اور اس قادر مطلق کا قرب حاصل کرنے کے لیے عبادت کاصحیح طریقہ اپنا لے ۔ اس وقت جتنے آسمانی دین موجود ہیں ان میں سب سے مکمل، سب سے خوبصورت اور سب سے آسان طریقہ عبادت وہ ہے جو اسلام نے سکھایا ہے۔ ان اسلامی عبادات میں سے اہم ترین عبادت نماز ہے۔ نماز کا ارادہ کرتے ہی خیر ، برکت اور کسب اعمال صالحہ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ طہارت اور وضو سے انسان ظاہری اور باطنی کثافت اور میل کچیل سے صاف ہو جاتا ہے اور نماز میں داخل ہونے کے ساتھ ہی وہ اللہ کے حضور بازیاب ہو جا تا ہے۔اس عبادت میں بندہ گا ہے اپنے جیسے بہت سے عبادت گزاروں کے ساتھ مل کر جذب و سرمستی میں اللہ کو پکارتا، اس سے حال دل کہتا اور اس کے سامنے زاری کرتا ہے اور گاہے تنہائی کے عالم میں اپنے رب کے سامنے ہوتا ہے اور اس کے ساتھ سرگوشی اور مناجات کرتاہے(1)صحيح مسلم ،المساجد،باب النهى عن البصاق فى المسجد،حديث:1230(551) عبادت کایہ مکمل اورسب سےخوبصورت طریقہ خود الله تبارک و تعالی نے کائنات کے افضل ترین عبادت گزار (عبد) محمد رسول اللہﷺ کو سکھایا اور انھوں نے انسانیت کو اس کی تعلیم دی۔آپ کی نمازکی کیفیتیں کیاتھیں؟ان کی تفصیل صحیح مسلم کی كتاب الصلاة ،كتاب المساجد،كتاب صلاة المسافرين اورمابعدکےابواب میں بالتفصیل مذکور ہے۔ جن خوش نصیب لوگوں نےاس عبادت کاطریقہ براہ راست رسول اللہﷺ سےسیکھا،وہ اس کی لذتوں سےصحیح طورپرآشناتھے،مثلاحضرت انس انہیں یادکرکےبےاختیارکہتےتھے:ماصليت ورآءإمام قط أخف صلاة ولاأتم صلاة من رسولﷺ’’میں کبھی کسی امام کےپیچھےنمازنہیں پڑھی جس کی نمازرسول اللہﷺ کی نمازسےزیادہ ہلکی اورمکمل ترین ہو۔ ‘‘(2)صحيح مسلم،الصلاة،باب أمرالأئمة بتخفيف الصلاةفى تمام، حديث:1054(469)یہ نمازباجماعت کی کیفیت تھی۔ رات کی تنہائیوں میں آپ کی نمازکیسی تھی، حضرت عائشہؓ بتانابھی چاہتی ہیں اوراس سےزیادہ کہہ بھی نہیں سکتیں:يٌصلى أربعافلاتسأل عن حسنهن وطولهن ،ثم يصلى أربعافلاتسال عن حسنهن وطولهن ’’آپ چاررکعتیں پڑھتےاورمت پوچھوکہ ان کی خوبصورتی کیاتھی اورطوالت کتنی تھی،پھرآپ چاررکعتیں ادافرماتے،نہ پوچھوکہ ان کاجمال کیساتھا،کتنی لمبی ہوتی تھیں۔‘‘(3) صحيح مسلم،صلاة المسافرين وقصرها، باب الصلاة الليل ،حديث:1723(738)یہ لذتیں محسوس کی جاسکتی تھیں لیکن زبان ان کےبیان سےقاصرتھی۔ قرآن مجیدنےاس عبادت کاتذکرہ اس طرح کیاکہ اس مشاہدہ کرنےوالےاس کی طرف کھچےچلےآتےتھےاوراس میں مستغرق ہوجاتےہیں: ﴿وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّـهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا﴾ ’’اورجب اللہ کابندہ اس کوپکارنےکھڑاہوا،تووہ اس پرگروہ درگروہ اکٹھےہونےلگے۔ ‘‘الجن19:72)محدثین نے رسول اللہ ﷺ کی نماز کے حوالے سے وہ ساری تفصیلات انتہائی جانفشانی سے جمع کر کے یکجا کر دیں جو صحابہ کرام نے بیان کی تھیں۔ آج اگر ذوق وشوق کی کیفیتوں میں ڈوب کر ان کا مطالعہ کیا جائے تو پورا منظر سامنے آ جاتا ہے، جو حسن و جمال کا بے مثال مرقع ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد فتنوں کا دور آیا۔ بے شمار انسانوں کے عقائد اور اعمال اس کی زد میں آئے منع زکاة، ارتد او،خوارج وغیرہ کے باطل عقائد اسی فتنے کی تباہ کاریوں کے چند پہلو ہیں ۔ اس دور کا مطالعہ کیا جائے تو عبادات اور اعمال میں سہل انگاری، غفلت اور لاپروائی حتی کہ جہالت کی ایسی کیفیتیں سامنے آتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ بنو امیہ کے دور میں نماز جیسے اسلام کے بنیادی رکن کی کیفیت ایسی ہوگئی تھی کہ حضرت انس بنانے اس کے سبب سے باقاعدہ گریہ میں مبتلا ہوجاتے تھے۔ لوگوں اور ان کے حکمرانوں نے اس دور میں اوقات نماز تک ضائع کر دیے تھے۔ امام زہری کہتے ہیں: میں دمشق میں حضرت انس نے کے ہاں حاضر ہوا تو آپ رورہے تھے۔ میں نے پوچھا: کیا بات ہے جو آپ کو رلا رہی ہے؟ فرمایا: میں نے عہد رسالت مآب ﷺ میں جو کچھ دیکھا تھا اس میں نماز ہی رہ گئی تھی، اب یہ بھی نماز بھی ضائع کردی گئی ہے۔ (4) صحيح البخارى ،مواقيت الصلاة ،باب فى تضييع الصلاة عن وقتها، حديث:530)آپ سےنمازکےبارےمیں یہ الفاظ بھی منقول ہیں ،رسول اللہﷺ کےعہدمیں جوکچھ ہوتاتھاان میں سےکوئی چیزنہیں جومیں پہچان سکوں(سب کچھ بدل گیاہے۔)کہاگیا:نماز(توہے!)فرمایاکیااس میں بھی تم نےوہ سب کچھ نہیں کردیاجوکردیاہے۔(1) صحيح البخارى ،مواقيت الصلاة ،باب فى تضييع الصلاة عن وقتها، حديث :529) جامع ترمذی کی روایت کےالفاظ ہیں تم نےاپنی نمازوں میں وہ سب کچھ نہیں کرڈالاجس کاتمھی کوپتہ ہے۔ (2)جامع الترمذى ،صفة القيامة،باب حديث إضاعة الناس الصلاة،حديث2447)ایک اور روایت میں ہے، ثابت بنانی کہتے ہیں : ہم حضرت انس بن مالک کے ساتھ تھے کہ حجاج نے نماز میں تاخیر کر دی،حضرت انس کھڑے ہوئے، وہ اس سے بات کرنا چاہتے تھے، ان کے ساتھیوں نے حجاج سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے انھیں روک دیا تو آپ وہاں سے نکلے ، سواری پر بیٹھے اور راستے میں کہا: رسول اللہﷺ کے عہد مبارک کی کوئی چیز باقی نہیں رہی سوائے لا الہ الا اللہ کی شہادت کے ۔ ایک آدمی نے کہا: ابوحمزه! نماز؟ تو فرمایا تم نے ظہر کی نماز مغرب میں پہنچا دی! کیا رسول اللہ ﷺ کی نماز یہ تھی۔ (3)فتح البارى ،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة عن وقتها،حديث:529)حکمرانوں کی جہالت کی وجہ سے خرابی کا یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور سوائے چند اہل علم کے باقی لوگ اسی ناقص اور بگاڑی ہوئی نماز کےعادی ہو گئے ۔ حافظ ابن حجر نے امام عبدالرزاق کے حوالے سے مشہور تابعی عطاء کا واقعہ نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ولید بن عبد الملک نے جمعے میں تاخیر کی حتی کہ شام ہوگئی، میں آیا اور بیٹھنے سے پہلے ظہر ادا کر لی، پھر اس کے خطبے کے دوران میں بیٹھے ہوئے اشارے سے عصر پڑھی۔ اشارے سے اس لیے کہ عطاء کو خوف تھا کہ اگر انھوں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی تو انھیں قتل کردیا جائے گا۔(4) فتح البارى ،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة عن وقتها،حديث:529)اکثر لوگ حکمرانوں کے اس عمل ہی کو اسلام سمجھتے تھے، ان کو اس بات کا احساس تک نہ تھا کہ یہ سب رسول اللہ ﷺکی سنت کے خلاف ہے۔ عام لوگوں کی تو بات ہی کیا ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے عالم کو بھی مدینہ کا گورنر مقرر ہونے تک اصل اوقات نماز کا علم نہ تھا۔ وہ مدینہ کے گورز ہو کر آئے تو ایک دن انھوں نے عصر کی نماز میں تاخیر کر دی۔ عروہ بن زبیر ان کے پاس آئے اور انھیں بتایا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے، جب وہ عراق میں گورنر تھے، ایک دن نماز میں تاخیر کر دی تو حضرت ابو مسعود انصاری (بدری) آپ کے پاس آئے اور فرمایا: مغیرہ یہ کیا ہے؟ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ جبریل نے نازل ہوکر نماز پڑھائی .... .( پانچویں نماز یں، ایک دن ہر نماز کا وقت شروع ہونے پر اور دوسرے دن ہر نماز کے وقت آخر میں پڑھائیں۔) اس پر عمر بن عبدالعزیز نے عروہ سے کہا: دیکھ لو کیا کہہ رہے ہو؟ کیا واقعی جبریل نے رسول اللہﷺ کے لیے نماز کے وقت کی نشاندہی کی ؟ عروہ نے جواب دیا: بشیر بن ابی مسعود اپنے والد (بدری صحابی ابومسعود انصاری) سے اس طرح بیان کرتے تھے۔(5) فتح البارى ،مواقيت الصلاه،باب تضييع الصلاة وفضلها،حديث:521)نماز کے طریقے میں بھی اسی طرح کی تبدیلیاں پیدا ہوگئیں۔ صحابہ کرام اور ان کے شاگردوں نے اس صورت حال کی اصلاح کے لیے جہاد شروع کیا، پھر محدثین نے، جو علم حدیث میں ان ہی کے جانشیں تھے، اس جہاد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی نماز کی تمام تفصیلات پوری تحقیق اور جستجو کے بعد امت کے سامنے پیش کر دیں اور امت کو رسول اللهﷺ کے اس فرمان مبارک پر کماحقہ عمل کا موقع فراہم کیا کہ «صلوا كما رأيتموني أصلي» تم اسی طرح نماز ادا کرو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔‘‘(1)صحيح البخارى ،الأذان،باب الأذان للمسافرين،حديث:631)یہ ایک فطری بات ہے کہ انسان جس صورت میں جس عمل کا عادی ہوتا ہے ہمیشہ اسی کو درست سمجھتا ہے اور ہر صورت میں اس کے دفاع کی کوشش کرتا ہے۔ محدثین کے سامنے بہت بڑا اور كٹھن مشن تھا، انھوں نے نادان حکمرانوں کی سر پرستی میں راسخ شده عادات کے خلاف اتنا مؤثر جہاد کیا کہ اب ان لوگوں کے سامنے، جو عادت کی بنا پر اصرار اور ضد کا شکار نہیں ، رسول اللہ ﷺ کی سنت مبارکہ اور آپ کا منور طر یق عمل روز روشن کی طرح واضح ہے۔امام مسلم نے کتاب الصلاة، کتاب المساجد، کتاب صلاة المسافرین اور بعد کے ابواب میں خوبصورت ترتیب سےصحیح اسناد کے ساتھ رسول اللہﷺ کی نماز کی مکمل تفصیلات جمع کردی ہیں ۔ محدثین کے عظیم الشان کام کے بعد امت کے فقہاء اور علماءکے استنباطات، چاہے وہ جس مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں، محدثین کی بیان کردہ اانہی احادیث کے گرد گھومتے ہیں۔ تمام فقہی اختلافات کے حوالے سے بھی آخری اور حتمی فیصلہ صرف اور صرف وہی ہوسکتا ہے جو رسول اللہ ﷺصادر فرما دیا اور جسے محدثین نے پوری امانت داری سے امت تک پہنچا دیا ہے۔
ابو اسامہ نے سعید بن ابی عروبہ سے حدیث بیان کی، نیز معاذ بن ہشام نے اپنے والد سے حدیث بیان کی، اسی طرح جریر نے سلیمان تیمی سے خبر دی، ان سب (ابن ابی عروبہ، ہشام اور سلیمان) نے قتادہ سے اسی (سابقہ) حدیث کی مانند روایت کیا، البتہ قتادہ سے سلیمان اور ان سے جریر کی بیان کردہ حدیث میں یہ اضافہ ہے: ’’جب امام پڑھے تو تم غور سے سنو۔‘‘ اور ابو عوانہ کے شاگرد کامل کی حدیث کے علاوہ ان میں سے کسی کی حدیث میں: ’’اللہ عزوجل نے اپنے نبیﷺ کی زبان سے فرمایا ہے: ’’اللہ نے اسے سن لیا جس نے اس کی حمد کی۔‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔ ابو اسحاق نے کہا: ابو نضر کے بھانجے ابو بکر نے اس حدیث کے متعلق بات کی تو امام مسلم نے کہا: آپ کو سلیمان سے بڑا حافظ چاہیے؟ اس پر ابو بکر نے امام مسلم سے کہا: ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث؟ پھر (ابو بکر نے) کہا: وہ صحیح ہے، یعنی (یہ اضافہ کہ) جب امام پڑھے تو تم خاموش رہو۔ امام مسلم نے (جواباً) کہا: وہ میرے نزدیک بھی صحیح ہے۔ تو ابو بکر نے کہا: آپ نے اسے یہاں کیوں نہ رکھا (درج کیا)؟ (امام مسلم نے جواباً) کہا: ہر وہ چیز جو میرے نزدیک صحیح ہے، میں نے اسے یہاں نہیں رکھا۔ یہاں میں نے صرف ان (احادیث) کو رکھا جن (کی صحت) پر انہوں (محدثین) نے اتفاق کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
امام صاحب نے مختلف اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کی اور اس میں یہ اضافہ بیان کیا۔ کہ جب امام پڑھے تو تم خاموش رہو، اور ان میں سے کسی کی حدیث میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کی زبان سے کہلوایا ہے، سَمِعَ اللُّٰہ لِمَنْ حَمِدَہ، صرف ابو کامل اکیلا ہی ابو عوانہ سے یہ الفاظ نقل کرتا ہے۔ ابو اسحاق کہتے ہیں، ابو نضر کے بھانجے، ابوبکر نے اس حدیث پر بحث کی تو امام مسلم نے جوب دیا آپ کو سلیمان سے زیادہ حافظ مطلوب ہے، (یعنی سلیمان حفظ و ضبط میں پختہ ہے، اس لیے اس کا اضافہ مقبول ہے) تو ابوبکر نے امام مسلم سے پوچھا، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث اِذَا قَرأَ فَانْصِتُوْا (جب امام قرأت کرے تم خاموش رہو)، کیسی ہے؟ امام صاحب نے جواب دیا، وہ صحیح ہے اورمیں اس کو صحیح سمجھتا ہوں تو ابوبکر نے پوچھا تو آپ نے اسے اپنی کتاب میں بیان کیوں نہیں کیا؟ امام صاحب نے جواب دیا: ہر وہ حدیث جو میرے نزدیک صحیح ہے، میں نے اس کو یہاں نقل نہیں کیا، یہاں تو میں نے ان ہی کی احادیث کو بیان کیا ہے، جن کی صحت پر سب کا اتفاق ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
(1) (وَإِذَا قَرأالْإِمَامُ فَانْصِتُوْا) جب امام پڑھے تم خاموش رہو کا تعلق سورہ فَاتِحَہ کے بعد والی قرآءت سے ہے کیونکہ سورۃ فاتحہ کے بغیر تو نماز نہیں ہوتی اس طرح دونوں حدیثوں پر عمل ہو جاتا ہے کہ مقتدی جہری نمازوں میں جب امام قرآءت کرتا ہے تو اس کے پیچھے صرف فاتحہ چپکے چپکے پڑھے گا اور بعد والی قرآءت پوری توجہ سے سنے گا خود نہیں پڑھے گا اور سری نمازوں میں چونکہ قرآءت بلند نہیں ہوتی اس لیے امام کی قرآءت سننے کا احتمال نہیں ہوتا۔ اس لیے وہاں مقتدی اپنی قرآءت کرے گا۔ (2) امام مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث (وَإِذَا قَرأالْإِمَامُ فَانْصِتُوْا) کو صحیح تسلیم کیا ہے لیکن چونکہ اس کی صحت پر اتفاق نہیں اس لیے اس کو صحیح مسلم میں درج نہیں کیا، جس سے معلوم ہوا امام مسلم اپنی صحیح میں صرف ان روایات کو بیان کرتے ہیں، جوتمام آئمہ محدثین کے مسلمہ قواعد وضوابط کے مطابق صحیح ہیں اور اس لحاظ سے ان سب کی صحت پر سب کا اتفاق ہونا چاہیے۔ (3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ (وَإِذَا قَرأالْإِمَامُ فَانْصِتُوْا) اور اسی طرح سلیمان کی حدیث کے ان الفاظ کی صحت کے بارے میں آئمہ حدیث میں اختلاف ہے امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ سجستانی رحمۃ اللہ علیہ، یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ، ابو حاتم رازی رحمۃ اللہ علیہ، دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ اور ابو علی نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ ان الفاظ کو درست قرار نہیں دیتے، ان کے نزدیک (هَذِهِ اللَّفْظَةُ غَيْرُ مَحْفُوظَةٍ) قتادہ کے تمام شاگرد ان الفاظ میں سلیمان حیمی کی مخالفت کرتے ہیں۔ (4) تشہد کے کلمات مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے معمولی سے لفظی اختلاف کے ساتھ بیان کیے ہیں امام مسلم نے ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تشہد نقل کیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے الفاظ نقل نہیں کیے۔ اپنی جگہ تمام ہی صحیح ہیں اور کسی کو بھی پڑھا جا سکتا ہے افضل کے بارے میں آئمہ میں اختلاف ہے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، اور اہل حدیث اور جمہور فقہاء کے نزدیک ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما والا تشہد افضل ہے کیونکہ سب سے زیادہ صحیح ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور بعض مالکیوں کے نزدیک ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما والا تشہد افضل ہے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر موقوف تشہد افضل ہے کیونکہ انھوں نے یہ تشہد منبر پر سکھایا تھا لیکن ظاہر ہے موقوف کو مرفوع پر ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پہلے قعدہ میں تشہد پڑھنا سنت ہے اور اسلام والا تشہد واجب ہے جمہور محدثین کے نزدیک دونوں ہی واجب ہیں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ، پہلے کو واجب اور دوسرے کو فرض قراردیتے ہیں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور فقہاء کے نزدیک دونوں سنت ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Qatida has narrated a badith like this with another chain of transmitters. In the hadith transmitted by Jarir on the authority of Sulaiman, Qatida's further words are: When (the Qur'in) is recited (in prayer), you should observe silence, and (the following words are) not found in the hadith narrated by anyone except by Abu Kamil who heard it from Abu 'Awina (and the words are): Verily Allah vouchsafed through the tongue of the Apostle of Allah (ﷺ) this: Allah listens to him who praises Him. Abu Ishaq (a student of Imam Muslim) said: Abu Bakr (RA) the son of Abu Nadr's sister has (critically) discussed this hadith. Imam Muslim said: Whom can you find a more authentic transmitter of hadith than Sulaiman? Abu Bakr (RA) said to him (Imam Muslim): What about the hadith narrated by Abd Hurairah, i. e. the hadith that when the Qur'in is recited (in prayer) observe silence? He ( Abu Bakr (RA) again) said: Then, why. have you not included it (in your compilation)? He (Imam Muslim) said: I have not included in this every hadith which I deem authentic; I have recorded only such ahadith on which there is an agreement (amongst the Muhaddithin apart from their being authentic).