باب: ہر علاقے کے لوگوں کے لیے اپنی رؤیت (معتبر )ہے اوراگر ایک علاقے کے لوگ چاند دیکھ لیں تو ان سے دو روالوں کے لیے اس کا حکم (کہ روزوں کا آغازہو گیا )ثابت نہیں ہو گا
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: Each land has its own sighting of the moon, and if they see the crescent in one land, that does not necessarily apply to regions that are far away from it)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1087.
یحییٰ بن یحییٰ، یحییٰ بن ایوب، قتیبہ،ابن حجر نے حدیث سنائی۔ یحییٰ بن یحییٰ نے کہا: ہمیں اسماعیل بن جعفر نے محمد،بن ابی حرملہ سے خبر دی، دوسروں نے کہا: ہمیں جدیث سنائی۔ انہوں نے کریب سے روایت کی کہ ام فضل بنت حارث رضی اللہ تعالی عنہا نے انہیں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاش شام بھیجا (وہ اس وقت شام کے والی تھے) کہا: چنانچہ میں شام آیا اور ان کا کام کیا، اور میں شام ہی میںتھا کہ میرے سامنے رمضان کے چاند کا شور مچا۔ میں نے جمعہ کی رات کو چاند دنکھا، پھر میں مہینے کے آخر میں مدینہ واپس آ گیا تو مجھ سے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے (حال) پوچھا، پھر چاند کا ذکر کرتے ہوئے کہا: تم نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہم نے اسے جمعے کی رات کو دیکھا تھا انہوں نے پرچھا: تم نے اس کوخود دیکھا؟ میں نے کہا: ہاں اور لوکوں نے بھی اسے دیکھا اور انہوں نے روزہ رکھا اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی روزہ رکھا، اس پر انہوں نے کہا: لیکن ہم نے تواسے ہفتے کی رات دیکھا ہے، لہٰذا ہم روزہ رکھیں گے۔ یہاں تک کہ ہم تیس پورے کر لیں یا اس (چاند) کو دیکھ لیں تو میں نے کہا: کہا آپ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی رؤیت اوران کے روزے پر اکتفا نہیں کریں گے؟ انہوں نے کہا، نہیں، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اسی طرح حکم دیا ہے
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
یحییٰ بن یحییٰ، یحییٰ بن ایوب، قتیبہ،ابن حجر نے حدیث سنائی۔ یحییٰ بن یحییٰ نے کہا: ہمیں اسماعیل بن جعفر نے محمد،بن ابی حرملہ سے خبر دی، دوسروں نے کہا: ہمیں جدیث سنائی۔ انہوں نے کریب سے روایت کی کہ ام فضل بنت حارث رضی اللہ تعالی عنہا نے انہیں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاش شام بھیجا (وہ اس وقت شام کے والی تھے) کہا: چنانچہ میں شام آیا اور ان کا کام کیا، اور میں شام ہی میںتھا کہ میرے سامنے رمضان کے چاند کا شور مچا۔ میں نے جمعہ کی رات کو چاند دنکھا، پھر میں مہینے کے آخر میں مدینہ واپس آ گیا تو مجھ سے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے (حال) پوچھا، پھر چاند کا ذکر کرتے ہوئے کہا: تم نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہم نے اسے جمعے کی رات کو دیکھا تھا انہوں نے پرچھا: تم نے اس کوخود دیکھا؟ میں نے کہا: ہاں اور لوکوں نے بھی اسے دیکھا اور انہوں نے روزہ رکھا اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی روزہ رکھا، اس پر انہوں نے کہا: لیکن ہم نے تواسے ہفتے کی رات دیکھا ہے، لہٰذا ہم روزہ رکھیں گے۔ یہاں تک کہ ہم تیس پورے کر لیں یا اس (چاند) کو دیکھ لیں تو میں نے کہا: کہا آپ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی رؤیت اوران کے روزے پر اکتفا نہیں کریں گے؟ انہوں نے کہا، نہیں، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اسی طرح حکم دیا ہے
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوکریب رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ اُم الفضل بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں شام حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیجا میں شام آیا اور ان کی ضرورت پوری کی۔ اور چاند جبکہ میں شام ہی میں تھا نمودار ہو گیا میں نے چاند جمعہ کی رات دیکھا، پھر مہینہ کے آخر میں مدینہ آ گیا تو مجھ سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ پوچھا، پھر چاند کا تذکرہ کیا اور کہا تم نے چاند کب دیکھا؟ میں نے کہا: ہم نے اسے جمعہ کی رات دیکھا، تو انھوں نے پوچھا: تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں! اور لوگوں نے بھی دیکھا ہے سب نے روزہ رکھا اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی روزہ رکھا، تو انھوں نے کہا: لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات دیکھا ہے اس لیے ہم روزہ رکھتے رہیں گے حتی کہ تیس پورے ہو جائیں یا ہمیں نظر آ جائے، میں نے کہا: کیا آپ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رؤیت اور ان کے روزہ کو کافی نہیں سمجھتے۔ انھوں نے کہا: نہیں۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی حکم دیا ہے۔ یحییٰ بن یحییٰ کی حدیث میں ہے ’’لانَكْتَفِى او تَكْتَفِى‘‘ہم کافی نہیں سمجھیں گے۔ یا آپ کافی نہیں سمجھتے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
1۔ رؤیت ہلال کے سلسلہ میں ائمہ میں اختلاف ہے کہ اگر ایک علاقہ میں چاند نظر آ جائے تو دوسرے علاقے کے لوگ کیا کریں؟ 1۔امام اعظم یعنی امیر وحاکم رؤیت قبول کر لے تو سب کو روزہ رکھنا ہوگا وگرنہ جہاں نظر آیا ہے وہیں کے لوگ روزہ رکھیں گے۔ 2۔ ہرعلاقے کے لیے اپنی اپنی رؤیت ہے۔ 3۔ اگر ایک علاقے میں چاند نظر آ جائے تو ہرجگہ کے لوگوں کو اس کا اعتبار کرنا ہو گا۔ 4۔ اختلاف مطلع کا لحاظ ہے، جن علاقوں کا مطلع ایک ہے، اگر ایک علاقہ میں نظر آ گیا ہے تو دوسرے میں بھی نظر آنا چاہیے تھا۔ کسی سبب یاعارضہ کی وجہ سے نظر نہیں آ سکا۔ اس طرح ایک مطلع والوں کے لیے آپس میں رؤیت بہتر ہے۔ عراقیوں اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف یہی ہے اور یہی بات درست ہے۔ اگر مطالع الگ الگ ہیں ایک جگہ نظر آنے سے دوسری جگہ نظر آنا ضروری نہیں ہے۔ تو پھر ایک جگہ کی رؤیت دوسری جگہ کے لیے معتبر نہیں ہے۔ 5۔ ایک صوبہ یا ایک ملک کے سب علاقوں کا ایک حکم ہے۔ 6۔ اوربقول نووی رحمۃ اللہ علیہ غزالی وغیرہما مسافت قصر کا لحاظ ہے مسافت قصر سے کم ہوتو حکم ایک ہے وگرنہ الگ الگ۔ 2 ۔ موجودہ دور میں رؤیت ہلال کمیٹی کے اعلان کا اعتبار ہے وہ شرعی اصولوں کے مطابق گواہی لے کر اعلان کر دے تو وہ معتبر ہو گا۔ 3۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔ امام احمد لیث بن سعد رحمۃ اللہ علیہ اور بعض شوافع رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک بیان کیا جاتا ہے کہ: (صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور اسے دیکھ کر روزے ختم کرو، کا حکم عام ہے سب مسلمان اس کے مخاطب ہیں۔ تو اس کا معنی یہ ہوا کہ تمام مسلمان ممالک میں روزے کا آغاز اور اختتام یکساں ہونا چاہیے اور چاند کی تاریخ تقریباً یکساں ہونی چاہیے حالانکہ واقعہ یہ ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف اس بات پر سب کا اتفاق ہے اگر وہ جگہوں کا فاصلہ غیر معمول ہو جیسے حجاز اور اندلس تو ان کاحکم الگ الگ ہے۔ (بدایۃ المجتھد ج1)۔ 4۔ رمضان کے چاند کے لیے ایک آدمی کی شہادت اکثرعلماء کے نزدیک کافی ہے۔ اور شوال کے چاند کے لیے ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دو آدمیوں کی شہادت معتبر ہے۔ لیکن قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابوثور رحمۃ اللہ علیہ کے مؤقف کی تائید کی ہے کہ شوال کے لیے بھی رمضان کی طرح ایک گواہی کافی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Kuraib reported that Umm Fadl, daughter of Harith, sent him (Fadl, i. e. her son) to Mu'awiyah in Syria. I (Fadl) arrived in Syria, and did the needful for her. It was there in Syria that the month of Ramadan commenced. I saw the new moon (of Ramadan) on Friday. I then came back to Madinah at the end of the month.'Abdullah bin 'Abbas (RA) asked me (about the new moon of Ramadan) and said: When did you see it? I said.: We saw it on the night of Friday. He said: (Did) you see it yourself? -I said: Yes, and the people also saw it and they observed fast and Mu'awiyah also observed fast, whereupon he said: But we saw it on Saturday night. So we would continue to observe fast till we complete thirty (lasts) or we see it (the new moon of Shawwal). I said: Is the sighting of the moon by Mu'awiyah not valid for you? He said: No; this is how the Messenger of Allah (ﷺ) has commanded us. Yahya bin Yahya was in doubt (whether the word used in the narration by Kuraib) was Naktafi or Taktafi.