باب: چاند کے چھوٹے اور بڑے ہونے کا اعتبار نہیں ‘اللہ تعالیٰ نے رؤیت کے لیے اسے بڑا کر دیا اگر اس کو چھپادیا جائے تو تیس (دن )مکمل کیے جائیں
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: Clarifying that it does not matter whether the crescent is large or small, for Allah, the Most High, causes it to appear for long enough that people can see it, and if it is cloudy then thirty days should be completed)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1088.
حصین نے عمرو بن مرہ سے ، انہوں نے ابوالبختری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا ہم عمرے کی (ادائیگی) کے لئے نکلے جب ہم نے نخلہ کی ترائی پڑاؤ ڈالا تو ہم نے ایک دوسرے کو چاند دکھایا۔ بعض لوگوں نے کہا: یہ تیسری رات کا ہے۔ اور بعض نے کہا: دوسری رات کا ہے۔ کہا: ہماری ملاقات ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے ہوئی تو ہم نے کہا: ہم نے چاند دیکھا تو بعض نے کہا: تیری رات کا ہے اور بعض نے کہا: دوسری رات کا ہے، اس پر انہوں نے کہا: تم نے چاند کس رات دیکھا؟ کہا: تو ہم نے بتایا فلاں فلاں رات (دیکھا ہے۔) ا سپر انہوں نے کہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ ’’اللہ نے رؤیت کے لیے ا س کو بڑھا دیا۔ وہ اسی رات کا تھا جس رات تم نے اسے دیکھا۔‘‘
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
حصین نے عمرو بن مرہ سے ، انہوں نے ابوالبختری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا ہم عمرے کی (ادائیگی) کے لئے نکلے جب ہم نے نخلہ کی ترائی پڑاؤ ڈالا تو ہم نے ایک دوسرے کو چاند دکھایا۔ بعض لوگوں نے کہا: یہ تیسری رات کا ہے۔ اور بعض نے کہا: دوسری رات کا ہے۔ کہا: ہماری ملاقات ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے ہوئی تو ہم نے کہا: ہم نے چاند دیکھا تو بعض نے کہا: تیری رات کا ہے اور بعض نے کہا: دوسری رات کا ہے، اس پر انہوں نے کہا: تم نے چاند کس رات دیکھا؟ کہا: تو ہم نے بتایا فلاں فلاں رات (دیکھا ہے۔) ا سپر انہوں نے کہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ ’’اللہ نے رؤیت کے لیے ا س کو بڑھا دیا۔ وہ اسی رات کا تھا جس رات تم نے اسے دیکھا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابو البختری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ہم عمرہ کے لیے نکلے، جب بطن نخلہ نامی مقام پر پڑاؤ کیا تو ہم نے ایک دوسرے کو چاند دکھایا، بعض لوگوں نے کہا: تیسری رات کا چاند ہے اور بعض نے کہا: دوسری رات کا ہے اور ہماری ملاقات ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی تو ہم نے پوچھا: ہم نے چاند دیکھا تو بعض لوگوں نے کہا: تیسری رات کا چاند ہے اور بعض لوگوں نے کہا: دوسری رات کا ہے۔ آپ نے پوچھا: تم نے اسے کس رات دیکھا؟ تو ہم نے بتایا کہ فلاں فلاں رات کو دیکھا ہے۔ اس پر انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اسے دیکھنے کے لیے بڑھا دیتا ہے درحقیقت وہ اس رات کا ہے جس رات تم نے اسے دیکھا ہے ’’مَدَّة‘‘ دیکھنے کے لیے اس کی مدت رؤیت بڑھا دی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu'l-Bakhtari reported: We went out to perform 'Umrah and when we encamped in the valley of Nakhla, we tried to see the new moon. Some of the people said: It was three nights old, and others (said) that it was two nights old. We then met Ibn 'Abbas and told him we had seen the new moon, but that some of the people said it was three nights old and others that it was two nights old. He asked on which night we had seen it; and when we told him we had seen it on such and such night, he said the Prophet (ﷺ) of Allah (ﷺ) had said: Verily Allah deferred it till the time it is seen, so it is to be reckoned from the night you saw it.