Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: Clarifying the time for ending the fast and the end of the day)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1101.
ہشیم نے ابو اسحاق شیبانی سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی، کہا ہم رمضان کے مہینے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے، جب سورج غروب ہوگیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے فلاں! (ابو داؤد کی روایت میں ہے: بلال! سواری سے) نیچے اتر کر ہمارے لیے (پانی میں) ستو ملاؤ‘‘ اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! (ابھی تو) آپ پر دن (کا اجالا) موجود ہے! آپﷺ نے فرمایا: ’’(سواری سے) نیچے اتر کر ہمارے لیے ستو بناؤ‘‘ کہا: اس نے اتر کر ستو ملائے، پھر وہ آپﷺ کی خدمت میں پیش کیے تو نبی ﷺ نے نوش فرما لیے، پھر آپﷺ نے ہاتھ سے (اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا: ’’جب سورج ادھر (مغرب میں) غروب ہو جائے اور رات ادھر (مشرق) سے آ جائے تو حقیقتاً روزہ دار نے افطار کر لیا۔‘‘ (اس کا روزہ ختم ہوچکا۔)
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
ہشیم نے ابو اسحاق شیبانی سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی، کہا ہم رمضان کے مہینے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے، جب سورج غروب ہوگیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے فلاں! (ابو داؤد کی روایت میں ہے: بلال! سواری سے) نیچے اتر کر ہمارے لیے (پانی میں) ستو ملاؤ‘‘ اس آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! (ابھی تو) آپ پر دن (کا اجالا) موجود ہے! آپﷺ نے فرمایا: ’’(سواری سے) نیچے اتر کر ہمارے لیے ستو بناؤ‘‘ کہا: اس نے اتر کر ستو ملائے، پھر وہ آپﷺ کی خدمت میں پیش کیے تو نبی ﷺ نے نوش فرما لیے، پھر آپﷺ نے ہاتھ سے (اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا: ’’جب سورج ادھر (مغرب میں) غروب ہو جائے اور رات ادھر (مشرق) سے آ جائے تو حقیقتاً روزہ دار نے افطار کر لیا۔‘‘ (اس کا روزہ ختم ہوچکا۔)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ماہ رمضان کے ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جب سورج غروب ہو گیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’اے فلاں! سواری سے اتر کر ہمارے لیے ستو بھگو یا گھول۔‘‘ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ابھی تو دن موجود ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:ا ’’تر کر ہمارے لیے ستو گھول‘‘ وہ اترا اور ستو تیار کر کے آپﷺ کے پاس لے آیا تو آپﷺ نے ان کو پی لیا۔ پھر آپﷺ نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا: ’’جب سورج ادھر ڈوب جائے اور اس سمت (مشرق) سے رات آجائے تو روزہ دار وقت افطار میں داخل ہو گیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah bin Abi Aufa reported: We were with the Messenger of Allah (ﷺ) on a journey during the month of Ramadan. When the sun had sunk he said: So and so, get down (from your ride) and prepare the meal of parched barley for us. He said: Messenger of Allah, still there is light of day. He (the Holy Prophet) said: Get down and prepare meal of parched barley for us. So he got down and prepared the meal of parched barley and offered him, and the apostle of Allah (ﷺ) drank that (liquid meal). He then told with the gesture of his hand that when the sun sank from that side and the night appeared from that side, then the observer of the fast should break it.