باب: (روزوں میں )وصال (ایک روزے کو افطار کیے بغیر دوسرے سے ملانے)کی ممانعت
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: The prohibition of Al-Wisal)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1103.
سلمہ بن عبدالرحمٰن نے حدیث بیان کہ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے وصال سے منع فرمایا تو مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے عرض کی: آ پ تو وصال کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کون میری مثل ہے؟ میں تو اس حالت میں رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھ کھلاتا اور پلاتا ہے۔‘‘ تو جب لوگوں نے وصال چھوڑنے سے انکار کیا تو آپﷺ نے ان کے ساتھ ایک دن پھر دوسرے دن بلا افطار و سحری روزہ رکھا، اس کے بعد انھوں نے چاند دیکھ لیا، آپﷺ نے فرمایا: اگر چاند لیٹ ہوتا تو میں تمھارے ساتھ مزید (وصال) کرتا۔‘‘ جب انہوں نے باز آنے سے انکار کیا تو آپ ﷺ نے انھیں سزا دینے والے کی طرح فرمایا۔
تشریح:
فائدہ:
وصال پر اصرار بنیادی طور پر نیکی سے رغبت کی بنا پر تھا۔ لیکن اسلام اعتدال کا دین ہے۔ افراط و تفریط سے روکتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کی تربیت کےلیے یہ طریقہ اختیار فرمایا۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
سلمہ بن عبدالرحمٰن نے حدیث بیان کہ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے وصال سے منع فرمایا تو مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے عرض کی: آ پ تو وصال کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کون میری مثل ہے؟ میں تو اس حالت میں رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھ کھلاتا اور پلاتا ہے۔‘‘ تو جب لوگوں نے وصال چھوڑنے سے انکار کیا تو آپﷺ نے ان کے ساتھ ایک دن پھر دوسرے دن بلا افطار و سحری روزہ رکھا، اس کے بعد انھوں نے چاند دیکھ لیا، آپﷺ نے فرمایا: اگر چاند لیٹ ہوتا تو میں تمھارے ساتھ مزید (وصال) کرتا۔‘‘ جب انہوں نے باز آنے سے انکار کیا تو آپ ﷺ نے انھیں سزا دینے والے کی طرح فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
وصال پر اصرار بنیادی طور پر نیکی سے رغبت کی بنا پر تھا۔ لیکن اسلام اعتدال کا دین ہے۔ افراط و تفریط سے روکتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کی تربیت کےلیے یہ طریقہ اختیار فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا افطار مسلسل روزے رکھنے سے منع فرمایا: تو ایک مسلمان آدمی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ بھی تو وصال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کون میری مثل ہے؟ میں اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ مجھے میرا رب کھلاتا پلاتا ہے تو جب لوگوں نے وصال پر اصرار کیا (لوگ وصال سے نہ رکے) تو آپﷺ نے ان کے ساتھ ایک دن پھر دوسرے دن بلا افطار و سحری روزہ رکھا، پھر انھوں نے چاند دیکھ لیا۔ تو آپﷺ نے فرمایا: اگر چاند لیٹ ہوتا تو میں تمھارے ساتھ اور وصال کرتا۔ گویا جب وہ وصال سے باز نہ آئے۔ تو آپﷺ نے انہیں بطور عبرت و سزا یہ فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported: The Messenger of Allah (ﷺ) forbade (his Companions) from observing fast unintermptedly. One of the Muslims said: Messenger of Allah, you yourself observe Saum Wisal. Whereupon the Messenger of Allah (ﷺ) said: Who among you is like me? I spend night (in a state) that my Allah feeds me and provides me drink. When they (the Companions of the Holy Prophet) did not agree in abandoning the uninterrupted fast, then the Holy Prophet (ﷺ) also observed this fast with them for a day, and then for a day. They then saw the new moon and he (the Holy Prophet) said: If the appearance of the new moon were delayed, I would have observed more (fasts) with you (and he did it) by way of warning to them as they had not agreed to refrain (from observing Saum Wisal)