باب: (روزوں میں )وصال (ایک روزے کو افطار کیے بغیر دوسرے سے ملانے)کی ممانعت
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: The prohibition of Al-Wisal)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1104.
سلیمان نے ثابت سے اور انھوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ رمضان میں (رات کی) نماز پڑھ رہے تھے میں آیا اور آ کر آپ ﷺ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا، ایک اور آدمی آیا اوروہ بھی کھڑا ہو گیا حتی کہ ہم ایک جماعت بن گئے۔ جب نبی کریم ﷺ نے محسوس کیا کہ ہم آپﷺ کے پیچھے ہیں تو آپ ﷺ نے نماز میں تخفیف شروع کر دی۔ پھر آپ ﷺ گھر میں تشریف کے گئے۔ اس کے بعد آپﷺ نے ایک ایسی (لمبی) نماز پڑھی جو ہمارے پاس نہیں پڑھتے تھے۔ کہا: جب ہم نے صبح کی، ہم نے آپ ﷺ سے پوچھا: کیا آپ کو رات ہمارا پتہ چل گیا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں، اسی بات نے مجھے ا س کام پر آمادہ کیا جو میں نے کیا‘‘حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے وصال کرنا شروع کر دیا اور یہ وصال مہینے کے آخر میں تھا۔ آپﷺ کے ساتھیوں میں سے بھی کچھ لوگ وصال کرنے لگے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: لوگوں کا معاملہ کیا ہے کہ وہ وصال کر رہے ہیں؟ تم میری مانند نہیں ہو، ہاں، اللہ کی قسم! اگر یہ مہینہ میرے لیے زیادہ ہو جاتا تو میں ایسا وصال کرتا کہ زیادہ گہرائی میں جانے والے گہرائی میں جانا چھوڑ دیتے۔‘‘
تشریح:
فوائد و مسائل:
آپﷺ نے ہمیشہ یہی پسند فرمایا کہ امت انسانی استطاعت کے مطابق عمل کرے اور اس پر ثابت قدم رہے۔ آپﷺ نے رہبانیت کی نفی فرمائی۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
سلیمان نے ثابت سے اور انھوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ رمضان میں (رات کی) نماز پڑھ رہے تھے میں آیا اور آ کر آپ ﷺ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا، ایک اور آدمی آیا اوروہ بھی کھڑا ہو گیا حتی کہ ہم ایک جماعت بن گئے۔ جب نبی کریم ﷺ نے محسوس کیا کہ ہم آپﷺ کے پیچھے ہیں تو آپ ﷺ نے نماز میں تخفیف شروع کر دی۔ پھر آپ ﷺ گھر میں تشریف کے گئے۔ اس کے بعد آپﷺ نے ایک ایسی (لمبی) نماز پڑھی جو ہمارے پاس نہیں پڑھتے تھے۔ کہا: جب ہم نے صبح کی، ہم نے آپ ﷺ سے پوچھا: کیا آپ کو رات ہمارا پتہ چل گیا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں، اسی بات نے مجھے ا س کام پر آمادہ کیا جو میں نے کیا‘‘ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے وصال کرنا شروع کر دیا اور یہ وصال مہینے کے آخر میں تھا۔ آپﷺ کے ساتھیوں میں سے بھی کچھ لوگ وصال کرنے لگے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: لوگوں کا معاملہ کیا ہے کہ وہ وصال کر رہے ہیں؟ تم میری مانند نہیں ہو، ہاں، اللہ کی قسم! اگر یہ مہینہ میرے لیے زیادہ ہو جاتا تو میں ایسا وصال کرتا کہ زیادہ گہرائی میں جانے والے گہرائی میں جانا چھوڑ دیتے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد و مسائل:
آپﷺ نے ہمیشہ یہی پسند فرمایا کہ امت انسانی استطاعت کے مطابق عمل کرے اور اس پر ثابت قدم رہے۔ آپﷺ نے رہبانیت کی نفی فرمائی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں نماز پڑھتے تھے میں بھی آ کر آپ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا ایک اور آدمی آیا وہ بھی کھڑا ہو گیا حتی کہ ہم ایک جماعت بن گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ میں بھی آپﷺ کے پیچھے ہوں تو آپﷺ نے نماز میں تخفیف شروع کر دی۔ پھر آپﷺ اپنے گھر چلے گئے۔ تو ایسی نماز پڑھی جو ہمارے پاس نہیں پڑھی تھی۔ جب صبح ہوئی تو ہم نے آپﷺ سے پوچھا: کیا آپﷺ کو رات ہمارا پتہ چل گیا تھا؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں! اس چیز نے تو مجھے اس کام پر آمادہ کیا جو میں نے کیا۔‘‘ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینہ کے آخری دنوں میں وصال کرنا شروع کر دیا تو آپﷺ کے ساتھیوں میں سے بھی کچھ لوگوں نے وصال کرنا شروع کر دیا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں نے وصال کرنا کیوں شروع کر دیا ہے! تم میرے جیسے نہیں ہو، ہاں اللہ کی قسم! اگر یہ ماہ لمبا ہوتا تو میں اس انداز سے وصال کرتا کہ تشدد پسند اپنے تشدد اور انتہا پسندی سے باز آ جاتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas (RA) reported The Messenger of Allah (ﷺ) was observing prayer during Ramadan. I came and stood by his side. Then another man came and he stood likewise till we became a group. When the Apostle of Allah (ﷺ) perceived that we were behind him, he lightened the prayer. He then went to his abode and observed such (a long) prayer (the like of which) he never observed with us. When it was morning we said to him: Did you perceive us during the night? Upon this he said: Yes, it was this (realisation) that induced me to do that which I did. He (the narrator) said: The Messenger of Allah (ﷺ) began to observe Saum Wisal at the end of the month (of Ramadan), and some persons among his Companions began to observe this uninterrupted fast, whereupon the Apostle of Allah (ﷺ) said: What about such persons who observe uninterrupted fasts? You are not like me. By Allah. if the month were lengthened for me, I would have observed Saum Wisal, so that those who act with an exaggeration would (have been obliged) to abandon their exaggeration. 1501