باب: اگر سفر گناہ کے لیے نہیں تو رمضان میں مسافر کے لیے جبکہ اس کا سفر دو یادو سے زائد منزلوں کا ہے روزہ رکھنا اور روزہ چھوڑنا دونوں جائز ہیں اور جو آدمی نقصان اٹھائے بغیر روزہ رکھ سکتا ہے ‘
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: It is permissible to fast or not to fast during Ramadan for one who is travelling for no sinful purpose, if his journey is two stages or further. But it is better for the one who is able to fast without suffering any harm to do so, and the one for whom it is difficult may break the fast)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1114.
عبدالوہاب بن عبدالمجید نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا) ہمیں جعفر نے اپنے والد سے حدیث سنائی، انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی، کہ فتح مکہ کے سال رسول اللہ ﷺ رمضان میں مکہ کی طرف نکلے تو آپ ﷺ نے روزے رکھے یہاں تک کہ کراع الغمیم مقام پر پہنچ گئے۔ (یہ اور کدید، عسفان کے ارد گرد کے علاقےہیں فتح مکہ کے لیے جانے والی فوج نے مکہ سے دو مرحلے پہلے اسی علاقے میں ایک رات پڑاؤ کیا) لوگوں نے بھی روزے رکھے، پھر آپ ﷺ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا، اس کو بلند کیا یہاں تک کہ لوگوں نے اس کو دیکھ لیا، پھر آپﷺ نے اسے پی لیا اس کے بعد آپ ﷺ سے کہا گیا: کچھ لوگوں نے (ابھی تک) روزہ رکھا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ ماننے والے ہیں یہ نہ ماننے والے ہیں۔‘‘
تشریح:
فوائد ومسائل
رسول اللہ ﷺ نے سفر کے دوران میں روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کی اجازت دے رکھی تھی لیکن اس موقع پر روزے لوگوں کے لیے تکلیف اور مشقت کا باعث بن رہے تھے، اس لیے آؓ5 نے لوگوں کی شدید مشقت کی بنا پر اس انداز میں افطار کیا کہ سب دیکھ لیں اور افطار کر لیں۔ آپﷺ کے اس عمل کے باوجود افطار نہ کرنے والے سخت زجر و تو بیخ کے مسحق تھے۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
عبدالوہاب بن عبدالمجید نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا) ہمیں جعفر نے اپنے والد سے حدیث سنائی، انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی، کہ فتح مکہ کے سال رسول اللہ ﷺ رمضان میں مکہ کی طرف نکلے تو آپ ﷺ نے روزے رکھے یہاں تک کہ کراع الغمیم مقام پر پہنچ گئے۔ (یہ اور کدید، عسفان کے ارد گرد کے علاقےہیں فتح مکہ کے لیے جانے والی فوج نے مکہ سے دو مرحلے پہلے اسی علاقے میں ایک رات پڑاؤ کیا) لوگوں نے بھی روزے رکھے، پھر آپ ﷺ نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا، اس کو بلند کیا یہاں تک کہ لوگوں نے اس کو دیکھ لیا، پھر آپﷺ نے اسے پی لیا اس کے بعد آپ ﷺ سے کہا گیا: کچھ لوگوں نے (ابھی تک) روزہ رکھا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ ماننے والے ہیں یہ نہ ماننے والے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
رسول اللہ ﷺ نے سفر کے دوران میں روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کی اجازت دے رکھی تھی لیکن اس موقع پر روزے لوگوں کے لیے تکلیف اور مشقت کا باعث بن رہے تھے، اس لیے آؓ5 نے لوگوں کی شدید مشقت کی بنا پر اس انداز میں افطار کیا کہ سب دیکھ لیں اور افطار کر لیں۔ آپﷺ کے اس عمل کے باوجود افطار نہ کرنے والے سخت زجر و تو بیخ کے مسحق تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ والے سال رمضان میں مکہ کے سفر پر نکلے اور روزہ رکھتے رہے حتی کہ کراع الغمیم نامی جگہ پر پہنچے اور لوگوں نے بھی روزے رکھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا پیالہ منگوا لیا اور اسے بلند کیا تاکہ لوگ بھی اس کو دیکھ لیں، پھر آپﷺ نے پی لیا بعد میں آپﷺ کو بتایا گیا کہ بعض لوگ روزے دار ہیں تو آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ لوگ نافرمان ہیں یہ لوگ نافرمان ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو دکھا کر جنگی مصلحت اور لوگوں کی سہولت وآسانی کے لیے پانی پیا تاکہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کریں اور سب لوگوں کو عملاً پتہ چل جائے کہ سفر میں روزہ افطار بھی کیا جا سکتا ہے اس کے باوجود کچھ لوگوں نے آپﷺ کی اقتداء اور متابعت نہ کی اور آپﷺ کی خلاف ورزی کی اس لیے آپﷺ نے ان کو نافرمان قراردیا محض اس وجہ سے نافرمان نہیں کہا کہ انھوں نے روزہ رکھا روزہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اب تک رکھتے چلے آ رہے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir bin 'Abdullah (Allah be pleased with both of them) reported that Allah's Messenger (ﷺ) went out to Makkah in Ramadan in the year of Victory, and he and the people fasted till he came to Kura' al-Ghamim and the people also fasted. He then called for a cup of water which he raised till the people saw it, and then he drank. He was told afterwards that some people had continued to fast, and he said: These people are the disobedient ones; these are the disobedient ones.