باب: اس شخص کے لیے سال بھر کے روزے رکھنے کی ممانعت جسے اس سےنقصان پہنچنے یا وہ اس کی وجہ سے کسی حق کو ضائع کرے ‘یا عید ین اور ایام تشریق کاٰ روزہ بھی نہ چھوڑے ‘اور ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن نہ رکھنے کی فضیلت
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: Prohibition of Fasting for a lifetime for the one who will be harmed by that or who will neglect other duties, or does not break his fast on the two 'Ids or during the days of At-Tashriq; It is better to fast alternate days)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1159.
ابن شہاب نے سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبدالرحمان سے روایت کی کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دی گئی کہ وہ (عبداللہ) کہتا ہے: میں جب تک زندہ ہوں (مسلسل) رات کا قیام کروں گا اور دن کا روزہ رکھوں گا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم ہی ہو جو یہ باتیں کرتے ہو؟‘‘ میں نے آپ ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! واقعی میں نے ہی یہ کہا ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم یہ کام نہیں کر سکو گے، لہٰذا روزہ رکھو اور روزہ ترک بھی کرو۔ نیند بھی کرو اور قیام بھی کرو، مہینے میں تین دن کے روزے رکھ لیا کرو کیونکہ ہر نیکی (کا اجر) دس گنا ہے۔ اس طرح یہ سارے وقت کے روزوں کی طرح ہے۔‘‘ میں نے عرض کی: میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک دن روزہ رکھو اور دو دن نہ رکھو۔‘‘ کہا: میں نے عرض کی: میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک دن روزہ رکھو اورایک دن نہ رکھو۔‘‘ یہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے۔ اور یہ روزوں کا سب سے منصفانہ (طریقہ ) ہے۔‘‘ کہا: میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس سے افضل کوئی صورت نہیں۔‘‘ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: یہ بات مجھے اپنے اہل وعیال سے بھی زیاد عزیز ہے کہ میں (مہینے میں) تین دنوں کی بات تسلیم کر لیتا جو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمائی تھی۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
ابن شہاب نے سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبدالرحمان سے روایت کی کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دی گئی کہ وہ (عبداللہ) کہتا ہے: میں جب تک زندہ ہوں (مسلسل) رات کا قیام کروں گا اور دن کا روزہ رکھوں گا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم ہی ہو جو یہ باتیں کرتے ہو؟‘‘ میں نے آپ ﷺ سے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! واقعی میں نے ہی یہ کہا ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم یہ کام نہیں کر سکو گے، لہٰذا روزہ رکھو اور روزہ ترک بھی کرو۔ نیند بھی کرو اور قیام بھی کرو، مہینے میں تین دن کے روزے رکھ لیا کرو کیونکہ ہر نیکی (کا اجر) دس گنا ہے۔ اس طرح یہ سارے وقت کے روزوں کی طرح ہے۔‘‘ میں نے عرض کی: میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک دن روزہ رکھو اور دو دن نہ رکھو۔‘‘ کہا: میں نے عرض کی: میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک دن روزہ رکھو اورایک دن نہ رکھو۔‘‘ یہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے۔ اور یہ روزوں کا سب سے منصفانہ (طریقہ ) ہے۔‘‘ کہا: میں اس سے افضل عمل کی طاقت رکھتا ہوں۔آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اس سے افضل کوئی صورت نہیں۔‘‘ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: یہ بات مجھے اپنے اہل وعیال سے بھی زیاد عزیز ہے کہ میں (مہینے میں) تین دنوں کی بات تسلیم کر لیتا جو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمائی تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے بارے میں یہ اطلاع دی گئی کہ وہ کہتا ہے میں زندگی بھر رات کو قیام کروں گا اور دن کو روزہ رکھوں گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تو ہی ہے جو یہ باتیں کرتا ہے؟‘‘ تو میں نے آپﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! واقعی میں نے یہ باتیں کہی ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم یہ کام نہیں کر سکو گے۔ اس لیے روزہ رکھو بھی اور افطار بھی کرو، نیند بھی کرو اور قیام بھی اور ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو کیونکہ ہر نیکی کا درجہ کم از کم دس (10) گنا ہے اس طرح یہ روزے ہمیشہ ہمیشہ کے برابر ہو جائیں گے۔‘‘ میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپﷺ نے فرمایا: ’’ایک دن روزہ رکھو اور دو دن افطار کرو۔‘‘ تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں اس سے زیادہ اور بہتر کی طاقت رکھتا ہوں، آپﷺ نے فرمایا: ’’ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن نہ رکھو یہ داؤدی روزہ ہے اور یہ بہترین روزے ہیں۔‘‘ میں نے کہا: میں اس سے بہتر کی طاقت رکھتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس سے بہتر کوئی صورت نہیں ہے۔‘‘ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اگر میں آپﷺ کی تین دن کی بات تسلیم کر لیتا تو یہ میرے لیے میرے اہل و مال سے زیادہ پیاری ہوتی (کیونکہ بڑھاپا، کمزوری میں ان کے لیے اپنی بات کی پابندی وقت اور مشقت کا باعث بنی رہی تھی)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah bin 'Amr bin al-'As reported that the Messenger of Allah (ﷺ) was informed that he could stand up for (prayer) throughout the night and observe fast every day so long as he lived. Thereupon the Messenger of Allah (ﷺ) said: Is it you who said this? I said to him: Messenger of Allah, it is I who said that. Thereupon the Messenger of Allah (ﷺ) may peace be upon him) said: You are not capable enough to do so. Observe fast and break it; sleep and stand for prayer, and observe fast for three days during the month; for every good is multiplied ten times and this is like fasting for ever. I said: Messenger of Allah. I am capable of doing more than this. Thereupon he said: Fast one day and do not fast for the next two days. I said: Messenger of Allah, I have the strength to do more than that. The Holy Prophet (ﷺ) , said: Fast one day and break on the other day. That is known as the fasting of David (peace be upon him) and that is the best fasting. I said: I am capable of doing more than this. Thereupon the Messenger of Allah (ﷺ) said: There is nothing better than this. 'Abdullah bin 'Amr (RA) said: Had I accepted the three days (fasting during every month) as the Messenger of Allah (ﷺ) had said, it would have been more dear to me than my family and my property.