صحیح مسلم
15. کتاب: روزے کے احکام و مسائل
36. باب: ہر مہینے تین دن کےے روزے رکھنا اور عرفہ ‘عاشورہ ‘سوموار اور جمعرات کے دن کا روزہ رکھنا مستحب ہے
صحيح مسلم
15. كتاب الصيام
36. بَابُ اسْتِحْبَابِ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ وَعَاشُورَاءَ وَالِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ
Muslim
15. The Book of Fasting
36. Chapter: It is recommended to fast three days of every month, and to fast on the days of 'Arafah and 'Ashura', and to fast on Mondays and Thursdays
باب: ہر مہینے تین دن کےے روزے رکھنا اور عرفہ ‘عاشورہ ‘سوموار اور جمعرات کے دن کا روزہ رکھنا مستحب ہے
)
Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: It is recommended to fast three days of every month, and to fast on the days of 'Arafah and 'Ashura', and to fast on Mondays and Thursdays)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1162.
حماد نے غیلان سے، انھوں نے عبداللہ بن معبد زمانی سے اور انھوں نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: آپ کس طرح روزے رکھتے ہیں؟ اس کی بات سے رسول اللہ ﷺ غصے میں آ گئے، جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ﷺ کا غصہ دیکھا تو کہنے لگے: ہم اللہ کے رب ہونے،اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پر راضی ہیں، ہم اللہ کے غصے سے اور اس کے رسول ﷺ کے غصے سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بار بار ان کلمات کو دہرانے لگے حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ اس شخص کا کیا حکم ہے جو سال بھر (مسلسل) روزہ رکھتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہ اس نے روزہ رکھا نہ اس نے افطارکیا۔‘‘ یا فرمایا۔ ’’اس نے روزہ نہیں رکھا اس نے افطار نہیں کیا۔‘‘ کہا: اس کا کیا حکم ہے جو دو دن روزہ رکھتا ہے اور ایک دن افطار کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا کوئی اس کی طاقت رکھتا ہے؟‘‘ پوچھا: اس کا کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھتا ہے اور ایک دن افطار کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے۔‘‘ پوچھا: اس کا کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھتا ہے اور دو دن افطار کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے پسند ہے کہ مجھے اس کی طاقت مل جاتی۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر مہینے کے تین روزے اور ایک رمضان (کے روزوں) سے (لے کردوسرے) رمضان (کے روزے) یہ (عمل) سارے سال کے روزوں (کے برابر) ہے۔ اور عرفہ کے دن کا روزہ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا اور اگلے سال کے گناہوں کا بھی اور یوم عاشورہ کا روزہ،میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔‘‘
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
حماد نے غیلان سے، انھوں نے عبداللہ بن معبد زمانی سے اور انھوں نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: آپ کس طرح روزے رکھتے ہیں؟ اس کی بات سے رسول اللہ ﷺ غصے میں آ گئے، جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ﷺ کا غصہ دیکھا تو کہنے لگے: ہم اللہ کے رب ہونے،اسلام کے دین ہونے اور محمد ﷺ کے رسول ہونے پر راضی ہیں، ہم اللہ کے غصے سے اور اس کے رسول ﷺ کے غصے سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بار بار ان کلمات کو دہرانے لگے حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ اس شخص کا کیا حکم ہے جو سال بھر (مسلسل) روزہ رکھتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہ اس نے روزہ رکھا نہ اس نے افطارکیا۔‘‘ یا فرمایا۔ ’’اس نے روزہ نہیں رکھا اس نے افطار نہیں کیا۔‘‘ کہا: اس کا کیا حکم ہے جو دو دن روزہ رکھتا ہے اور ایک دن افطار کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا کوئی اس کی طاقت رکھتا ہے؟‘‘ پوچھا: اس کا کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھتا ہے اور ایک دن افطار کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ داود علیہ السلام کا روزہ ہے۔‘‘ پوچھا: اس کا کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھتا ہے اور دو دن افطار کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے پسند ہے کہ مجھے اس کی طاقت مل جاتی۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر مہینے کے تین روزے اور ایک رمضان (کے روزوں) سے (لے کردوسرے) رمضان (کے روزے) یہ (عمل) سارے سال کے روزوں (کے برابر) ہے۔ اور عرفہ کے دن کا روزہ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا اور اگلے سال کے گناہوں کا بھی اور یوم عاشورہ کا روزہ،میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کس طرح رکھتے ہیں؟ (یعنی نفلی روزوں کے بارے میں آپﷺ کا معمول اور دستورکیا ہے) تو اس کی بات سے (سوال سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپﷺ کی ناراضی کو دیکھا تو کہنے لگے ہم راضی اور مطمئن ہیں اللہ کو اپنا رب مان کر اور اسلام کو اپنا ضابطہ حیات مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا نبی مان کر، اللہ کی پناہ چاہتے ہیں اللہ کی ناراضی اور اس کے رسول کی ناراضی سے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ باربار ان کلمات کو دہرانے لگے حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا (آپﷺ کے مزاج مبارک میں جو ناگواری پیدا ہو گئی تھی اس کا اثر زائل ہو گیا) تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ شخص کیسا ہے جو ہمیشہ بلا ناغہ روزہ رکھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہ اس نےروزہ رکھا نہ افطار کیا۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: اس کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا کسی میں اس کی طاقت ہے؟‘‘ (یعنی یہ بہت مشکل ہے ہمیشہ روزہ رکھنے سے بھی زیادہ مشکل اس لیے اس کا ارادہ نہیں کرنا چاہیے) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: اس کے بارے میں کیا فرمان ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن ناغہ کرے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ صوم داؤد علیہ السلام ہے۔‘‘ (جن کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی جسمانی قوت بخشی تھی) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: اس آدمی کے بارے میں کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن ناغہ کرے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’میرا جی چاہتا ہے کہ مجھے اس کی طاقت عطا فرمائی جائے۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر مہینے کے تین روزے اور رمضان تا رمضان یہ (اجرو ثواب کے لحاظ سے) ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہے۔ اورمیں عرفہ کے دن (نو ذوالحجہ) کے روزے کے بارے میں میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کو ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بنا دے گا، یعنی اس کی برکت سے دو سال کے گناہوں کی گندگیاں دھل جائیں گی۔اور میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ عاشورہ (دس محرم ) کے روزے سے گزشتہ سال کے صغیرہ گناہ دھل جائیں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حدیث کا اصل مفہوم اور مقصد تو بالکل واضح ہے، لیکن چند ضمنی باتیں وضاحت طلب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سوال سے ناراض ہو گئے تو آپﷺ کے رخ انور پر ناگواری اور برہمی کے آثار نمایاں ہو گئے کہ آپﷺ کس طرح روزے رکھتے ہیں؟ اس کا سبب یہ ہے کہ اس کا سوال غلط اور نامناسب تھا اس کو یہ پوچھنا چاہیے تھا کہ میں کس طرح روزے رکھوں اور میرے لیے کون سا طرز عمل مناسب ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سے شعبوں اور امورزندگی میں، منصب نبوت اور مصالح امت کی رعایت کی بنا پر ایسا طرز عمل بھی اختیار فرماتے تھے جس کی پیروی ہر ایک شخص کے بس میں نہیں اور نہ ہی مناسب ہے۔ اس لیے سائل کو روزے رکھنے کے لیے آپﷺ کا معمول نہیں پوچھنا چاہیے تھا کیونکہ آپﷺ شفیق استاد اور مربی بھی تھے، اس لیے آپﷺ کی ناگواری دراصل تربیت کا ہی حصہ تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سوال سے آپﷺ کی ناگواری محسوس کر کے تمام مسلمانوں کی طرف سے بار بار ایسے کلمات دہرائے جن سے آپﷺ کی ناگواری زائل ہو گئی اور اس کے بعد نفلی روزوں کے بارے میں صحیح طریقے سے سوالات کیے اورآپﷺ نے جوابات مرحمت فرمائے۔ (لا صام ولا أفطر - أو لم يصم ولم يفطر) کا مقصد یہ ہے کہ یہ پسندیدہ طرز عمل نہیں ہے کیونکہ روزہ عادت بن جائےگا تو اس کو اثر اور احساس ختم ہو جائے گا۔ آخر میں آپﷺ نے فرمایا: روزوں کے سلسلہ میں عام مسلمانوں کے لیے یہی کافی ہے کہ رمضان کے فرض روزے رکھا لیا کریں اور اس کے علاوہ ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کریں، جو (بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا) ہر نیک عمل کا اجر کم از کم دس گناہ کے اصول کے مطابق، پورے ماہ کا ثواب مل جائے گا اوریہ صوم الدہر بن جائیں گے، مزید اجروثواب کے لیے یوم عرفہ اور یوم عاشورہ کاروزہ رکھا لیا کریں، لیکن واضح رہے عرفہ کا روزہ غیر حاجیوں کو اس دن کی رحمتوں اور برکتوں میں حصہ دار بنانے کے لیے ہے جو عرفات میں حاجیوں پر نازل ہوتی ہیں، حاجیوں کے لیے اس دن کی مخصوص اور مقبول ترین عبادت میدان عرفات کا وقوف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Qatadah (RA) reported that a person came to the Apostle of Allah (ﷺ) and said: How do you observe fast? The Messenger of Allah (ﷺ) felt annoyed. When 'Umar (RA) noticed his annoyance, he said: We are well pleased with Allah as our Lord, with Islam as our Code of Life, and with Muhammad as our Prophet. We seek refuge with Allah from the anger of Allah and that of His Messenger. 'Umar kept on repeating these words till his (the Prophet's) anger calmed down. Then Umar said: Messenger of Allah. what is the position of one who perpetually observes fasts? Thereupon he said: He neither fasted nor broke it, or he said: He did not fast and he did not break it. He said: What about him who observes fast for two days and breaks one day. Thereupon he said: Is anyone capable of doing it? He ('Umar) said: What is the position of him who observes fast for a day and breaks on the other day? Thereupon he (the Holy Prophet) said: That is the fast of David (peace be upon him). He ('Umar) said: What about him who observes fast one day and breaks it for two days. Thereupon he (the Messenger of Allah) (ﷺ) said: I wish, I were given strength to observe that. Thereafter he said: The observance of three days' fast every Month and that of Ramadan every year is a perpetual fasting. I seek from Allah that fasting on the day of 'Arafa may atone for the sins of the preceding and the coming years. and I seek from Allah that fasting on the day of Ashura may atone for the sins of the preceding year.