باب: احرام کی مختلف صورتیں ‘حج افراد تمتع اور قران ‘نیز عمرے (کے احرام )میں ‘احرام حج کو شامل کر لینے کا جواز ‘اور (یہ کہ)حج قران کرنے والا کب احرام کھولے
)
Muslim:
The Book of Pilgrimage
(Chapter: Clarifying the types of Ihram; and that it is permissible to perfom Hajj that is Ifrad, Tamattu and Qiran. It is permissible to join Hajj to Umrah. And when the pilgrim who is performing Qiran should exit Ihram)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1213.
قتیبہ نے کہا: ہم سے لیث نے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو زبیر سے انھوں نے حضرت جا بر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اکیلے حج (افرا د) کا تلبیہ پکا رتے ہو ئے آئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا صرف عمرے کی نیت سے آئیں۔ جب ہم مقام سرف پہنچے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ایام شروع ہو گئے حتی کہ جب ہم مکہ آئے تو ہم نے کعبہ اور صفا مروہ کا طواف کر لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم میں سے جس کسی کے ہمرا ہ قر با نی نہیں، وہ (احرا م چھوڑ کر) حلت (عدم احرا م کی حالت) اختیا ر کرلے۔ ہم نے پو چھا: کو ن سی حلت ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مکمل حلت (احرا م کی تمام پابندیوں سے آزادی۔)‘‘ تو پھر ہم اپنی عورتوں کے پاس گئے خوشبو لگا ئی اور معمول کے کپڑے پہن لئے۔ (اور اس وقت) ہمارے اور عرفہ (کو روانگی) کے درمیان چار راتیں باقی تھیں۔ پھر ہم نے ترویہ والے دن (آٹھ ذوالحجہ کو) تلبیہ پکارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے خیمے میں دا خل ہو ئے تو انھیں روتا ہوا پا یا۔ پوچھا: ’’تمھا را کیا معاملہ ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: میرا معاملہ یہ ہے کہ مجھے ایام شروع ہو گئے ہیں۔ لو گ حلال (احرا م سے فارغ) ہو چکے ہیں اور میں ابھی نہیں ہو ئی اور نہ میں نے ابھی بیت اللہ کا طواف کیا ہے لو گ اب حج کے لیے روانہ ہو رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(پریشان مت ہو) یہ (حیض) ایسا معاملہ ہے جو اللہ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کی قسم میں لکھ دیا ہے تم غسل کر لو اور حج کا (احرا م باندھ کر) تلبیہ پکارو۔‘‘ انھوں نے ایسا ہی کیا اور وقوف کے ہر مقام پر وقوف کیا (حاضری دی دعائیں کیں) اور جب پا ک ہو گئیں تو عرفہ کے دن) بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے) فرمایا: ’’تم اپنے حج اور عمرے دونوں (مکمل کر کے ان کے احرا م کی پابندیوں) سے آزاد ہو چکی ہو۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے دل میں (ہمیشہ) یہ کھٹکا رہے گا کہ میں حج کرنے تک بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عبد الرحمٰن! انھیں لے جاؤ اور تنعیم سے عمرہ کرا لاؤ۔ اور یہ (منیٰ سے واپسی پر) حَصبَہ ( میں قیام والی رات کا واقعہ ہے)۔
قتیبہ نے کہا: ہم سے لیث نے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو زبیر سے انھوں نے حضرت جا بر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اکیلے حج (افرا د) کا تلبیہ پکا رتے ہو ئے آئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا صرف عمرے کی نیت سے آئیں۔ جب ہم مقام سرف پہنچے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ایام شروع ہو گئے حتی کہ جب ہم مکہ آئے تو ہم نے کعبہ اور صفا مروہ کا طواف کر لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم میں سے جس کسی کے ہمرا ہ قر با نی نہیں، وہ (احرا م چھوڑ کر) حلت (عدم احرا م کی حالت) اختیا ر کرلے۔ ہم نے پو چھا: کو ن سی حلت ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مکمل حلت (احرا م کی تمام پابندیوں سے آزادی۔)‘‘ تو پھر ہم اپنی عورتوں کے پاس گئے خوشبو لگا ئی اور معمول کے کپڑے پہن لئے۔ (اور اس وقت) ہمارے اور عرفہ (کو روانگی) کے درمیان چار راتیں باقی تھیں۔ پھر ہم نے ترویہ والے دن (آٹھ ذوالحجہ کو) تلبیہ پکارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے خیمے میں دا خل ہو ئے تو انھیں روتا ہوا پا یا۔ پوچھا: ’’تمھا را کیا معاملہ ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: میرا معاملہ یہ ہے کہ مجھے ایام شروع ہو گئے ہیں۔ لو گ حلال (احرا م سے فارغ) ہو چکے ہیں اور میں ابھی نہیں ہو ئی اور نہ میں نے ابھی بیت اللہ کا طواف کیا ہے لو گ اب حج کے لیے روانہ ہو رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(پریشان مت ہو) یہ (حیض) ایسا معاملہ ہے جو اللہ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کی قسم میں لکھ دیا ہے تم غسل کر لو اور حج کا (احرا م باندھ کر) تلبیہ پکارو۔‘‘ انھوں نے ایسا ہی کیا اور وقوف کے ہر مقام پر وقوف کیا (حاضری دی دعائیں کیں) اور جب پا ک ہو گئیں تو عرفہ کے دن) بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے) فرمایا: ’’تم اپنے حج اور عمرے دونوں (مکمل کر کے ان کے احرا م کی پابندیوں) سے آزاد ہو چکی ہو۔ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے دل میں (ہمیشہ) یہ کھٹکا رہے گا کہ میں حج کرنے تک بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عبد الرحمٰن! انھیں لے جاؤ اور تنعیم سے عمرہ کرا لاؤ۔ اور یہ (منیٰ سے واپسی پر) حَصبَہ ( میں قیام والی رات کا واقعہ ہے)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج مفرد کا احرام باندھ کر چلے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عمرہ کا احرام باندھ کر چلیں، حتی کہ جب ہم سرف مقام پر پہنچ گئے، انہیں حیض آنا شروع ہو گیا، حتی کہ جب ہم مکہ پہنچے، ہم نے بیت اللہ اور صفا اور مروہ کا طواف کر لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جس کے پاس ہدی نہیں ہے، وہ احرام کھول دے تو ہم نے پوچھا، حلال ہونے سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مکمل حلت۔‘‘ تو ہم بیویوں کے پاس گئے اور خوشبو لگائی اور اپنے کپڑے پہن لیے، ہمارے اور عرفہ کے درمیان چار دن باقی تھے، پھر ہم نے ترویہ کے دن (آٹھ ذوالحجہ کو) احرام باندھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئے تو انہیں روتے ہوئے پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ’’تمہیں کیا ہوا؟‘‘ انہوں نے جواب دیا، میری حالت یہ ہے، میں حائضہ ہوں، لوگ احرام کھول چکے ہیں اور میں نے احرام نہیں کھولا اور نہ میں نے بیت اللہ کا طواف کیا ہے اور لوگ اب حج کے لیے جا رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ ایسی چیز ہے جو اللہ نے آدم کی بیٹیوں کی فطرت میں رکھ دی ہے، تم غسل کر کے، حج کا احرام باندھ لو۔‘‘ تو میں نے ایسے ہی کیا اور تمام مقامات پر وقوف کیا، (ٹھہری) حتی کہ جب پاک ہو گئی تو کعبہ اور صفا اور مروہ کا طواف کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنے حج اور عمرہ دونوں سے حلال ہو گئی ہو۔‘‘ تو اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں اپنے دل میں کھٹک محسوس کر رہی ہوں کہ میں حج سے پہلے بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکی، (حالانکہ میں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عبدالرحمٰن! اسے لے جاؤ اور اسے تنعیم سے عمرہ کرواؤ۔‘‘ اور یہ مَحصَب کی رات کا واقعہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہےکہ جو لوگ مکہ مکرمہ پہنچ کر، عمرہ کا طواف کر کے احرام کھول دیں وہ مکمل طور پر حلال ہو جاتے ہیں اور ان پر احرام کی کوئی پابندی برقرار نہیں رہتی حتی کہ ان کے لیے جنسی تعلقات قائم کرنا بھی جائز ہو جاتا ہے اور وہ حج کے لیےنئے سرے سے احرام آٹھ ذوالحجہ کو باندھیں گے اور اس کے لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ وہ آٹھ تاریخ کو غسل کر کے احرام باندھیں، اگر عورت حائضہ ہو تو وہ بھی غسل کر لے نیز اس حدیث سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عمرہ پر حج کا احرام باندھا تھا عمرہ کوترک نہیں کیا تھا اس لیے آپ کا حج، حج قِران تھا حج مفرد نہ تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اپنے حج اور عمرہ دونوں سےحلال ہو گئی ہو۔‘‘ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تنعیم سے جو عمرہ کیا وہ محض دل کے کھٹک اور خلجان کو دور کرنے کے لیے تھا عمرہ ترک نہیں کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قضائی دی ہو اور اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حج قِران کے لیے ایک طواف اور ایک سعی کافی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir (RA) said: We, in the state of Ihram, came with the Messenger of Allah (ﷺ) for Hajj Mufrad (with the aim of Hajj only), and 'A'isha set out for 'Umrah, and when we reached Sarif, she (Hadrat A'isha) entered in the state of monthly period; we proceeded on till we reached (Makkah) and circumambulated the Ka’bah and ran between (al-Safa) and al-Marwah; and the Messenger of Allah (ﷺ) commanded that one who amongst us had no sacrificial animal with him should put off Ihram. We said: What does this "Putting off" imply? He said: Getting out completely from the state of Ihram, (so we put off Ihram), and we turned to our wives and applied perfume and put on our clothes, and we were at a four night's distance from 'Arafa. And we again put on Ihram on the day of Tarwiya (8th of Dhu'l-Hijja). The Messenger of Allah (ﷺ) came to 'A'isha (Allah be pleased with her) and found her weeping, and said: What is the matter with you? She said: The matter is that I have entered in the monthly period, and the people had put off Ihram, but I did not and I did not circumambulate the House, and the people are going for Hajj now (but I can't go), whereupon he said: It is the matter which Allah has ordained for the daughters of Adam, so now take a bath and put on Ihram for Hajj. She ('A'isha) did accordingly, and stayed at the places of staying till the monthly period was over. She then circumambulated the House, and (ran between) al-Safa and al-Marwah. He (the Holy Prophet) then said: Now both your Hajj and 'Umrah are complete, whereupon she said: I feel in my mind that I did not circumambulate the House till I performed Hajj (I missed the circumambulation of 'Umrah). Thereupon he (Allah's Apostle) (ﷺ) said: 'Abdul Rahman, take her to Tan'im (so as to enable her) to perform 'Umrah (separately), and it was the night at Hasba.