قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ بَيَانِ وُجُوهِ الْإِحْرَامِ، وَأَنَّهُ يَجُوزُ إِفْرَادُ الْحَجِّ وَالتَّمَتُّعِ وَالْقِرَانِ، وَجَوَازِ إِدْخَالِ الْحَجِّ عَلَى الْعُمْرَةِ، وَمَتَى يَحِلُّ الْقَارِنُ مِنْ نُسُكِهِ)

حکم : صحیح

ترجمة الباب:

1216 .   وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، فِي نَاسٍ مَعِي قَالَ: أَهْلَلْنَا، أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِالْحَجِّ خَالِصًا وَحْدَهُ، قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ جَابِرٌ: فَقَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُبْحَ رَابِعَةٍ مَضَتْ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، فَأَمَرَنَا أَنْ نَحِلَّ، قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ «حِلُّوا وَأَصِيبُوا النِّسَاءَ» قَالَ عَطَاءٌ: وَلَمْ يَعْزِمْ عَلَيْهِمْ، وَلَكِنْ أَحَلَّهُنَّ لَهُمْ، فَقُلْنَا: لَمَّا لَمْ يَكُنْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلَّا خَمْسٌ، أَمَرَنَا أَنْ نُفْضِيَ إِلَى نِسَائِنَا، فَنَأْتِيَ عرَفَةَ تَقْطُرُ مَذَاكِيرُنَا الْمَنِيَّ، قَالَ: يَقُولُ جَابِرٌ بِيَدِهِ - كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى قَوْلِهِ بِيَدِهِ يُحَرِّكُهَا - قَالَ: فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا، فَقَالَ: «قَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي أَتْقَاكُمْ لِلَّهِ وَأَصْدَقُكُمْ وَأَبَرُّكُمْ، وَلَوْلَا هَدْيِي لَحَلَلْتُ كَمَا تَحِلُّونَ، وَلَوْ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقِ الْهَدْيَ، فَحِلُّوا» فَحَلَلْنَا وَسَمِعْنَا وَأَطَعْنَا، قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ جَابِرٌ: فَقَدِمَ عَلِيٌّ مِنْ سِعَايَتِهِ، فَقَالَ: «بِمَ أَهْلَلْتَ؟» قَالَ: بِمَا أَهَلَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَأَهْدِ وَامْكُثْ حَرَامًا» قَالَ: وَأَهْدَى لَهُ عَلِيٌّ هَدْيًا، فَقَالَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِأَبَدٍ؟ فَقَالَ: «لِأَبَدٍ»

صحیح مسلم:

کتاب: حج کے احکام ومسائل 

  (

باب: احرام کی مختلف صورتیں ‘حج افراد تمتع اور قران ‘نیز عمرے (کے احرام )میں ‘احرام حج کو شامل کر لینے کا جواز ‘اور (یہ کہ)حج قران کرنے والا کب احرام کھولے

)
 

مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)

1216.   ابن جریج نے کہا:مجھے عطا ء نے خبر دی کہ میں نے اپنے متعدد ر فقاء کے ساتھ جا بر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے(احرا م کے وقت) صرف اکیلے حج ہی کا تلبیہ پکا را۔ عطا ء نے کہا: حضرت جا بر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چار ذوالحجہ کی صبح مکہ پہنچے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم حلال (احرا م کی پابندیوں سے فا رغ) ہو جا ئیں۔ عطاء نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’حلال ہو جاؤ اور اپنی عورتوں کے پاس جاؤ۔‘‘ عطا ء نے کہا: (عورتوں کی قربت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر لا زم قرار نہیں دی تھی بلکہ بیویوں کو ان کے لیے صرف حلال قرار دیا تھا۔ ہم نے کہا: جب ہمارے اور یوم عرفہ کے درمیان محض پانچ دن باقی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنی عورتوں کے پاس جا نے کی اجازت مرحمت فرما دی ہے تو (یہ ایسا ہی ہے کہ) ہم (اس) عرفہ آئیں گے تو ہمارے اعضا ئے مخصوصہ سے منی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے۔ عطاء نے کہا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ہاتھ سے (ٹپکنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ ایسا لگتا ہے میں اب بھی ان کے حرکت کرتے ہاتھ کا اشارہ دیکھ رہا ہوں۔ جا بر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ دینے کے لیے) ہم میں کھڑے ہو ئے اور فرمایا: ’’تم (اچھی طرح) جا نتے ہو کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا، تم سب سے زیادہ سچا اور تم سب سے زیادہ پارسا ہوں۔ اگر میرے ساتھ قربانی نہ ہو تی تو میں بھی ویسے حلال (احرا م سے فارغ) ہو جا تا جیسے تم حلال ہو ئے ہو، اگر وہ چیز پہلے میرے سامنے آ جا تی جو بعد میں آئی تو میں قربانی اپنے ساتھ نہ لا تا، لہٰذا تم سب حلال (احرا م سے فارغ) ہو جاؤ۔ چنانچہ پھر ہم حلال ہو گئے۔ ہم نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو) سنا اور اطاعت کی۔ عطاء نے کہا: حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا: (اتنے میں) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی ذمہ داری سے (عہد ہ بر آ ہو کر) پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان سے) پو چھا: ’’(علی) تم نے کس (حج) کا تلبیہ پکا را تھا ؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’قربانی کرو اور احرا م ہی کی حالت میں رہو۔ (جا بر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) بیان کیا: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی اپنے ہمراہ قربانی (کے جا نور) لا ئے تھے۔ سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ (حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا) صرف ہمارے اسی سال کے لیے (جا ئز ہوا) ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہمیشہ کے لیے۔