باب: مکہ حرم ہے ‘اس میں شکار کرنا ‘اس کی گھاس اور درخت کا ٹنا اور اعلان کرنے والے کے سوا(کسی کا)یہاں سے کوئی پڑی ہوئی چیز اٹھانا ہمیشہ کے لیے حرام ہے
)
Muslim:
The Book of Pilgrimage
(Chapter: The sanctity of Makkah and the sanctity of its game, grasses, trees and lost property, except for the one who announces it, is forever)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1355.
ولید بن مسلم نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا) ہمیں اوزاعی نے حدیث سنا ئی، (کہا:) مجھے یحییٰ بن ابی کثیر نے حدیث سنا ئی، (کہا:) مجھے ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے اور (انھوں نے کہا) مجھے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیا ن کی، انھو نےکہا: جب اللہ عزوجل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ پر فتح عطا کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں ( خطبہ دینے کے لیے) کھڑے ہو ئے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ’’بلا شبہ اللہ نے ہا تھی کو مکہ سے رو ک دیا، اور اپنے رسول اور مومنوں کو اس پر تسلط عطا کیا، مجھ سے پہلے یہ ہر گز کسی کے لیے حلال نہ تھا، میرے لیے دن کی ایک گھڑی کے لیے حلال کیا گیا، اور میرے بعد یہ ہر گز کسی کے لیے حلال نہ ہو گا، اس لیے نہ اس کے شکار کو ڈرا کر بھگایا جا ئے اور نہ اس کے کا نٹے (دار درخت) کا ٹے جا ئیں۔ اور اس میں گری پڑی کوئی چیز اٹھانا، اعلان کرنے والے کے سوا کسی کے لیے حلال نہیں، اور جس کا کو ئی قریبی (عزیز) قتل کر دیا جا ئے اس کے لیے دو صورتوں میں سے وہ ہے جو (اس کی نظر میں) بہتر ہو، یا اس کی دیت دی جا ئے یا (قاتل) قتل کیا جا ئے۔‘‘ اس پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اَذْخَر کے سوا ہم اسے اپنی قبروں (کی سلوں کی درزوں) اور گھروں (کی چھتوں) میں استعمال کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اَذْخَر کے سوا۔‘‘ اس پر اہل یمن میں سے ایک آدمی ابو شاہ کھڑے ہو ئے اور کہا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! (یہ سب) میرے لیے لکھوا دیجیٔے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابو شاہ کے لیے لکھ دو۔‘‘ ولید نے کہا: میں نے اوزاعی سے پو چھا: اس (یمنی) کا یہ کہنا ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے لکھوا دیں۔‘‘ (اس سے مراد) کیا تھا؟ انھوں نے کہا: یہ خطبہ (مراد تھا) جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔
ولید بن مسلم نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا) ہمیں اوزاعی نے حدیث سنا ئی، (کہا:) مجھے یحییٰ بن ابی کثیر نے حدیث سنا ئی، (کہا:) مجھے ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن نے اور (انھوں نے کہا) مجھے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث بیا ن کی، انھو نےکہا: جب اللہ عزوجل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ پر فتح عطا کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں ( خطبہ دینے کے لیے) کھڑے ہو ئے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ’’بلا شبہ اللہ نے ہا تھی کو مکہ سے رو ک دیا، اور اپنے رسول اور مومنوں کو اس پر تسلط عطا کیا، مجھ سے پہلے یہ ہر گز کسی کے لیے حلال نہ تھا، میرے لیے دن کی ایک گھڑی کے لیے حلال کیا گیا، اور میرے بعد یہ ہر گز کسی کے لیے حلال نہ ہو گا، اس لیے نہ اس کے شکار کو ڈرا کر بھگایا جا ئے اور نہ اس کے کا نٹے (دار درخت) کا ٹے جا ئیں۔ اور اس میں گری پڑی کوئی چیز اٹھانا، اعلان کرنے والے کے سوا کسی کے لیے حلال نہیں، اور جس کا کو ئی قریبی (عزیز) قتل کر دیا جا ئے اس کے لیے دو صورتوں میں سے وہ ہے جو (اس کی نظر میں) بہتر ہو، یا اس کی دیت دی جا ئے یا (قاتل) قتل کیا جا ئے۔‘‘ اس پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اَذْخَر کے سوا ہم اسے اپنی قبروں (کی سلوں کی درزوں) اور گھروں (کی چھتوں) میں استعمال کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اَذْخَر کے سوا۔‘‘ اس پر اہل یمن میں سے ایک آدمی ابو شاہ کھڑے ہو ئے اور کہا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! (یہ سب) میرے لیے لکھوا دیجیٔے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابو شاہ کے لیے لکھ دو۔‘‘ ولید نے کہا: میں نے اوزاعی سے پو چھا: اس (یمنی) کا یہ کہنا ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے لکھوا دیں۔‘‘ (اس سے مراد) کیا تھا؟ انھوں نے کہا: یہ خطبہ (مراد تھا) جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ پر فتح دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی، پھر فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مکہ سے ہاتھ روک دیا، اور اس پر اپنے رسول اور مومنوں کو غلبہ عنایت فرمایا، واقعہ یہ ہے کہ مکہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال قرار نہیں دیا گیا تھا، (کسی کو اس پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں ملی) اور یہ میرے لیے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے حلال ٹھہرایا گیا، (جنگ کی اجازت دی گئی) اور یہ میرے بعد ہرگز کسی کے لیے حلال نہیں ہو گا۔ لہذا اس کے شکار کو پریشان نہ کیا جائے، اور نہ یہاں سے کانٹے کاٹے جائیں، اور یہاں گری پڑی چیز اٹھانا صرف اس کے لیے جائز ہے، جو اس کی تشہیر اور اعلان کرنا چاہتا ہو، اور جس انسان کا کوئی قریبی قتل کر دیا جائے اس کو دو چیزوں میں سے ایک کے انتخاب کا حق ہو گا، یا دیت لے لے یا قاتل کو (قصاص میں) قتل کر دیا جائے۔‘‘ تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا، اَذْخَر کو مستثنیٰ قرار دے دیں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیونکہ ہم اسے اپنی قبروں اور گھروں میں استعمال کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اَذخَر گھاس مستثنیٰ ہے۔‘‘ تو ایک یمنی آدمی، ابو شاہ نامی کھڑا ہوا، اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! یہ خطبہ مجھے لکھوا دیجئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابو شاہ کو لکھ دو۔‘‘ (امام اوزاعی کے شاگرد) ولید کہتے ہیں، میں نے اوزاعی سے پوچھا، ابو شاہ کے اس قول کا کیا مطلب ہے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے لکھوا دیجئے؟ انہوں نے جواب دیا، مراد یہ خطبہ ہے جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
1۔ جم ہور کے نزدیک مکہ میں گری پڑی چیز وہی اٹھا سکتا ہے جس نے ہمیشہ ہمیشہ تشہیر اور اعلان کرناہو، جو ایسا نہیں کرسکتا، وہ نہ اٹھائے، لیکن احناف، اکثرمالکیہ اور بعض شوافع کے نزدیک، اس کا حکم بھی باقی علاقوں جیسا ہے اوریہاں مقصد بالغہ ہے اور اس تصور وخیال کو ختم کرتا ہے کہ حاجی مختلف اکناف واطراف سے آتے ہیں اور پتہ نہیں یہ کس کی چیز ہے، اس لیے اعلان وتشہیر کا کیا فائدہ، اس لیے اس وہم کو دور کیا اورفرمایا، اسکی تشہیر میں عام اصول اورضابطہ کے مطابق ضروری ہے (لُقْطَہ کا حکم اپنے موقع پراور محل پر آئے گا اور ساعت مخصوصہ عصر تک تھی) 2۔ جمہور کے نزدیک کانٹے کاٹنا بھی جائز نہیں ہے۔ اور بعض شوافع کا یہ مؤقف درست نہیں ہے کہ تکلیف دہ کانٹے کاٹےجاسکتے ہیں۔ اس طرح شکار کو اس جگہ سے اٹھانا اور پریشان کرنا بھی جائز نہیں ہے، مالکیہ اور احناف کے نزدیک حرم کی گھاس چرانا بھی جائز نہیں ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جس طرح اذخر انسانی ضرورت ہے گھاس حیوانوں کی ضرورت ہے۔ اس لیے جانور وں کو چرانا جائز ہے۔ 3۔ جمہور کے نزدیک قتل اور دیت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا حق مقتول کے ورثاء کو ہے، لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ۔ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اختیار قاتل کو ہے، ظاہربات تو یہ ہے کہ اس کا فیصلہ باہم رضا مندی سے ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اصل تو قصاص ہے۔ اب اگر ورثاء دیت قبول نہیں کرتے، یا قاتل دیت کی ادائیگی پر آمادہ نہیں ہے تو پھر جبر کیسے ممکن ہے۔ 4۔ حضرت ابوشاہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لکھوانے کے سوال سے ثابت ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری دور میں لکھنے کا رواج ہو چکا تھا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو شخصی طور پر لکھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ عام حکم دیا کہ: اُكْتُبُوا لأَبِي شَاه) ابوشاہ کو لکھ دو،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی احادیث مبارکہ لکھنے کا کام شروع ہو گیا تھا، لیکن تمام احادیث کو یکجا کرنے کا کام بعد میں ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA)reported. When Allah, the Exalted and Majestic, granted Allah's Messenger (ﷺ) victory over Makkah, he stood before people and praised and extolled Allah and then said: Verily Allah held back the elephants from Makkah and gave the domination of it to His Messenger and believers, and it (this territory) was not violable to anyone before me and it was made violable to me for an hour of a day, and it shall not be violable to anyone after me. So neither molest the game, nor weed out thorns from it. And it is not lawful for anyone to pick up a thing dropped but one who makes public announcement of it. And it a relative of anyone is killed he is entitled to opt for one of two things. Either he should be paid blood-money or he can take life as (a just retribution). 'Abbas (RA) said: Allah's Messenger, but Idhkhir (a kind of herbage), for we use it for our graves and for our houses, whereupon Allah's Messenger (ﷺ) said: With the exception of Idhkhir. A person known as Abu Shah, one of the people of Yemen, stood up and said: Messenger of Allah, (kindly) write it for me. Thereupon Allah's Messenger (ﷺ) said I Write it for Abu Shah. Walid said: I asked al-Auzai': What did his saying mean: "Write it for me, Messenger of Allah"? He said: This very address that he had heard from Allah's Messenger (ﷺ) .