باب: مدینہ میں رہنے کی ترغیب اور اس کی تنگ دستی اور سختیوں پر صبر کرنا
)
Muslim:
The Book of Pilgrimage
(Chapter: Encouragement to live in Al-Madinah and to be patient on bearing its distress and hardships)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1374.
حماد بن اسماعیل بن علیہ نے ہمیں ہمیں حدیث بیا ن کی، (کہا:) ہمیں میرے والد نے وہیب سے حدیث بیان کی، انھوں نے یحییٰ بن ابی اسحاق سے روایت کی کہ انھوں نےمہری کےمولیٰ ابو سعید سے حدیث بیان کی، کہ انھیں مدینہ میں بد حالی اورسختی نے آ لیا، وہ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: میں کثیر العیال ہوں اورہمیں تنگد ستی نے آ لیا ہے، میرا ارادہ ہے کہ میں ا پنے افراد خانہ کو کسی سر سبز وشاداب علاقے کی طرف منتقل کردوں۔ تو ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا: ایسا مت کرنا، مدینہ میں ہی ٹھہرے رہو، کیونکہ ہم اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (سفر پر) نکلے، میرا خیال ہے انھوں نےکہا، حتیٰ کہ ہم عسفان پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں چند راتیں قیام فرمایا، تو لوگوں نے کہا: ہم یہاں کسی خاص مقصد کے تحت نہیں ٹھہر ے ہوئے، اور ہمارے افراد خانہ پیچھے (اکیلے) ہیں ہم انھیں محفوظ نہیں سمجھتے، ان کی یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ کیا بات ہے جو تمھاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟‘‘ میں نہیں جانتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےکس طرح فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کی میں قسم کھاتا ہوں۔‘‘ یا (فرمایا) ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ’’میں نےارادہ کیا‘‘ یا (فرمایا) ’’اگرتم چاہو۔‘‘ میں نہیں جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سے کون سا جملہ ارشاد فرمایا: ’’میں اپنی اونٹنی پر پالان رکھنے کا حکم د وں، پھر اس کی ایک گرہ بھی نہ کھولوں یہاں تک کہ مدینہ پہنچ جاؤں۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! بلا شبہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کی حرمت کا اعلان کیا، اور اسے حرم بنایا، اور میں نے مدینہ کو اس کے دونوں پہاڑوں کے درمیان کو حرمت والا قرار دیا کہ اس میں خون نہ بہایا جائے، اس میں لڑائی کے لئے اسلحہ نہ اٹھایا جائے، اور اس میں چارے کے سوا (کسی اورغرض سے) اس کے درختوں کے پتے نہ جھاڑے جائیں۔ اے اللہ!ہمارے لئے ہمارے شہر (مدینہ) میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے صاع میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مد میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے صاع میں برکت عطا فرما، اے اللہ!ہمارے لیے ہمارے مد میں برکت عطا فرما، اے اللہ !ہمارے لئے ہمارے شہر(مدینہ) میں برکت عطا فرما۔اور اس برکت کے ساتھ دو برکتیں (مزید عطا) کردے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مدینہ کی کوئی گھاٹی اور درہ نہیں مگر اس پر دو فرشتے ہیں جو اس کی حفاظت کریں گے یہاں تکہ کہ تم اس میں واپس آجاؤ۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: ’’کوچ کرو۔‘‘ تو ہم نے کوچ کیا اور مدینہ آ گئے۔ اس ذات کی قسم جس کی ہم قسم کھاتے ہیں! یا جس کی قسم کھائی جاتی ہے۔ یہ شک حماد کی طرف سے ہے۔ مدینہ میں داخل ہو کر ہم نے اپنی سواریوں کے پالان بھی نہیں اتارے تھے کہ بنو عبداللہ بن غطفان نے ہم پر حملہ کر دیا اور اس سے پہلے کوئی چیز انھیں مشتعل نہیں کر رہی تھی۔
حماد بن اسماعیل بن علیہ نے ہمیں ہمیں حدیث بیا ن کی، (کہا:) ہمیں میرے والد نے وہیب سے حدیث بیان کی، انھوں نے یحییٰ بن ابی اسحاق سے روایت کی کہ انھوں نےمہری کےمولیٰ ابو سعید سے حدیث بیان کی، کہ انھیں مدینہ میں بد حالی اورسختی نے آ لیا، وہ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: میں کثیر العیال ہوں اورہمیں تنگد ستی نے آ لیا ہے، میرا ارادہ ہے کہ میں ا پنے افراد خانہ کو کسی سر سبز وشاداب علاقے کی طرف منتقل کردوں۔ تو ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا: ایسا مت کرنا، مدینہ میں ہی ٹھہرے رہو، کیونکہ ہم اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (سفر پر) نکلے، میرا خیال ہے انھوں نےکہا، حتیٰ کہ ہم عسفان پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں چند راتیں قیام فرمایا، تو لوگوں نے کہا: ہم یہاں کسی خاص مقصد کے تحت نہیں ٹھہر ے ہوئے، اور ہمارے افراد خانہ پیچھے (اکیلے) ہیں ہم انھیں محفوظ نہیں سمجھتے، ان کی یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ کیا بات ہے جو تمھاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟‘‘ میں نہیں جانتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےکس طرح فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کی میں قسم کھاتا ہوں۔‘‘ یا (فرمایا) ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ’’میں نےارادہ کیا‘‘ یا (فرمایا) ’’اگرتم چاہو۔‘‘ میں نہیں جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سے کون سا جملہ ارشاد فرمایا: ’’میں اپنی اونٹنی پر پالان رکھنے کا حکم د وں، پھر اس کی ایک گرہ بھی نہ کھولوں یہاں تک کہ مدینہ پہنچ جاؤں۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! بلا شبہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کی حرمت کا اعلان کیا، اور اسے حرم بنایا، اور میں نے مدینہ کو اس کے دونوں پہاڑوں کے درمیان کو حرمت والا قرار دیا کہ اس میں خون نہ بہایا جائے، اس میں لڑائی کے لئے اسلحہ نہ اٹھایا جائے، اور اس میں چارے کے سوا (کسی اورغرض سے) اس کے درختوں کے پتے نہ جھاڑے جائیں۔ اے اللہ!ہمارے لئے ہمارے شہر (مدینہ) میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے صاع میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مد میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے صاع میں برکت عطا فرما، اے اللہ!ہمارے لیے ہمارے مد میں برکت عطا فرما، اے اللہ !ہمارے لئے ہمارے شہر(مدینہ) میں برکت عطا فرما۔اور اس برکت کے ساتھ دو برکتیں (مزید عطا) کردے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مدینہ کی کوئی گھاٹی اور درہ نہیں مگر اس پر دو فرشتے ہیں جو اس کی حفاظت کریں گے یہاں تکہ کہ تم اس میں واپس آجاؤ۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: ’’کوچ کرو۔‘‘ تو ہم نے کوچ کیا اور مدینہ آ گئے۔ اس ذات کی قسم جس کی ہم قسم کھاتے ہیں! یا جس کی قسم کھائی جاتی ہے۔ یہ شک حماد کی طرف سے ہے۔ مدینہ میں داخل ہو کر ہم نے اپنی سواریوں کے پالان بھی نہیں اتارے تھے کہ بنو عبداللہ بن غطفان نے ہم پر حملہ کر دیا اور اس سے پہلے کوئی چیز انھیں مشتعل نہیں کر رہی تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مہری رحمۃ اللہ علیہ کے آزاد کردہ غلام ابو سعید سے روایت ہے کہ مدینہ میں گزران کی مشکل اور شدت سے دوچار ہونا پڑا تو وہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور ان سے عرض کیا کہ میرے بال بچے بہت ہیں، اور ہم مشقت و تنگی میں مبتلا ہیں، اس لیے میں چاہتا ہوں، اپنے اہل و عیال کو کسی سرسبز و شاداب علاقہ میں منتقل کر لوں، تو ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، ایسے نہ کر، مدینہ کو ہی لازم پکڑ، کیونکہ ہم نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، میرا خیال ہے، انہوں نے کہا، حتی کہ ہم عسفان پہنچ گئے، تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند راتیں قیام فرمایا، تو لوگوں نے کہا، ہم یہاں بے مقصد یا بے کار ٹھہرے ہوئے ہیں اور پیچھے ہمارے بال بچوں کی نگہداشت کرنے والا کوئی نہیں ہے، ہم ان کے بارے میں بے خوف نہیں ہیں اور یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچ گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے تمہاری طرف سے یہ کیا بات پہنچی ہے؟ (راوی کا قول ہے، میں نہیں جانتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا الفاظ فرمائے) اس ذات کی قسم، جس کی میں قسم اٹھاتا ہوں، یا جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں پختہ ارادہ کر چکا ہوں، یا اگر تم چاہو (راوی کا قول ہے، میں نہیں جانتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سے کیا کہا) میں اپنی اونٹنی پر پالان رکھنے کا حکم دوں اور جب تک مدینہ نہ پہنچ جاؤں، اس کی کوئی گرہ نہ کھولوں‘‘ (یعنی مدینہ تک مسلسل سفر کروں) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور اس کی حرمت کا اعلان کیا، میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں، اس کے دونوں طرف کے دروں (پہاڑوں) کے درمیان کا علاقہ واجب الاحترام ہے، اس میں خون ریزی نہ کی جائے اور نہ اس میں کسی کے خلاف ہتھیار اٹھایا جائے، اور کسی درخت کے پتے جانوروں کی ضرورت کے سوا نہ جھاڑے جائیں، اے اللہ! ہمارے شہر میں برکت دے، اے اللہ! ہمارے مد میں برکت ڈال، ہمارے صاع میں برکت ڈال، اے اللہ ہمارے مد میں برکت ڈال، اے اللہ ہمارے صاع میں برکت ڈال، اے اللہ! ہمارے شہر مدینہ میں برکت نازل فرما، برکت کے ساتھ دو برکتیں اور نازل فرما، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس کی قسم! مدینہ کی کوئی گھاٹی یا درہ نہیں ہے، جس پر تمہاری واپسی تک دو فرشتے پہرہ نہ دے رہے ہوں‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو فرمایا: ’’کوچ کرو۔‘‘ تو ہم چل پڑے، اور ہم مدینہ کی طرف بڑھے، پس اس ذات کی قسم! جس کی ہم قسم اٹھاتے ہیں، یا جس کی قسم اٹھائی جاتی ہے، حماد کو شک ہے کیا لفظ کہا، ہم نے مدینہ میں داخل ہو کر ابھی پالان بھی نہیں اتارے تھے کہ بنو عبداللہ بن غطفان نے ہم پر حملہ کر دیا، اس سے پہلے انہیں کسی چیز نے (حملہ پر) برانگیختہ نہیں کیا۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) رِيْف ج اَرْيَافْ:سرسبزوشاداب علاقہ،۔ (2) خُلُوْف: ان کی حفاظت ونگہداشت کرنے والا ان کے پاس کوئی نہیں ہے۔ (3) مَأزَمْ: پہاڑ درہ یا پہاڑی، شعب، گھاٹی، درہ۔ (4) شِعَبٌ: پہاڑی راستہ۔
فوائد ومسائل
نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی غیر حاضری میں مدینہ منورہ کی حفاظت ونگرانی فرشتے کررہے تھے، اس لیے کسی کو مدینہ پرحملہ کرنے کی جراءت نہ ہوئی، حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی آمد سے پہلے کوئی ظاہری مانع یا رکاوٹ موجود نہ تھی۔ لیکن ان کی آمد کے ساتھ ہی مدینہ پر حملہ ہو گیا، جب ظاہر طور پر حفاظت ونگہداشت کرنے والے آ چکے تھے تو فرشتوں کی حفاظت ختم ہو گئی اور حملہ ہو گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Sa'id Maula al-Mahri reported that they were hard pressed by the distress and hardship of Madinah, and he came to Abu Sa'Id al-Khudri and said to him: I have a large family (to support) and we are enduring hardships; I have, therefore, made up my mind to take my family to some fertile land. Thereupon Abu Sa'id said: Don't do that, stick to Madinah, for we have come out with Allah's Apostle (ﷺ) , and (I think that he also said) until we reached 'Usfan, and he (the Holy Prophet (ﷺ) along with his Companions) stayed there for some nights. There the people said: By Allah, we are lying here idle, whereas our children are unprotected behind us, and we do not feel secure about them. This (apprehension of theirs) reached Allah's Apostle (ﷺ) , whereupon he said: What is this matter concerning you that has reached me? (I do not retain how he said it, whether he said like this:) By Him (in the name of Whom) I take oath, (or he said like this:) By Him in Whose Hand is my life, I made up my mind or if you like (I do not retain what word he actually said), I should command my camel to proceed and not to let it halt until it comes to Madinah and then said: Ibrahim declared Makkah as the sacred territory and it became sacred, and I declare Madinah as the sacred territory-the area between the two mountains ('Air and Uhud). Thus no blood is to be shed within its (bounds) and no weapon is to be carried for fighting, and the leaves of the trees there should not be beaten off except for fodder. O Allah, bless us in our city; O Allah, bless us in our sa; O Allah, bless us in our mudd; O Allah, bless us in our sa; O Allah, bless us in our mudd. O Allah, bless us in our city. O Allah, bless with this blessing two more blessings. By Him in Whose Hand is my life, there is no ravine or mountain path of Madinah which is not protected by two angels until you reach there. (He then said to the people:) Proceed, and we, therefore, proceeded and we came to Madinah. By Him (in Whose name) we take oath and (in Whose name) oath is taken (Hammad is in doubt about it), we had hardly put down our camel saddles on arriving at Madinah that we were attacked by the people of the tribe of 'Abdullah bin Ghatafan but none dared to do it before.