قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ التَّرغِيبِ فِي سُكنَی المَدِينَةِ وَالصَّبرِ عَلٰى لَأوَائِهَا وَشِدَّتِهَا)

حکم : صحیح

ترجمة الباب:

1374 .   حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ابْنِ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ وُهَيْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، أَنَّهُ حَدَّثَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، مَوْلَى الْمَهْرِيِّ، أَنَّهُ أَصَابَهُمْ بِالْمَدِينَةِ جَهْدٌ وَشِدَّةٌ، وَأَنَّهُ أَتَى أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، فَقَالَ لَهُ: إِنِّي كَثِيرُ الْعِيَالِ، وَقَدْ أَصَابَتْنَا شِدَّةٌ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَنْقُلَ عِيَالِي إِلَى بَعْضِ الرِّيفِ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: لَا تَفْعَلْ، الْزَمِ الْمَدِينَةَ، فَإِنَّا خَرَجْنَا مَعَ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَظُنُّ أَنَّهُ قَالَ - حَتَّى قَدِمْنَا عُسْفَانَ، فَأَقَامَ بِهَا لَيَالِيَ، فَقَالَ النَّاسُ: وَاللهِ مَا نَحْنُ هَا هُنَا فِي شَيْءٍ، وَإِنَّ عِيَالَنَا لَخُلُوفٌ مَا نَأْمَنُ عَلَيْهِمْ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مَا هَذَا الَّذِي بَلَغَنِي مِنْ حَدِيثِكُمْ؟» - مَا أَدْرِي كَيْفَ قَالَ - «وَالَّذِي أَحْلِفُ بِهِ - أَوْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ - لَقَدْ هَمَمْتُ - أَوْ إِنْ شِئْتُمْ لَا أَدْرِي أَيَّتَهُمَا قَالَ - لَآمُرَنَّ بِنَاقَتِي تُرْحَلُ، ثُمَّ لَا أَحُلُّ لَهَا عُقْدَةً حَتَّى أَقْدَمَ الْمَدِينَةَ»، وَقَالَ: «اللهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ فَجَعَلَهَا حَرَمًا، وَإِنِّي حَرَّمْتُ الْمَدِينَةَ حَرَامًا مَا بَيْنَ مَأْزِمَيْهَا، أَنْ لَا يُهْرَاقَ فِيهَا دَمٌ، وَلَا يُحْمَلَ فِيهَا سِلَاحٌ لِقِتَالٍ، وَلَا تُخْبَطَ فِيهَا شَجَرَةٌ إِلَّا لِعَلْفٍ، اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا، اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا، اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا، اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا، اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، اللهُمَّ اجْعَلْ مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَيْنِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا مِنَ الْمَدِينَةِ شِعْبٌ، وَلَا نَقْبٌ إِلَّا عَلَيْهِ مَلَكَانِ يَحْرُسَانِهَا حَتَّى تَقْدَمُوا إِلَيْهَا»، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ: «ارْتَحِلُوا»، فَارْتَحَلْنَا، فَأَقْبَلْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَوَالَّذِي نَحْلِفُ بِهِ أَوْ يُحْلَفُ بِهِ - الشَّكُّ مِنْ حَمَّادٍ - مَا وَضَعْنَا رِحَالَنَا حِينَ دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ حَتَّى أَغَارَ عَلَيْنَا بَنُو عَبْدِ اللهِ بْنِ غَطَفَانَ، وَمَا يَهِيجُهُمْ قَبْلَ ذَلِكَ شَيْءٌ

صحیح مسلم:

کتاب: حج کے احکام ومسائل 

  (

باب: مدینہ میں رہنے کی ترغیب اور اس کی تنگ دستی اور سختیوں پر صبر کرنا

)
 

مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)

1374.   حماد بن اسماعیل بن علیہ نے ہمیں ہمیں حدیث بیا ن کی، (کہا:) ہمیں میرے والد نے وہیب سے حدیث بیان کی، انھوں نے یحییٰ بن ابی اسحاق سے روایت کی کہ انھوں نےمہری کےمولیٰ ابو سعید سے حدیث بیان کی، کہ انھیں مدینہ میں بد حالی اورسختی نے آ لیا، وہ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: میں کثیر العیال ہوں اورہمیں تنگد ستی نے آ لیا ہے، میرا ارادہ ہے کہ میں ا پنے افراد خانہ کو کسی سر سبز وشاداب علاقے کی طرف منتقل کردوں۔ تو ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا: ایسا مت کرنا، مدینہ میں ہی ٹھہرے رہو، کیونکہ ہم اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (سفر پر) نکلے، میرا خیال ہے انھوں نےکہا، حتیٰ کہ ہم عسفان پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں چند راتیں قیام فرمایا، تو لوگوں نے کہا: ہم یہاں کسی خاص مقصد کے تحت نہیں ٹھہر ے ہوئے، اور ہمارے افراد خانہ پیچھے (اکیلے) ہیں ہم انھیں محفوظ نہیں سمجھتے، ان کی یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ کیا بات ہے جو تمھاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟‘‘ میں نہیں جانتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےکس طرح فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کی میں قسم کھاتا ہوں۔‘‘ یا (فرمایا) ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ’’میں نےارادہ کیا‘‘ یا (فرمایا) ’’اگرتم چاہو۔‘‘ میں نہیں جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سے کون سا جملہ ارشاد فرمایا: ’’میں اپنی اونٹنی پر پالان رکھنے کا حکم د وں، پھر اس کی ایک گرہ بھی نہ کھولوں یہاں تک کہ مدینہ پہنچ جاؤں۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! بلا شبہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کی حرمت کا اعلان کیا، اور اسے حرم بنایا، اور میں نے مدینہ کو اس کے دونوں پہاڑوں کے درمیان کو حرمت والا قرار دیا کہ اس میں خون نہ بہایا جائے، اس میں لڑائی کے لئے اسلحہ نہ اٹھایا جائے، اور اس میں چارے کے سوا (کسی اورغرض سے) اس کے درختوں کے پتے نہ جھاڑے جائیں۔ اے اللہ!ہمارے لئے ہمارے شہر (مدینہ) میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے صاع میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مد میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے صاع میں برکت عطا فرما، اے اللہ!ہمارے لیے ہمارے مد میں برکت عطا فرما، اے اللہ !ہمارے لئے ہمارے شہر(مدینہ) میں برکت عطا فرما۔اور اس برکت کے ساتھ دو برکتیں (مزید عطا) کردے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مدینہ کی کوئی گھاٹی اور درہ نہیں مگر اس پر دو فرشتے ہیں جو اس کی حفاظت کریں گے یہاں تکہ کہ تم اس میں واپس آجاؤ۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: ’’کوچ کرو۔‘‘ تو ہم نے کوچ کیا اور مدینہ آ گئے۔ اس ذات کی قسم جس کی ہم قسم کھاتے ہیں! یا جس کی قسم کھائی جاتی ہے۔ یہ شک حماد کی طرف سے ہے۔ مدینہ میں داخل ہو کر ہم نے اپنی سواریوں کے پالان بھی نہیں اتارے تھے کہ بنو عبداللہ بن غطفان نے ہم پر حملہ کر دیا اور اس سے پہلے کوئی چیز انھیں مشتعل نہیں کر رہی تھی۔