صحیح مسلم
18. کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
1. باب: جس شخص کا دل چاہتا ہو اور کھانا پینا میسر ہو اس کے لیے نکاح کرنا مستحب ہے اور جو شخص کھانا پینا مہیا کرنے سے قاصر ہو وہ روزوں میں مشغول رہے
صحيح مسلم
18. كتاب النكاح
1. بَابُ اسْتِحْبَابِ النِّكَاحِ لِمَنْ تَاقَتْ نَفْسُهُ إِلَيْهِ، وَوَجَدَ مُؤَنَهُ، وَاشْتِغَالِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الْمُؤَنِ بِالصَّوْمِ
Muslim
18. The Book of Marriage
1. Chapter: Marriage is recommended for the one who desires it and can afford it, and the one who cannot afford it should distract himself by fasting
باب: جس شخص کا دل چاہتا ہو اور کھانا پینا میسر ہو اس کے لیے نکاح کرنا مستحب ہے اور جو شخص کھانا پینا مہیا کرنے سے قاصر ہو وہ روزوں میں مشغول رہے
)
Muslim:
The Book of Marriage
(Chapter: Marriage is recommended for the one who desires it and can afford it, and the one who cannot afford it should distract himself by fasting)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1401.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے نبی ﷺ کی ازواج مطہرات سے آپ کی تنہائی کے معمولات کے بارے میں سوال کیا، پھر ان میں سے کسی نے کہا: میں عورتوں سے شادی نہیں کروں گا، کسی نے کہا: میں گوشت نہیں کھاؤں گا، اور کسی نے کہا: میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ (آپ کو پتہ چلا) تو آپ ﷺ نے اللہ کی حمد کی، اس کی ثنا بیان کی اور فرمایا: "لوگوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے اس اس طرح سے کہا ہے۔ لیکن میں تو نماز پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں، روزے رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، جس نے میری سنت سے رغبت ہٹا لی وہ مجھ سے نہیں
ازدواج اور گھر بسانا انسان کی فطری ضرورت ہے۔ انسانی نسل کے آگے بڑھنے کا ذر یعہ بھی میں ہے۔ یہ معاملہ مرد و عورت کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے ، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت اور اس کے عطا کردہ فطری اصولوں کی روشنی میں ملک باہمی رضامندی
سے طے ہونا چاہیے۔ اور فریقین کو طے شدہ معاہدے کی پابندی کا عہد اللہ کے نام پر کرنا چاہیے۔ ایسے مکمل معاہدے کے بغیر عورت اور مرد کا اکٹھا ہونا، بظاہر جتنا بھی آسان لگے معاشرے اورنسل کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ جن معاشروں نے اس طرح کی زندگی کی اجازت دی ہے، وہاں مائیں اور ان کے بچے شدید مصائب میں گرفتار اور تباہی کا شکار ہیں۔
کتاب النکاح میں امام مسلم نے سب سے پہلے وہ احادیث بیان کیں جن میں نکاح کی تلقین ہے۔ اس تلقین میں یہ بات بطور خاص ملحوظ رکھی گئی ہے کہ شادی کے معاملے میں مکمل باہمی رضامندی ہو لیکن مالی طور پر یا کسی اور طرح سے شادی کو مشکل نہ بنایا جائے ۔ مرد، عورت اور بچوں سمیت تمام فریقوں کے حقوق تبھی محفوظ رہ سکتے ہیں جب یہ معاہدہ مستقل ہو، ہمیشہ نبھانے کی نیت سے کیا جائے۔ تھوڑے سے عرصے کے لیے کیا گیا معاہدہ ( نکاح متعہ جو قدیم زمانے سے پورے معاشرے میں رائج تھا) اسلام نے تدریج سے کام لیتے ہوئے قطعی طور پر حرام قرار دیا۔ بعض لوگوں کو رسول اللہﷺ کی طرف سے جاری کردہ قطعی اور ابدی حرمت کاحکم نہ سکا تھا لیکن خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر اور بعدازاں حضرت علیؓ نے اہتمام کیا کہ نکاح متعہ کی امت کا حکم سب لوگوں تک پہنچ جائے۔
پہلے سےرائج نکاح کی ممنوعہ صورتوں میں سے دوسری صورت نکاح شغار کی ہے جس میں ایک عورت کا حق مہر دوسری عورت کا نکاح ہوتا ہے۔ اسلام نے اس بات کا خاص طور پر اہتمام کیا ہے کہ نکاح کا معاہدہ سوچ سمجھ کر کیا جائے ، مرد نکاح سے پہلے ہونے والی بیوی کو دیکھ بھی لے، نکاح کے ذریعے سے ایک ساتھ اسی عورتیں یکجا نہ ہوں جن کا آپس میں خون کا قریبی رشتہ ہوتا کہ خون کا رشتہ نے رشتے کا بھینٹ نہ چڑھے اور پہلے سے قائم شدہ خاندانی تعلق داؤ پر نہ لگے۔ جب نکاح کا معاملہ شروع ہو جائے تو اس میں کسی طرح سے غلط مداخلت نہ ہو اور دلجمعی اور آزادی سے اس معاملے کے ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد یہ معاہدہ اچھی طرح سے طے ہو جائے۔ اسلام نے یہ متعین کر دیا ہے کہ خاندان کی طرف سے ولی ( باپ، بھائی وغیرہ) اور نکاح کرنے والے نوجوانوں سب کی دلی رضا مندی اس میں شامل ہوتا کہ یہ معاہدہ نہ صرف ہمیشہ قائم رہے، کھینچا تانی سے محفوظ رہے بلکہ اسے دونوں طرف سے پورے خاندانوں کی حمایت حاصل رہے۔ نکاح اور شادی کے معاملات میں مختلف معاشروں میں جو توہمات موجود ہوتے ہیں۔
اسلام نے ان کی بھی تردید کی ہے۔ اس بات کو بھی ناپسندیدہ قرار دیا کہ شادی صرف امیر اور اعلی طبقے میں کرنے کی کوشش کی جائے ۔ رسول اللہﷺ نے اپنی کنیز کو آزاد کر کے اس سے شادی کرنے کو نیکی کا بہت بڑا عمل قرار دیا۔ اب کنیزیں میں موجودنہیں لیکن محروم طبقات کی دیندار خواتین سے شادی کے ذریعے، آپ ﷺ کی اس تر غیب پرعمل کی صورت موجود ہے۔ ایسی شادی اگر الله کی رضا کے لیے کی جائے تو یقینا خاندان اور آیندہ نسلوں کے لیے حددرجہ باعث برکت ثابت ہوتی ہے۔ اس کی کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ امام مسلم نے اس کتاب میں خود رسالت ماب ﷺکے نکاحوں اور شادیوں کے خوبصورت نمونوں کے حوالے سے تفصیلی روایتیں پیش کی ہیں۔ ان کے ضمن میں خاندانی رویوں بیوی کا احترام و اکرام ، شادی کی خوشی میں سب کی شرکت کے لیے ولیمے کے اہتمام کی انتہائی خوبصورت تفصیلات سامنے آتی ہیں۔ اس بات کی بھی تلقین کی گئی ہے کہ شادی کی خوشی میں و لیمے میں ) بلائے جانے پر ہر صورت شرکت کی جائے اور ولیمہ کرنے والوں کو بطور خاص کہا گیا ہے کہ وہ ولیمے کو امراء کا مجمع نہ بنائیں ، تمام حلقوں کے لوگوں خصوصا فقراء کو بڑے اکرام سے اس میں شرکت کی دعوت دیں۔
ساری کوششوں کے باوجود نکاح کے معاہدے میں کوئی مسئلہ بھی پیدا ہوسکتا ہے اور طلاق کی نوبت بھی آسکتی ہے، اس لیے امام مسلم نے ضمنا اس کے ضروری پہلووں کی وضاحت کے لیے احادیث مبارکہ بیان کی ہیں۔ آخر میں وہ احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں میاں بیوی کے تعلق میں باہمی رشتوں کے تحفظ اور نئی نسل کی فلاح کے بارے میں ہدایات ہیں ۔ ہر معاملے میں ان باتوں کی وضاحت سے نشاندہی کر دی گئی جن سے احتراز ضروری ہے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے نبی ﷺ کی ازواج مطہرات سے آپ کی تنہائی کے معمولات کے بارے میں سوال کیا، پھر ان میں سے کسی نے کہا: میں عورتوں سے شادی نہیں کروں گا، کسی نے کہا: میں گوشت نہیں کھاؤں گا، اور کسی نے کہا: میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ (آپ کو پتہ چلا) تو آپ ﷺ نے اللہ کی حمد کی، اس کی ثنا بیان کی اور فرمایا: "لوگوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے اس اس طرح سے کہا ہے۔ لیکن میں تو نماز پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں، روزے رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، جس نے میری سنت سے رغبت ہٹا لی وہ مجھ سے نہیں
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ساتھیوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے آپ کے خفیہ اعمال یا پوشیدہ عبادات کے بارے میں دریافت کیا، اس کے بعد ان میں سے ایک نے کہا، میں عورتوں سے شادی نہیں کروں گا، اور دوسرے نے کہا، میں گوشت نہیں کھاؤں گا، تیسرے نے کہا، میں بستر پر نہیں سوؤں گا، (آپ کو پتہ چلا) تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور فرمایا: "لوگوں کو کیا ہو گیا ہے، انہوں نے اس اس طرح کہا ہے؟ لیکن میرا طریقہ یہ ہے، نماز پڑھتا ہوں، اور سوتا بھی ہوں، روزہ رکھتا ہوں، اور چھوڑتا بھی ہوں، اور میں نے عورتوں سے شادی کی ہے، تو جو شخص میرے طرز عمل سے اعراض کرے گا، تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔"
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضرت سعید بن المسیب کی مرسل روایت سے معلوم ہوتا ہے،ازواج مطہرات سے پوچھ کر،کہ آپ کا گھر میں عمل کیا تھا،حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ باتیں کیں،کیونکہ انہیں اپنے اعتبار سے ازواج مطہرات کے بیان کردہ اعمال کم محسوس ہوئے اور انہوں نے خیال کیا،آپ کے اعتبار کے لحاظ سے تو یہ کافی ہیں ،لیکن ہماری حیثیت ومقام کے لحاظ سے ہمیں ان سے زیادہ اعمال کی ضرورت ہے تو آپ نے غلط فہمی دور فرمائی اور ایک اصول بیان فرمایا،کہ میں تم سب سےاللہ تعالیٰ کا خوف وخشیت زیادہ رکھتا ہوں اور اللہ کے احکام وحدود کا سب سے بڑھ کر پابند ہوں،(جیساکہ بخاری شریف میں تصریح موجودہے) اس لیے تمہارے لیے میرا طرز عمل یا طریق کار اوررویہ مشعل راہ ہے تمہیں اس کی پابندی کرنی چاہیے اور جو میرا لائحہ عمل اورطریقہ کافی نہیں سمجھتا،اس کا میرے ساتھ کوئی محبت وعقیدت کا تعلق نہیں ہے اور وہ میرا ساتھی نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas (RA) reported that some of the Companions of Allah's Apostle (ﷺ) asked his (the Prophet's) wives about the acts that he performed in private. Someone among them (among his Companions) said: I will not marry women; someone among them said: I will not eat meat; and someone among them said: I will not lie down in bed. He (the Holy Prophet) praised Allah and glorified Him, and said: What has happened to these people that they say so and so, whereas I observe prayer and sleep too; I observe fast and suspend observing them; I marry women also. And he who turns away from my Sunnah, he has no relation with me.