باب: شوال کے مہینے میں شادی کرنا، شادی کرانا اور شوال میں رخصتی ہونا مستحب ہے
)
Muslim:
The Book of Marriage
(Chapter: It is recommended to get married and arrange marriages in Shawwal, and it is recommended to consummate the marriage in that month)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1423.
وکیع نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے اسماعیل بن امیہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبداللہ بن عروہ سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں میرے ساتھ نکاح کیا، اور شوال ہی میں میرے ساتھ گھر بسایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے کون سی بیوی آپ کے ہاں مجھ سے زیادہ خوش نصیب تھی؟ (عروہ نے) کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پسند کرتی تھیں کہ اپنی (رشتہ دار اور زیر کفالت) عورتوں کی رخصتی شوال میں کریں۔ (جبکہ عربوں میں پرانا تصور یہ تھا کہ شوال میں نکاح اور رخصتی شادی کے لئے ٹھیک نہیں)۔
ازدواج اور گھر بسانا انسان کی فطری ضرورت ہے۔ انسانی نسل کے آگے بڑھنے کا ذر یعہ بھی میں ہے۔ یہ معاملہ مرد و عورت کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے ، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت اور اس کے عطا کردہ فطری اصولوں کی روشنی میں ملک باہمی رضامندی
سے طے ہونا چاہیے۔ اور فریقین کو طے شدہ معاہدے کی پابندی کا عہد اللہ کے نام پر کرنا چاہیے۔ ایسے مکمل معاہدے کے بغیر عورت اور مرد کا اکٹھا ہونا، بظاہر جتنا بھی آسان لگے معاشرے اورنسل کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ جن معاشروں نے اس طرح کی زندگی کی اجازت دی ہے، وہاں مائیں اور ان کے بچے شدید مصائب میں گرفتار اور تباہی کا شکار ہیں۔
کتاب النکاح میں امام مسلم نے سب سے پہلے وہ احادیث بیان کیں جن میں نکاح کی تلقین ہے۔ اس تلقین میں یہ بات بطور خاص ملحوظ رکھی گئی ہے کہ شادی کے معاملے میں مکمل باہمی رضامندی ہو لیکن مالی طور پر یا کسی اور طرح سے شادی کو مشکل نہ بنایا جائے ۔ مرد، عورت اور بچوں سمیت تمام فریقوں کے حقوق تبھی محفوظ رہ سکتے ہیں جب یہ معاہدہ مستقل ہو، ہمیشہ نبھانے کی نیت سے کیا جائے۔ تھوڑے سے عرصے کے لیے کیا گیا معاہدہ ( نکاح متعہ جو قدیم زمانے سے پورے معاشرے میں رائج تھا) اسلام نے تدریج سے کام لیتے ہوئے قطعی طور پر حرام قرار دیا۔ بعض لوگوں کو رسول اللہﷺ کی طرف سے جاری کردہ قطعی اور ابدی حرمت کاحکم نہ سکا تھا لیکن خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر اور بعدازاں حضرت علیؓ نے اہتمام کیا کہ نکاح متعہ کی امت کا حکم سب لوگوں تک پہنچ جائے۔
پہلے سےرائج نکاح کی ممنوعہ صورتوں میں سے دوسری صورت نکاح شغار کی ہے جس میں ایک عورت کا حق مہر دوسری عورت کا نکاح ہوتا ہے۔ اسلام نے اس بات کا خاص طور پر اہتمام کیا ہے کہ نکاح کا معاہدہ سوچ سمجھ کر کیا جائے ، مرد نکاح سے پہلے ہونے والی بیوی کو دیکھ بھی لے، نکاح کے ذریعے سے ایک ساتھ اسی عورتیں یکجا نہ ہوں جن کا آپس میں خون کا قریبی رشتہ ہوتا کہ خون کا رشتہ نے رشتے کا بھینٹ نہ چڑھے اور پہلے سے قائم شدہ خاندانی تعلق داؤ پر نہ لگے۔ جب نکاح کا معاملہ شروع ہو جائے تو اس میں کسی طرح سے غلط مداخلت نہ ہو اور دلجمعی اور آزادی سے اس معاملے کے ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد یہ معاہدہ اچھی طرح سے طے ہو جائے۔ اسلام نے یہ متعین کر دیا ہے کہ خاندان کی طرف سے ولی ( باپ، بھائی وغیرہ) اور نکاح کرنے والے نوجوانوں سب کی دلی رضا مندی اس میں شامل ہوتا کہ یہ معاہدہ نہ صرف ہمیشہ قائم رہے، کھینچا تانی سے محفوظ رہے بلکہ اسے دونوں طرف سے پورے خاندانوں کی حمایت حاصل رہے۔ نکاح اور شادی کے معاملات میں مختلف معاشروں میں جو توہمات موجود ہوتے ہیں۔
اسلام نے ان کی بھی تردید کی ہے۔ اس بات کو بھی ناپسندیدہ قرار دیا کہ شادی صرف امیر اور اعلی طبقے میں کرنے کی کوشش کی جائے ۔ رسول اللہﷺ نے اپنی کنیز کو آزاد کر کے اس سے شادی کرنے کو نیکی کا بہت بڑا عمل قرار دیا۔ اب کنیزیں میں موجودنہیں لیکن محروم طبقات کی دیندار خواتین سے شادی کے ذریعے، آپ ﷺ کی اس تر غیب پرعمل کی صورت موجود ہے۔ ایسی شادی اگر الله کی رضا کے لیے کی جائے تو یقینا خاندان اور آیندہ نسلوں کے لیے حددرجہ باعث برکت ثابت ہوتی ہے۔ اس کی کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ امام مسلم نے اس کتاب میں خود رسالت ماب ﷺکے نکاحوں اور شادیوں کے خوبصورت نمونوں کے حوالے سے تفصیلی روایتیں پیش کی ہیں۔ ان کے ضمن میں خاندانی رویوں بیوی کا احترام و اکرام ، شادی کی خوشی میں سب کی شرکت کے لیے ولیمے کے اہتمام کی انتہائی خوبصورت تفصیلات سامنے آتی ہیں۔ اس بات کی بھی تلقین کی گئی ہے کہ شادی کی خوشی میں و لیمے میں ) بلائے جانے پر ہر صورت شرکت کی جائے اور ولیمہ کرنے والوں کو بطور خاص کہا گیا ہے کہ وہ ولیمے کو امراء کا مجمع نہ بنائیں ، تمام حلقوں کے لوگوں خصوصا فقراء کو بڑے اکرام سے اس میں شرکت کی دعوت دیں۔
ساری کوششوں کے باوجود نکاح کے معاہدے میں کوئی مسئلہ بھی پیدا ہوسکتا ہے اور طلاق کی نوبت بھی آسکتی ہے، اس لیے امام مسلم نے ضمنا اس کے ضروری پہلووں کی وضاحت کے لیے احادیث مبارکہ بیان کی ہیں۔ آخر میں وہ احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں میاں بیوی کے تعلق میں باہمی رشتوں کے تحفظ اور نئی نسل کی فلاح کے بارے میں ہدایات ہیں ۔ ہر معاملے میں ان باتوں کی وضاحت سے نشاندہی کر دی گئی جن سے احتراز ضروری ہے۔
وکیع نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے اسماعیل بن امیہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبداللہ بن عروہ سے، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں میرے ساتھ نکاح کیا، اور شوال ہی میں میرے ساتھ گھر بسایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے کون سی بیوی آپ کے ہاں مجھ سے زیادہ خوش نصیب تھی؟ (عروہ نے) کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پسند کرتی تھیں کہ اپنی (رشتہ دار اور زیر کفالت) عورتوں کی رخصتی شوال میں کریں۔ (جبکہ عربوں میں پرانا تصور یہ تھا کہ شوال میں نکاح اور رخصتی شادی کے لئے ٹھیک نہیں)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں میرے ساتھ شادی کی اور شوال میں میری رخصتی ہوئی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے، مجھ سے زیادہ کون خوش نصیب تھی، (کس سے زیادہ پیار تھا) اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہی پسند تھا کہ وہ اپنے خاندان کی بچیوں کو شوال میں رخصت کریں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha (Allah be pleased with her) reported: Allah's Messenger (ﷺ) contracted marriage with me in Shawwal and took me to his house as a bride during Shawwal. And who among the wives of Allah's Messenger (ﷺ) was dearer to him than I, and' A'isha liked that the women (of her family) should enter the houses as brides during the month of Shawwal.