باب:مہر قرآن کی تعلیم، لوہے کی انگوٹھی اور اس کے علاوہ (کسی بھی چیزکی) تھوڑی یا زیادہ مقدار ہو سکتی ہے، اور جو شخص اس کی وجہ سے مشقت میں نہ پڑے اس کی طرف سے پانچ سو درہم (مہر) ہونا مستحب ہے
)
Muslim:
The Book of Marriage
(Chapter: The Dowry. It is permissible for the dowry to be teaching Quran, a ring of iron or anything else, a small or large amount, And it is recommended for it to be Five Hundred Dirham)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1427.
ثابت نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ (کے لباس) پر زرد (زعفران کی خوشبو کا) نشان دیکھا تو فرمایا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے سونے کی ایک گٹھلی کے وزن پر ایک عورت سےشادی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تمہیں برکت دے۔ ولیمہ کرو، خواہ ایک بکری سے کرو۔‘‘
تشریح:
فوائدومسائل
1۔ (نُوَاةٌ مِّنْ ذَهَبٍ) ایک دينار کے چوتھے حصے كو كہا جاتا تھا۔ اس وقت کی قیمت کے مطابق یہ پانچ درہم بنتے تھے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علبہ نے اپنے ترجمۃالباب (کے عنوان) میں اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ اگرچہ عام حالات میں مردوں کو زعفران لگانے کی اجازت نہیں، لیکن دلہا اس ممانعت سے مستثنیٰ ہے۔
ازدواج اور گھر بسانا انسان کی فطری ضرورت ہے۔ انسانی نسل کے آگے بڑھنے کا ذر یعہ بھی میں ہے۔ یہ معاملہ مرد و عورت کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے ، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت اور اس کے عطا کردہ فطری اصولوں کی روشنی میں ملک باہمی رضامندی
سے طے ہونا چاہیے۔ اور فریقین کو طے شدہ معاہدے کی پابندی کا عہد اللہ کے نام پر کرنا چاہیے۔ ایسے مکمل معاہدے کے بغیر عورت اور مرد کا اکٹھا ہونا، بظاہر جتنا بھی آسان لگے معاشرے اورنسل کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ جن معاشروں نے اس طرح کی زندگی کی اجازت دی ہے، وہاں مائیں اور ان کے بچے شدید مصائب میں گرفتار اور تباہی کا شکار ہیں۔
کتاب النکاح میں امام مسلم نے سب سے پہلے وہ احادیث بیان کیں جن میں نکاح کی تلقین ہے۔ اس تلقین میں یہ بات بطور خاص ملحوظ رکھی گئی ہے کہ شادی کے معاملے میں مکمل باہمی رضامندی ہو لیکن مالی طور پر یا کسی اور طرح سے شادی کو مشکل نہ بنایا جائے ۔ مرد، عورت اور بچوں سمیت تمام فریقوں کے حقوق تبھی محفوظ رہ سکتے ہیں جب یہ معاہدہ مستقل ہو، ہمیشہ نبھانے کی نیت سے کیا جائے۔ تھوڑے سے عرصے کے لیے کیا گیا معاہدہ ( نکاح متعہ جو قدیم زمانے سے پورے معاشرے میں رائج تھا) اسلام نے تدریج سے کام لیتے ہوئے قطعی طور پر حرام قرار دیا۔ بعض لوگوں کو رسول اللہﷺ کی طرف سے جاری کردہ قطعی اور ابدی حرمت کاحکم نہ سکا تھا لیکن خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر اور بعدازاں حضرت علیؓ نے اہتمام کیا کہ نکاح متعہ کی امت کا حکم سب لوگوں تک پہنچ جائے۔
پہلے سےرائج نکاح کی ممنوعہ صورتوں میں سے دوسری صورت نکاح شغار کی ہے جس میں ایک عورت کا حق مہر دوسری عورت کا نکاح ہوتا ہے۔ اسلام نے اس بات کا خاص طور پر اہتمام کیا ہے کہ نکاح کا معاہدہ سوچ سمجھ کر کیا جائے ، مرد نکاح سے پہلے ہونے والی بیوی کو دیکھ بھی لے، نکاح کے ذریعے سے ایک ساتھ اسی عورتیں یکجا نہ ہوں جن کا آپس میں خون کا قریبی رشتہ ہوتا کہ خون کا رشتہ نے رشتے کا بھینٹ نہ چڑھے اور پہلے سے قائم شدہ خاندانی تعلق داؤ پر نہ لگے۔ جب نکاح کا معاملہ شروع ہو جائے تو اس میں کسی طرح سے غلط مداخلت نہ ہو اور دلجمعی اور آزادی سے اس معاملے کے ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد یہ معاہدہ اچھی طرح سے طے ہو جائے۔ اسلام نے یہ متعین کر دیا ہے کہ خاندان کی طرف سے ولی ( باپ، بھائی وغیرہ) اور نکاح کرنے والے نوجوانوں سب کی دلی رضا مندی اس میں شامل ہوتا کہ یہ معاہدہ نہ صرف ہمیشہ قائم رہے، کھینچا تانی سے محفوظ رہے بلکہ اسے دونوں طرف سے پورے خاندانوں کی حمایت حاصل رہے۔ نکاح اور شادی کے معاملات میں مختلف معاشروں میں جو توہمات موجود ہوتے ہیں۔
اسلام نے ان کی بھی تردید کی ہے۔ اس بات کو بھی ناپسندیدہ قرار دیا کہ شادی صرف امیر اور اعلی طبقے میں کرنے کی کوشش کی جائے ۔ رسول اللہﷺ نے اپنی کنیز کو آزاد کر کے اس سے شادی کرنے کو نیکی کا بہت بڑا عمل قرار دیا۔ اب کنیزیں میں موجودنہیں لیکن محروم طبقات کی دیندار خواتین سے شادی کے ذریعے، آپ ﷺ کی اس تر غیب پرعمل کی صورت موجود ہے۔ ایسی شادی اگر الله کی رضا کے لیے کی جائے تو یقینا خاندان اور آیندہ نسلوں کے لیے حددرجہ باعث برکت ثابت ہوتی ہے۔ اس کی کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ امام مسلم نے اس کتاب میں خود رسالت ماب ﷺکے نکاحوں اور شادیوں کے خوبصورت نمونوں کے حوالے سے تفصیلی روایتیں پیش کی ہیں۔ ان کے ضمن میں خاندانی رویوں بیوی کا احترام و اکرام ، شادی کی خوشی میں سب کی شرکت کے لیے ولیمے کے اہتمام کی انتہائی خوبصورت تفصیلات سامنے آتی ہیں۔ اس بات کی بھی تلقین کی گئی ہے کہ شادی کی خوشی میں و لیمے میں ) بلائے جانے پر ہر صورت شرکت کی جائے اور ولیمہ کرنے والوں کو بطور خاص کہا گیا ہے کہ وہ ولیمے کو امراء کا مجمع نہ بنائیں ، تمام حلقوں کے لوگوں خصوصا فقراء کو بڑے اکرام سے اس میں شرکت کی دعوت دیں۔
ساری کوششوں کے باوجود نکاح کے معاہدے میں کوئی مسئلہ بھی پیدا ہوسکتا ہے اور طلاق کی نوبت بھی آسکتی ہے، اس لیے امام مسلم نے ضمنا اس کے ضروری پہلووں کی وضاحت کے لیے احادیث مبارکہ بیان کی ہیں۔ آخر میں وہ احادیث بیان کی گئی ہیں جن میں میاں بیوی کے تعلق میں باہمی رشتوں کے تحفظ اور نئی نسل کی فلاح کے بارے میں ہدایات ہیں ۔ ہر معاملے میں ان باتوں کی وضاحت سے نشاندہی کر دی گئی جن سے احتراز ضروری ہے۔
ثابت نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ (کے لباس) پر زرد (زعفران کی خوشبو کا) نشان دیکھا تو فرمایا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے سونے کی ایک گٹھلی کے وزن پر ایک عورت سےشادی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تمہیں برکت دے۔ ولیمہ کرو، خواہ ایک بکری سے کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائدومسائل
1۔ (نُوَاةٌ مِّنْ ذَهَبٍ) ایک دينار کے چوتھے حصے كو كہا جاتا تھا۔ اس وقت کی قیمت کے مطابق یہ پانچ درہم بنتے تھے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علبہ نے اپنے ترجمۃالباب (کے عنوان) میں اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ اگرچہ عام حالات میں مردوں کو زعفران لگانے کی اجازت نہیں، لیکن دلہا اس ممانعت سے مستثنیٰ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے (کپڑوں) پر زرد رنگ کے آثار دیکھے، تو فرمایا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے ایک عورت سے کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا، کے عوض شادی کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے، ولیمہ کرو، خواہ ایک بکری ہی ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
1۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کپڑوں پر زعفران چھڑکنا جائز ہے، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ، کے نزدیک جائز نہیں ہے اور بعض حضرات کے نزدیک شادی کے وقت رنگدار خوشبو کا استعمال مرد کے لیے بھی جائز ہے، لیکن عام طور پر یہی کیا جاتا ہے یہ رنگ عورت کی خوشبو سے لگ گیا تھا۔ کیونکہ عورتوں کی خوشبو رنگدار اور بلا مہک ہونی چاہیے اور گٹھلی کے برابر سونا، پانچ درہم ہوتا ہے۔ 2۔ نکاح کے بعد ولیمہ کرنا سنت ہے اگرچہ اہل ظاہر اور بعض شوافع نے اسے فرض قرار دیا ہے اور بہتر یہ ہے کہ شب زفاف کے بعد ہو، اور بعض مالکیوں کے نزدیک نکاح کے فوراً بعد بہتر ہے اور ولیمہ کے لیے کوئی مقدار معین نہیں ہے اپنی حیثیت اور طاقت کے مطابق کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas bin Malik (RA) reported that Allah's Apostle (ﷺ) saw the trace of yellowness on 'Abdul Rahman bin 'Auf and said: What is this? Thereupon he said: Allah's Messenger, I have married a woman for a date-stone's weight of gold. He said: God bless you! Hold a wedding feast, even if only with a sheep.