قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ لَا تَحِلُّ الْمُطَلَّقَةُ ثَلَاثًا لِمُطَلِّقِهَا حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ، وَيَطَأَهَا، ثُمَّ يُفَارِقَهَا وَتَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا)

حکم : صحیح

ترجمة الباب:

1433 .   حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ، وَاللَّفْظُ لِعَمْرٍو، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتِ امْرَأَةُ رِفَاعَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ، فَطَلَّقَنِي، فَبَتَّ طَلَاقِي، فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ، وَإِنَّ مَا مَعَهُ مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ؟ لَا، حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ، وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ»، قَالَتْ وَأَبُو بَكْرٍ عِنْدَهُ وَخَالِدٌ بِالْبَابِ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ، فَنَادَى: يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَا تَسْمَعُ هَذِهِ مَا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

صحیح مسلم:

کتاب: نکاح کے احکام و مسائل

 

تمہید کتاب  (

باب: جس عورت کو تین طلاقیں دے دی گئی ہوں وہ طلاق دینے والے کے لیے حلال نہیں حتی کہ وہ اس کے سوا کسی اور خاوند سے نکاح کرے اور وہ اس سے مباشرت کرے ‘پھر وہ اس سے علیحدگی اختیار کرے اور اس کی عادت پور ی ہو جائے

)
 

مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)

1433.   سفیان نے ہمیں زہری سے حدیث بیان کی، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ‬ رضی اللہ تعالیٰ عنہا س‬ے روایت کی، انہوں نے کہا: رفاعہ (بن سموءل قرظی) کی بیوی (تمیمہ بنت وہب قرظیہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: میں رفاعہ کے ہاں (نکاح میں) تھی، اس نے مجھے طلاق دی اور قطعی (تیسری) طلاق دے دی تو میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر (بن باطا قرظی) سے شادی کر لی، مگر جو اس کے پاس ہے وہ کپڑے کی جھالر کی طرح ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: ’’ کیا تم دوبارہ رفاعہ کے پاس لوٹنا چاہتی ہو؟ نہیں (جا سکتی)، حتی کہ تم اس (دوسرے خاوند) کی لذت چکھ لو اور وہ تمہاری لذت چکھ لے۔‘‘ (حضرت عائشہ‬ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ن‬ے) کہا: حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے اور خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ (بن سعید بن عاص) دروازے پر اجازت ملنے کے منتظر تھے، تو انہوں نے پکار کر کہا: ابوبکر! کیا آپ اس عورت کو نہیں سن رہے جو بات وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اونچی آواز سے کہہ رہی ہے۔