Muslim:
The Book of Suckling
(Chapter: It is permissible for a wife to give her turn to a co-wife)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1463.
جریر نے ہمیں ہشام بن عروہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد (عروہ بن زبیر) سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے کوئی عورت نہیں دیکھی جو مجھے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالٰ عنہا کی نسبت زیادہ پسندیدہ ہو کہ میں اس کے پیکر میں ہوں (اس جیسی بن جاؤں) ایک ایسی خاتون کی نسبت جن میں کچھ گرم مزاجی (بھی) تھی، کہا: جب وہ بوڑھی ہو گئیں تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی باری کا دن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دیا۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی باری کا دن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دیا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دو دن دیتے، ایک ان کا دن اور ایک حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا دن۔
رضاعت دودھ پلانے کو کہتے ہیں حقیقی ماں کے علاوہ بھی بچہ جس عورت کا دودھ پیتا ہے وہ اس کا جز بدن بنتا ہے اس سے بچے کا گوشت پوست بنتا ہے،اس کی ہڈیاں نشونما پاتی ہیں وہ رضاعت کے حوالے سے بچے کی ماں بن جاتی ہے اس لیے اس کے ذریعے سے دودھ پلانے والی عورت کا بچے کے ساتھ ایسا رشتہ قائم ہوتا ہے جس کی بنا پر نکاح کا رشتہ حرام ہو جاتا ہے۔رضاعت کی بنا پر یہ حرمت دودھ پلانے والی عورت ، اس کی اولاد،اس کے بہن بھائیوں اور ان کی اولادوں تک اسی طرح پہنچتی ہے جس طرح ولادت کی بنا پر پہنچتی ہے عورت کا دودھ تب اترتا ہے جب بچہ ہو حمل اور بچے کی پیدائش کے ساتھ ، دودھ اترنے کے عمل میں خاوند شریک ہوتا ہے اس لیے دودھ پینے والے بچے کی رضاعت کا رشتہ ،دودھ پلانے والی ماں کے خاوند اور آگے اس کے خونی رشتوں تک چلا جاتا ہے وہ بچے یا بچی کا رضاعی باپ ہوتا ہے ۔ اس کا بھائی چچا ہوتا ہے اس کا والد دادا ہوتا ہے اس کی والدہ دادی ہوتی ہے اس کی بہن پھوپھی ہوتی ہے علی ھٰذا القیاس ان تمام کی حرمت کا رشتہ اسی بچے کا قائم ہوتا ہے جس نے دودھ پیا یا براہِ راست اس کی اولاد کا رضاعت نکاح کی حرمت کا سبب بنتی ہے میراث قصاص،دیت کے سقوط اور گواہی رد ہونے کا سبب نہیں بنتی اس حصے میں امام مسلم نے رضاعت کے علاوہ نکاح، خاندان اور خواتین کی عادت کو حوالے سے کچھ دیگر مسائل بھی بیان کیے ہیں کتاب الرضاع حقیقت میں کتاب النکاح ہی کا ایک ذیلی حصہ ہے جس میں رضاعت کے رشتوں کے حوالے سے نکاح کے جواز اور عدم جواز اور عدم جواز کے مسائل بیان ہوئے ہیں اس کا آخری حصہ کتاب النکاح کا تتمہ ہے۔
جریر نے ہمیں ہشام بن عروہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد (عروہ بن زبیر) سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے کوئی عورت نہیں دیکھی جو مجھے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالٰ عنہا کی نسبت زیادہ پسندیدہ ہو کہ میں اس کے پیکر میں ہوں (اس جیسی بن جاؤں) ایک ایسی خاتون کی نسبت جن میں کچھ گرم مزاجی (بھی) تھی، کہا: جب وہ بوڑھی ہو گئیں تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی باری کا دن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دیا۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی باری کا دن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دیا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دو دن دیتے، ایک ان کا دن اور ایک حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا دن۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہتعالی عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے کسی عورت کو نہیں دیکھا، جس جیسا میں ہونا پسند کرتی، سوائے حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے۔ وہ ایک ایسی عورت تھی جس میں تیزی (حدت) تھی یعنی وہ گرم مزاج تھیں۔ جب وہ بوڑھی ہو گئیں تو اس نے اپنی باری جو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل تھی، مجھے دے دی۔ اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی باری عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دو دن دیتے تھے۔ اس کا اپنا اور سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
مَسْلاَخٌ: جلد، چمڑا یعنی میری آرزو اور تمنا یہ تھی۔ میں ان جیسی ہو جاؤں، کیونکہ وہ انتہائی متین اور سنجیدہ تھیں، نہایت سخی اور صابرہ وعبادت گزار تھیں۔
فوائد ومسائل
حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے محسوس کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے طلاق دے دیں گے اور واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی، اور پھر ان کی خواہش پر کہ میں چاہتی ہوں کہ میں قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں اٹھوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجوع فرما لیا شاید اس کی یہ حکمت ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عملاً اس آیت مبارکہ کی تفسیر بیان کرنا چاہتے تھے کہ اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی زیادتی یا روگردانی کا خطرہ ہو تو ان دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ وہ آپس میں صلح کر لیں (نساء:9۔178) نیز عملاً طلاق دینے اور رجوع کرنے کا امت کے لیے اسوہ چھوڑیں کیونکہ معلم کتاب تھے۔ چونکہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کبرسنی کی بنا پر مردوں کی خواہش نہیں رہی تھی۔ اس لیے انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دی کیونکہ وہ محبوبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھیں۔ جس سے معلوم ہوا عورت اپنی باری اپنی سوکن کو دے سکتی ہےکیونکہ یہ اس کا حق ہے لیکن خاوند کی رضا مندی ضروری ہے۔ اگرخاوند کوباری چھوڑ دے تو پھر خاوند جس کو چاہے دے سکتا ہے۔ شوافع اور حنابلہ کا یہی مؤقف ہے اور احناف میں علامہ ابن الہمام اور شامی نے اس مؤقف کو اختیار کیا ہے لیکن اگردونوں کا دن متصل نہ ہو تو باقی ازواج کی رضا کے بغیر اس کومتصل نہیں کیا جا سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha (Allah be pleased with her) reported: Never did I find any woman more loving to me than Sauda bint Zam'a. I wished I could be exactly like her who was passionate. As she became old, she had made over her day (which she had to spend) with Allah's Messenger (ﷺ) to 'A'isha. She said: I have made over my day with you to 'A'isha. So Allah's Messenger (ﷺ) allotted two days to 'A'isha, her own day (when it was her turn) and that of Sauda.