باب: باہر سے لایا جانے والا سامان (راستے میں جا کر )خریدنا حرام ہے
)
Muslim:
The Book of Transactions
(Chapter: The prohibition of intercepting traders)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1517.
ابن ابی زائدہ، یحییٰ بن سعید اور (عبداللہ) ابن نمیر، ان سب نے عبیداللہ سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ بازار میں پہنچنے سے پہلے سامان حاصل کیا جائے۔ یہ ابن نمیر کے الفاظ ہیں اور دوسرے دونوں نے کہا: نبی ﷺ نے (سامانِ تجارت لانے والوں کو) راستے میں جا کر ملنے سے منع فرمایا۔
تجارت انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ انسانوں کو ہر وقت مختلف اشیاء کی ضرورت رہتی ہے۔ وہ اس کی تمام اشیاء بیک وقت حاصل کر کے ان تمام کا ذ خیرہ نہیں کر سکتا۔ بعض اشیاء کو زیادہ مقدار میں ذخیرہ کیا ہی نہیں جاسکتا، اس لیے ایسے لوگوں کی موجودگی جومختلف اشیاء کو لائیں ، رکھیں اور ضرورت مندوں کو قیمت مہیا کر میں ناگزیر ہے۔
خرید وفروخت کے معاملات اگر انصاف پر مبنی ، دھوکے اور فریب سے پاک اور ضرر سے محفوظ ہوں تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن ہمیشہ ایسا ہوتا نہیں۔ انسانی معاشرے میں تجارت کی تاریخ جتنی پرانی ہے، تجارت کی آڑ میں لوگوں کے استحصال کی تاریخ بھی تقریبا اتنی ہی پرانی ہے۔ اسلام کا مشن یہی ہے کہ انسانی زندگی کے تمام معاملات عدل و انصاف، انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور اجتمائی اور انفرادی فلاح و بہبود پر استوار کیے جائیں۔ انسانی تاریخ میں تجارت کو سب سے پہلے ان بنیادوں پر استوارکرنے کا سہرا اسلام کے سر ہے۔
بعثت سے پہلے عرب سمیت پوری دنیا میں ایسے سودوں ، خرید و فروخت کی ایسی صورتوں کی بھر مارتھی جن میں کسی نہ کسی فریق کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ خرید وفروخت کے طریقوں میں دھوکا شامل تھا۔ اس حوالے سے کیے گئے معاہدوں میں فریب موجود تھا۔ قیمت اور اشیاء اجناس، منفعت یا خدمات جن کا لین دین ہوتا تھا ، ان سب میں فریب شامل تھا۔ عرب میں فریب پرمبی بیع کی جو صورتیں رائج تھیں ان میں ملامسہ اور منابذہ بھی تھیں ۔ اگر خر یدا غور کیے بغیر کپڑے کو چھو لے تو بیع پکی ہوگئی ، مثلا: تم اپنا کپڑا میری طرف پھینک دو، میں اپنا کیر تمھاری طرف پھینک دیتا ہوں سودا کیا ہو گیا، جس کی جو قسمت اسے مل جائے گا۔ میں ایک کنگری پھینکوں گا جس کپڑے کی جس لمبائی تک جائے گی، وہ تمھارا ‘‘ اس میں سوچنےسمجھنے کی گنجائش نہ صحیح پیمائش کی ۔ وہ ایسی چیزوں کی بیع بھی کر لیتے تھے جو ابھی وجود میں نہیں آئیں، اس کا دیکھنا مکن نہ رکھنا ، مثلا: یہ کہ اونٹنی بچہ دے گی ، وہ حاملہ ہو کر پھر بچہ دے گی وہ تمھارا ہوگا ۔ یہ حبل الحبلہ بیع کہلاتی تھی۔
مصنوعی طریقے سے قیمت بڑھانے کے حیلے کیے جاتے تھے۔ اب بھی کیے جاتے ہیں۔ فرضی گا ہک کھڑےکر کے ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں بڑھائی جاتی تھیں ۔ اسے نجش کہا جاتا تھا۔ اب اشتہار بازی کے ذریعے باور کرایا جاتا ہے کہ فلاں چیز آپ کی شدید ضرورت ہے۔ مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ خریدنے میں بھی فریب کا چلن تھا۔ راستے میں جا کر، منڈی کے بھاؤ سے بے خبر مال لانے والوں سے اشیاء خریدنا ، جوشخص منڈی کے ریٹ پر اپنی اشیاء فروخت کرنا چاہتا ہے، اسے زیادہ قیمت کا لالچ دے کر فروخت کی ذمہ داری لینا اور قیمتیں بڑھا کر خود فائدہ اٹھانا اور مہنگائی پیدا کرتا۔ دودھ دینے والے جانورکے تھنوں میں دودھ روک کر زیادہ قیمت پر بیچنا، اشیاءکو تولے یا نا پے بغیر ان کا سودا کر لینا ، باغ کے درختوں پر بور لگتے ہیں یا اس سے بھی پہلے ان کے پھل کا سودا کر دیتا چاہیے بورہی نہ لگے،یالگے تو آندھی یا بیماری وغیرہ کا شکار ہو کر ضائع ہو جائے ۔ فصل پکنے کے بعد اناج اکٹھا کر کے وزن باماپ سے بچنے کی بجائے کھڑی فصل کو اناج کی متعین مقدار کے عوض بیچ دینا، چیز کا عیب چھپا کر دھوکے سےبیچ دینا، غیر منصفانہ طریقے سے زمین کو اجرت پر دینا، یہ سب دھوکے اور فریب کی صورتیں معاشرے میں رائج تھیں۔ رسول اللہ ﷺنے فریب مبنی لین دین کی تمام صورتوں کو حرام قرار دیا۔ دیکھ بھال کر، پرکھ کر اور تسلی سے قیمت چکا کر سودا کرنےکے طریقے رائج فرمائے ۔ لین دین کرنے والے فریقوں کو سودا ہو جانے کے بعد بھی مناسب وقت تک اس کی واپسی کا اختیار دیا۔ عیب اور دھوکے کی بنا پر پتہ لگنے تک واپسی کو یقینی بنایا ۔ غرض چیز، قیمت، خریدار فروخت کرنے والے ، خرید و فروخت کی صورت اور شرائط ، تمام اجزائےبیع کے حوالے سے دیانت و امانت، شفافیت، حقوق کی پاسداری اور کسی بھی غلطی کے ازالے کو یقینی بنایا۔ ان اصلاحات کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں کا انداز تجارت انتہائی مقبول ہو گیا۔ مسلمان تاجر اسلامی معاشرے کے نقیب بن گئے اور عالمی تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔ پوری دنیا نے ان میں سے اکثر اصولوں کو تجارت کی بنیاد کے طور پر اپنا لیا۔ بعض معاشروں نے البتہ سود اور حرام چیزوں کی خرید وفروخت کونئی سے نئی صورتوں میں نہ صرف جاری رکھا بلکہ ان کے ذریعے سے دنیا بھر کا استحصال کیا اور ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ لین دین کے پورے نظام کا بغور جائزہ لیا جائے تو انصاف اور اجتماعی فلاح کی ضمانت انہی اصولوں پر عمل کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے جو اسلام نے رائج کیے ہیں ۔ افسوں کہ خود مسلمان انصاف اور فلاح کے ان اصولوں کوچھوڑ کر ظالمانہ طریقوں پر عمل پیرا ہو گئے اور تجارت میں بھی شدید پسماندگی کا شکار ہو گئے ۔ دوسرے معاشروں نے جس حد تک دیانت و امانت کے اسلامی اصولوں کو اپنایا اسی نسبت سے وہ آگے بڑھ گئے۔ صحیح مسلم کی کتاب البیوع کے بعد کتاب المساقاة والمزارعد بھی لین دین کے اصولوں پر محیط ہے۔
ابن ابی زائدہ، یحییٰ بن سعید اور (عبداللہ) ابن نمیر، ان سب نے عبیداللہ سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ بازار میں پہنچنے سے پہلے سامان حاصل کیا جائے۔ یہ ابن نمیر کے الفاظ ہیں اور دوسرے دونوں نے کہا: نبی ﷺ نے (سامانِ تجارت لانے والوں کو) راستے میں جا کر ملنے سے منع فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
امام صاحب اپنے تین اساتذہ کی سندوں سے، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ تجارتی سامان بازار میں پہنچنے سے پہلے (اس کے مالکوں سے) ملا جائے، یہ ابن نمیر کے الفاظ ہیں اور دوسرے دو اساتذہ نے کہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقی (ملاقات) سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
تلقي الجبلب، تلقي البيوع، تلقي الركبان، تلقي السلع اور تلقي، سب کا مقصد ایک ہی ہے کہ تجارتی قافلہ کو آگے بڑھ کر، شہر سے باہر، پیشتر اس کے کہ انہیں شہر کا نرخ معلوم ہو، ان سے تجارتی سامان خرید لینا، کیونکہ اس میں دو نقصان ہو سکتے ہیں، بیوپاری یا باہر سے آنے والے تاجر کو شہر کے بھاؤ کا علم نہیں ہے، اس لیے وہ سامان اصل قیمت سے جو بازار میں مل سکتی ہے سستا فروخت کر دے گا، شہریوں کو یہ نقصان ہو گا کہ شہر سے باہر خریدنے والا تاجر، اب اس چیز کو بیچنے پر من مانی کرے گا، لوگوں کو اس چیز کی ضرورت ہے لیکن وہ بیچتا نہیں ہے یا بہت مہنگا بیچتا ہے اور اگر سامان شہر میں آ کر بکتا تو دوسرے لوگ بھی خرید سکتے تھے۔ اس بات پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ تجارتی قافلہ کو شہر سے باہر، سامان خریدنے کے لیے ملنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر قافلہ والوں کو شہر کے نرخ کا علم ہو اور اہل شہر کا نقصان بھی نہ ہو، تو پھر امام ابو حنیفہ کے نزدیک جائز ہے، بعض شوافع اور بعض مالکیہ کا قول بھی یہی ہے جیسا کہ بخاری شریف کی، ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم قافلہ والوں کو ملتے اور ان سے غلہ خرید لیتے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کو غلہ منڈی میں لائے بغیر فروخت کرنے سے منع فرما دیا، اور اس کی توجیہ امام بخاری نے یہ فرمائی ہے کہ شہر سے باہر تلقی منع ہے اور بازار کے آغاز میں آ کر، بازار میں لائے بغیر، بھاؤ معلوم ہونے کی بنا پر خرید لینا جائز ہے اور آگے بازار میں لا کر اس کو فروخت کر دیا جائے گا اس سے معلوم ہوا اگر ضرر شہریوں کے لیے نہ ہو اور قافلہ والے نرخ سے بے خبر نہ ہوں۔ تو تلقی میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn 'Umar (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: Do not go out to meet merchandise in the way, (wait) until it is brought into the market.