باب: عرایا کے سوا تازہ کھجور کو خشک کھجور کے عوض بیچنا حرام ہے
)
Muslim:
The Book of Transactions
(Chapter: The prohibition of selling fresh dates in exchange for dry dates except in the case of 'Araya)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1540.
سلیمان بن بلال نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے حدیث بیان کی، انہوں نے بُشیر بن یسار سے، انہوں نے اپنے گھرانے سے تعلق رکھنے والے رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ سے، جن میں سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل ہیں، روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے (درخت پر لگے) پھل کو خشک کھجور کے عوض فروخت کرنے سے منع فرمایا۔ اور آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ سود ہے، یہی (بیع) مزابنہ (کھجور کے درخت پر لگے ہوئے پھل کو خشک کھجور کے عوض فروخت کرنا) ہے۔‘‘ ہاں، البتہ آپﷺ نے عریہ کو بیچنے یا خریدنے کی اجازت دی (عَرِیہ یہ ہے) کہ کوئی خاندان ایک دو کھجور کے درخت (جو بطور عطیہ دے گئے) ان سے حاصل ہونے والی خشک کھجور کے اندازے کے مطابق لے لیں تاکہ وہ اس کا تازہ پھل کھائیں (اور جنہیں درخت دیے گئے ہیں، انہیں خشک کھجور دے دیں۔
تجارت انسانی معاشرے کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ انسانوں کو ہر وقت مختلف اشیاء کی ضرورت رہتی ہے۔ وہ اس کی تمام اشیاء بیک وقت حاصل کر کے ان تمام کا ذ خیرہ نہیں کر سکتا۔ بعض اشیاء کو زیادہ مقدار میں ذخیرہ کیا ہی نہیں جاسکتا، اس لیے ایسے لوگوں کی موجودگی جومختلف اشیاء کو لائیں ، رکھیں اور ضرورت مندوں کو قیمت مہیا کر میں ناگزیر ہے۔
خرید وفروخت کے معاملات اگر انصاف پر مبنی ، دھوکے اور فریب سے پاک اور ضرر سے محفوظ ہوں تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن ہمیشہ ایسا ہوتا نہیں۔ انسانی معاشرے میں تجارت کی تاریخ جتنی پرانی ہے، تجارت کی آڑ میں لوگوں کے استحصال کی تاریخ بھی تقریبا اتنی ہی پرانی ہے۔ اسلام کا مشن یہی ہے کہ انسانی زندگی کے تمام معاملات عدل و انصاف، انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور اجتمائی اور انفرادی فلاح و بہبود پر استوار کیے جائیں۔ انسانی تاریخ میں تجارت کو سب سے پہلے ان بنیادوں پر استوارکرنے کا سہرا اسلام کے سر ہے۔
بعثت سے پہلے عرب سمیت پوری دنیا میں ایسے سودوں ، خرید و فروخت کی ایسی صورتوں کی بھر مارتھی جن میں کسی نہ کسی فریق کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا تھا۔ خرید وفروخت کے طریقوں میں دھوکا شامل تھا۔ اس حوالے سے کیے گئے معاہدوں میں فریب موجود تھا۔ قیمت اور اشیاء اجناس، منفعت یا خدمات جن کا لین دین ہوتا تھا ، ان سب میں فریب شامل تھا۔ عرب میں فریب پرمبی بیع کی جو صورتیں رائج تھیں ان میں ملامسہ اور منابذہ بھی تھیں ۔ اگر خر یدا غور کیے بغیر کپڑے کو چھو لے تو بیع پکی ہوگئی ، مثلا: تم اپنا کپڑا میری طرف پھینک دو، میں اپنا کیر تمھاری طرف پھینک دیتا ہوں سودا کیا ہو گیا، جس کی جو قسمت اسے مل جائے گا۔ میں ایک کنگری پھینکوں گا جس کپڑے کی جس لمبائی تک جائے گی، وہ تمھارا ‘‘ اس میں سوچنےسمجھنے کی گنجائش نہ صحیح پیمائش کی ۔ وہ ایسی چیزوں کی بیع بھی کر لیتے تھے جو ابھی وجود میں نہیں آئیں، اس کا دیکھنا مکن نہ رکھنا ، مثلا: یہ کہ اونٹنی بچہ دے گی ، وہ حاملہ ہو کر پھر بچہ دے گی وہ تمھارا ہوگا ۔ یہ حبل الحبلہ بیع کہلاتی تھی۔
مصنوعی طریقے سے قیمت بڑھانے کے حیلے کیے جاتے تھے۔ اب بھی کیے جاتے ہیں۔ فرضی گا ہک کھڑےکر کے ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں بڑھائی جاتی تھیں ۔ اسے نجش کہا جاتا تھا۔ اب اشتہار بازی کے ذریعے باور کرایا جاتا ہے کہ فلاں چیز آپ کی شدید ضرورت ہے۔ مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ خریدنے میں بھی فریب کا چلن تھا۔ راستے میں جا کر، منڈی کے بھاؤ سے بے خبر مال لانے والوں سے اشیاء خریدنا ، جوشخص منڈی کے ریٹ پر اپنی اشیاء فروخت کرنا چاہتا ہے، اسے زیادہ قیمت کا لالچ دے کر فروخت کی ذمہ داری لینا اور قیمتیں بڑھا کر خود فائدہ اٹھانا اور مہنگائی پیدا کرتا۔ دودھ دینے والے جانورکے تھنوں میں دودھ روک کر زیادہ قیمت پر بیچنا، اشیاءکو تولے یا نا پے بغیر ان کا سودا کر لینا ، باغ کے درختوں پر بور لگتے ہیں یا اس سے بھی پہلے ان کے پھل کا سودا کر دیتا چاہیے بورہی نہ لگے،یالگے تو آندھی یا بیماری وغیرہ کا شکار ہو کر ضائع ہو جائے ۔ فصل پکنے کے بعد اناج اکٹھا کر کے وزن باماپ سے بچنے کی بجائے کھڑی فصل کو اناج کی متعین مقدار کے عوض بیچ دینا، چیز کا عیب چھپا کر دھوکے سےبیچ دینا، غیر منصفانہ طریقے سے زمین کو اجرت پر دینا، یہ سب دھوکے اور فریب کی صورتیں معاشرے میں رائج تھیں۔ رسول اللہ ﷺنے فریب مبنی لین دین کی تمام صورتوں کو حرام قرار دیا۔ دیکھ بھال کر، پرکھ کر اور تسلی سے قیمت چکا کر سودا کرنےکے طریقے رائج فرمائے ۔ لین دین کرنے والے فریقوں کو سودا ہو جانے کے بعد بھی مناسب وقت تک اس کی واپسی کا اختیار دیا۔ عیب اور دھوکے کی بنا پر پتہ لگنے تک واپسی کو یقینی بنایا ۔ غرض چیز، قیمت، خریدار فروخت کرنے والے ، خرید و فروخت کی صورت اور شرائط ، تمام اجزائےبیع کے حوالے سے دیانت و امانت، شفافیت، حقوق کی پاسداری اور کسی بھی غلطی کے ازالے کو یقینی بنایا۔ ان اصلاحات کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں کا انداز تجارت انتہائی مقبول ہو گیا۔ مسلمان تاجر اسلامی معاشرے کے نقیب بن گئے اور عالمی تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔ پوری دنیا نے ان میں سے اکثر اصولوں کو تجارت کی بنیاد کے طور پر اپنا لیا۔ بعض معاشروں نے البتہ سود اور حرام چیزوں کی خرید وفروخت کونئی سے نئی صورتوں میں نہ صرف جاری رکھا بلکہ ان کے ذریعے سے دنیا بھر کا استحصال کیا اور ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ لین دین کے پورے نظام کا بغور جائزہ لیا جائے تو انصاف اور اجتماعی فلاح کی ضمانت انہی اصولوں پر عمل کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے جو اسلام نے رائج کیے ہیں ۔ افسوں کہ خود مسلمان انصاف اور فلاح کے ان اصولوں کوچھوڑ کر ظالمانہ طریقوں پر عمل پیرا ہو گئے اور تجارت میں بھی شدید پسماندگی کا شکار ہو گئے ۔ دوسرے معاشروں نے جس حد تک دیانت و امانت کے اسلامی اصولوں کو اپنایا اسی نسبت سے وہ آگے بڑھ گئے۔ صحیح مسلم کی کتاب البیوع کے بعد کتاب المساقاة والمزارعد بھی لین دین کے اصولوں پر محیط ہے۔
سلیمان بن بلال نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے حدیث بیان کی، انہوں نے بُشیر بن یسار سے، انہوں نے اپنے گھرانے سے تعلق رکھنے والے رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ سے، جن میں سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل ہیں، روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے (درخت پر لگے) پھل کو خشک کھجور کے عوض فروخت کرنے سے منع فرمایا۔ اور آپﷺ نے فرمایا: ’’یہ سود ہے، یہی (بیع) مزابنہ (کھجور کے درخت پر لگے ہوئے پھل کو خشک کھجور کے عوض فروخت کرنا) ہے۔‘‘ ہاں، البتہ آپﷺ نے عریہ کو بیچنے یا خریدنے کی اجازت دی (عَرِیہ یہ ہے) کہ کوئی خاندان ایک دو کھجور کے درخت (جو بطور عطیہ دے گئے) ان سے حاصل ہونے والی خشک کھجور کے اندازے کے مطابق لے لیں تاکہ وہ اس کا تازہ پھل کھائیں (اور جنہیں درخت دیے گئے ہیں، انہیں خشک کھجور دے دیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بشیر بن یسار اپنے محلہ کے بعض صحابہ سے بیان کرتے ہیں، ان میں حضرت سہل بن ابی حشمہ ﷺ بھی داخل ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تازہ پھل کو خشک پھل کے عوض بیچنے سے منع فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ سود ہے، یہ مزابنہ ہے۔‘‘ مگر آپﷺ نے عریہ بیچنے کی رخصت دی، یہ ایک دو کھجوریں ہیں یعنی ان کا پھل جسے کوئی گھرانہ، اندازہ کر کے خشک کھجوروں کے عوض لے لیتا ہے تاکہ تازہ کھجوریں کھا سکیں۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ کی حرمت کا سبب سود قرار دیا ہے اور ظاہر بات ہے اگر تازہ کھجوریں خشک کھجوروں کے عوض برابر، برابر بھی دی جائیں تو تازہ کھجوروں نے خشک ہو کر کم ہونا ہے۔ اس طرح کمی و بیشی ہو جائے گی جو سود ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Bashair bin Yasir reported on the authority of some of the Companions of Allah's Messenger (ﷺ) among the members of his family among whom one was Sahl bin Abu Hathma that Allah's Messenger (ﷺ) forbade buying of fresh dates against dry dates and that it is Riba and this is Muzabana, but he made an exemption of 'ariyya (donations) of a tree or two in which case the members of a family sell dry dates and buy fresh dates for eating them.